خبریں/تبصرے

الجزائر: جرنیل شاہی کیخلاف 9 ماہ سے جاری جمعہ وار عوامی بغاوت!

فاروق سلہریا

اکتوبر کے مہینے میں ایکواڈور، چلی، لبنان اور عراق میں جاری عوامی مظاہرے شہ سرخیوں پر حاوی رہے مگر الجزئر میں جاری عوامی بغاوت بھی دنیا بھر میں جمہوری قوتوں کی توجہ اور یکجہتی کی مستحق ہے۔

22 فروری، جمعے کا دن تھا۔ لاکھوں لوگ ملک بھر میں سڑکوں پر نکل آئے۔ وہ صدر عبدالعزیز بوتفلیقا کے اس اعلان پر غصے میں تھے کہ َاسی سالہ بابا جی، جو 2013ء سے فالج کا شکار ہونے کے بعد ہلنے جلنے کے بھی قابل نہیں، پانچویں بار صدر بننا چاہتے ہیں۔

پھر کیا تھا۔ ہر جمعے کے دن لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آتے۔ لوگوں کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لئے فوج نے، جو اصل حکمران ہے، صدر سے استعفیٰ لے لیا۔ لوگوں کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوا۔ جمعے کے جمعے، لاکھوں لوگ تو سڑکوں پر نکل ہی رہے تھے، لیکن طالب علموں نے اعلان کیا کہ وہ ہر منگل کو عوامی مظاہرے کریں گے۔

اب کئی مہینوں سے ہر منگل کے دن طالب علم سڑکوں پر نکلتے ہیں اور جب ’روزنامہ جدوجہد‘ کے قارئین آج یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے، الجزائر میں لاکھوں لوگ: مرد، عورتیں، بچے، بوڑھے، نوجوان۔ ۔ ۔ پر امن مارچ کی تیاری کر رہے ہوں گے۔

ان مظاہروں کا اثر تھا کہ جولائی میں ہونے والے انتخابات ملتوی کر دئیے گئے۔ لوگ فوج کے زیرِ اہتمام انتخابات نہیں چاہتے۔ فوج دسمبر میں انتخابات کرانا چاہتی ہے۔ مظاہرین ان انتخابات کو ایک ڈھونگ قرار دے رہے ہیں۔

شروع میں لوگ فوج کو براہِ راست نشانہ نہیں بنا رہے تھے مگر ”[الجزائری] جرنیل ردی کی ٹوکری میں“ اب ایک مقبولِ عام نعرہ بن چکا ہے۔

قارئین کو یاد ہو گا کہ عرب دنیا میں اس سال سیاسی ہلچل کا آغاز سوڈان سے ہوا جہاں ایک مذہبی جنونی حکومت کو تیس سال کے بعد عوامی بغاوت کے ہاتھوں رخصت ہونا پڑا۔ زبر دست جبر اور ہلاکتوں کے بعد بھی تحریک جاری رہی۔ آخر سوڈانی فوج کو عبوری حکومت بنانی پڑی اور اب سوڈان انتخابات کی تیاری میں ہے۔

سوڈان کے بعد الجزائر سڑکوں پر امڈ آیا۔ یہ تحریک جاری ہے۔

لبنان اور عراق پچھلے مہینے سڑکوں پر نکل آئے۔ لبنان کا وزیر اعظم سعد حریری مستعفیٰ ہو چکا ہے۔ عراق کا وزیر اعظم استعفیٰ کی پیش کش کر چکا ہے۔ عراق میں اب تک270 سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔

لوگ نہ لبنان میں سڑکیں خالی کر رہے ہیں نہ عراق اور الجزائر میں۔ ہر جگہ طالب علم اور نوجوان (لبنان میں عورتوں کی ایک بہت بڑی تعداد) ان بغاوتوں کی ہراول ہے۔

لوگ چہروں کی نہیں، نظام کی تبدیلی مانگ رہے ہیں۔

ان سب مظاہروں کی ایک اور مشترکہ بات: یہ بغاوتیں کسی سیاسی جماعت کے کہنے پر نہیں پھوٹیں۔ یہ خود رو ہیں۔ روایتی سرمایہ دار اور مذہبی جنونی قیادتیں پٹ گئی ہیں۔ ایران کا رہبر اعلیٰ بلا وجہ سر نہیں پیٹ رہا۔

دلچسپ بات ہے ایران کے لبنانی نمائندے حسن نصراللہ کو بھی شروع میں لبنان کی بغاوت ایک سازش دکھائی دے رہی تھی مگر اب وہ مظاہرین کے مطالبے ماننے پر اصرار کر رہے ہیں!

شام، لیبیا اور کسی حد تک مصر میں خونی برساتیں جھیلنے کے بعد عرب بہار واپس آ رہی ہے۔ اب کی بار وہ محتاط بھی ہے، تجربہ کار بھی مگر پہلے کی طرح بے باک اور نڈر۔

عرب بہار کو خوش آمدید!

عرب بہار کے لئے نیک تمنائیں!

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔