پاکستان

آزادی مارچ پر طفلانہ طبقاتی تجزیے!

فاروق سلہریا

سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بعض ترقی پسند لوگ بھی مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ میں شامل شرکاکے طبقاتی کردار پر دوستانہ اور ہمدردانہ انداز میں روشنی ڈال رہے ہیں۔

ایک تصویر کافی وائرل ہوئی جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اس مارچ میں شامل ایک شخص نے اپنے ٹوٹے ہوئے سینڈل کو رسی سے باندھ رکھا ہے۔

شرکائے آزادی مارچ کے طبقاتی رنگ کو گلوریفائی کرنے یعنی اسے بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا کام جیو کے اینکر پرسن حامد میر نے کیا۔ ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ اس آزادی مارچ کا مقابلہ پی ٹی آئی کے دھرنے سے کرتے ہوئے بتا رہے ہیں کہ ِاس دھرنے میں شریک لوگوں نے عطر لگا رکھی ہے جبکہ اُس دھرنے میں ہر طرف پرفیوم کی خوشبوئیں آتی تھیں (یعنی مڈل کلاس مغرب زدہ عورتیں ہوتی تھیں)، اِس دھرنے میں غریب لوگ شامل ہیں جبکہ اُس دھرنے میں امیر لوگ تھے۔

اس بات کو دہرانے کی ضرورت نہیں کہ ہمارے بہت ہی محترم دوست حامد میر ایک زمانے میں طالبان کو گلوریفائی کیا کرتے تھے اور پی ٹی آئی کے رہنما”کیپیٹل ٹاک“ میں نجات دہندہ بن کر نمودار ہوتے تھے۔

حامد میر کی مذکورہ بالا ویڈیو بھی خوب شیئر کی گئی۔ اس کی شاید ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عمران خان کے حامی اور بعض صورتوں میں پنجابی شاونسٹ مارچ کے شرکا کا طبقاتی بنیادوں پر مذاق اڑا رہے ہیں۔ شرکا کے حلئے، ان کے لباس اور ان کے طریقہ تفریح کا تمسخر اڑایا جا رہا ہے جو کہ انتہائی شرمناک ہے۔

ممکن ہے بعض لوگوں نے اس شرمناک روئیے کے خلاف، بطور احتجاج بھی مارچ میں شامل لوگوں کے طبقاتی کردار کو اجاگر کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے مبینہ حامیوں سے برات کا اظہار کیا ہو۔

یہ سوال بہر حال اہم ہے کہ مارچ میں شامل افراد کی غالب اکثریت پسماندہ طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔ ایسے میں سوشلسٹ قوتوں کا موقف کیا ہونا چاہئے؟

راقم کی نظر میں سوشلسٹ طریقہ کار کے مطابق ہم محض کسی سیاسی قوت کی طبقاتی ساخت کو نہیں دیکھتے۔ ہم اس قوت کی آئیڈیالوجی (نظریہ)، سیاسی نصب العین، پروگرام، ماضی، مستقبل اور ممکنہ سیاسی داؤ پیچ کا بھی تجزیہ کرتے ہیں۔

آئیے ذرا جمعیت العلمائے اسلام (جے یو آئی) کا تجزیہ کرتے ہیں۔

یہ ایک بنیاد پرست سیاسی جماعت ہے۔ یہ کوئی ویسی اصلاح پسند مذہبی قوت نہیں جسے لاطینی امریکہ میں ”لبریشن تھیالوجی“ کہا جاتا ہے۔ سعودی عرب، ایران، افغانستان (طالبان)، سوڈان اور داعش یا بوکو حرام کے تجربات کے بعد یہ دہرانے کی ضرورت نہیں کہ بنیاد پرستی کا مطلب ہے محنت کش طبقے کی شکست، عورت کی گھر میں قید، مذہبی اقلیتوں پر جبر، آزادیِ اظہار کا خاتمہ اور نیو لبرل سرمایہ داری۔ مذہبی بنیاد پرستی بی جے پی کی شکل میں ہو یا آلِ سعود کی شکل میں، اس کا مطلب ہے لوگوں کو مذہب کے نام پر تقسیم کرتے ہوئے پہلے انہیں کمزور کرنا اور پھر ان کا بد ترین معاشی استحصال کرنا۔

مگر مولانا تو جمہوریت کی بات کر رہے ہیں؟

جی ہاں! مگر یہ ُاسی وقت تک جمہوریت پسند ہیں جب تک ان کا ایجنڈا جمہوری طریقوں سے آگے بڑھ رہا ہو۔ اگر آپ کسی سیاسی قوت کے اصل ایجنڈے کو نہیں سمجھ سکتے تو سیاست چھوڑ دیجئے۔

بنیاد پرست سیاسی جماعتوں اور سماجی تحریکوں کی ساخت اور اندرونی ڈھانچے کو دیکھئے۔ آپ کو کہیں نہ جمہوریت نظر آئے گی نہ برابری۔

جو لوگ اپنی تنظیموں میں جمہوریت نہیں لا سکتے، وہ ملک میں جمہوریت لائیں گے؟
جمہوریت اور سیکولرازم لازم و ملزوم ہیں۔ جمہوریت میں برابری لازم و ملزوم ہے۔ بنیاد پرستی مسلم اور غیر مسلم اوراسی طرح مرد و عورت کی برابری (یعنی صنفی برابری) پر یقین نہیں رکھتی۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت تو جے یو آئی کی اپنی حکومت ہے جو اس جماعت نے مشرف دور میں صوبہ خیبر پختونخواہ میں پانچ سال چلائی۔ نوکری تو ایک نہیں دی، سڑک تو ایک بھی مکمل نہیں کر سکے مگر عورتوں کے علیحدہ قبرستان کے منصوبے ضرور بنائے گئے۔

اگر تو ہم نے کسی قوت کی محض اس لئے حمایت کرنی ہے کہ اسے کسی پس ماندہ طبقے میں حمایت حاصل ہے تو پھر تو انقلابی یا سوشلسٹ تبدیلی کا امکان ہی ختم ہو جاتا ہے۔

محنت کش طبقے میں پدر سری، توہم پرستی یا غیر سائنسی رجحانات اکثر غالب رہتے ہیں۔ اسی کا نتیجہ ہوتا ہے کہ بعض اوقات وہ بنیاد پرست قوتوں اور کچھ موقعوں پر سرمایہ دار رجعت پرست جماعتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ ایسے حالات اور ادوار میں ایک سوشلسٹ کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنی کم طاقت کے باوجود درست سمت میں گامزن رہے، صحیح تجزیہ کرے اور سوشلسٹ شعور کی بنیاد پر طبقاتی تحریک کی تعمیر جاری رکھے۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔