پاکستان

آزادی مارچ کیا گل کھلائے گا؟

فاروق طارق

آزادی مارچ نے دھوم مچائی ہوئی ہے، اس کے چرچے ہر سو ہیں، ایک مولانا جو عام انتخاب ہار گیا تھا اب سڑک کی طاقت پر سیاست کا محور بنا ہوا ہے۔ ہزاروں لوگ چار روز سے سڑک پر ہیں۔ حد درجہ عمدہ منصوبہ بندی کی وجہ سے اس مارچ کو اپنی لچکدار حکمت عملی کی بدولت کسی قسم کے نقصان کے بغیر اسلام آباد تک پہنچانے میں اس مذہبی گروہ نے کمال کا کام کیا ہے۔

حکومت اور آزادی مارچ کے آرگنائزرز‘دونوں کی اسلام آباد حکمت عملی پر اندازے لگائے جا رہے ہیں۔ کھیل کھل کر نہیں کھیل رہے بلکہ ایک دوسرے کو موقع بھی دے رہے ہیں اور مرنے مارنے کی تیاریاں بھی جاری ہیں۔

ایک معاہدہ ہے بھی اور نہیں بھی؛ دستخط نچلے لیول کے رہنماؤں اور افسران نے کئے ہیں۔ یہ معاہدہ حکومت کی جیت نہیں بلکہ یہ اس کے تذبذب کو ظاہر کرتا ہے۔

جوں جوں اسلام آباد قریب آ رہا ہے حکمران طبقات میں بے چینی کی لہر بڑھتی جا رہی ہے۔ اب مولانا فضل الرحمان کو بھول کر بھی مولوی ڈیزل جیسے سیاسی طنزیہ القاب سے پکارا نہیں جا سکتا۔

یہ کمال ہے تحریک انصاف کی گرتی پڑتی، جھول کھاتی، کمزور مگر ”لائی گئی“ حکومت کی ایک سالہ کارکردگی کا کہ جس نے بھی اس کے خلاف کھڑے ہونے میں پہل کر لی وہ مقبول ہو گیا۔ کرپشن کے نام پر جیتنے والی جماعت نے وہ گندہ کام کیا کہ آج صرف چار فیصد عوام کرپشن کو نمبر ایک مسئلہ سمجھتے ہیں، 53 فیصد عوام مہنگائی کو اور 23 فیصد بے روزگاری کو بجا طور پر پہلا مسئلہ قرار دیتے ہیں۔

پاکستان میں سرمایہ داری کی محافظ حکومتوں میں شائد یہ حکومت اولین مثال ہے جو ایک سال میں اس قدر عوام سے کٹ چکی ہے۔ مسائل پیدا کردہ ایک نیا ایشو روازنہ عوام کو درپیش ہوتا ہے اور عوامی نفرت میں مسلسل اضافہ ہی اس کا قدرتی ردعمل نظر آتا ہے۔

آزادی مارچ کے اسلام آباد پہنچنے سے پہلے ہی کسی نے اگر فائدہ اٹھایا ہے تو وہ تاجر ہیں جنہوں نے اپنی طبقاتی بنیادوں کے عین مطابق معمولی مراعات لے کر ہڑتال ختم کر دی۔ تاجروں کے مطالبات ماننے سے حکمران طبقات کے نیو لبرل ایجنڈے کے اطلاق میں تھوڑی دیر ہوئی ہے، اسے ختم نہیں کیا گیا۔

دوسری طرف ڈاکٹروں کی ہڑتال دو ہفتوں سے مسلسل جاری ہے جو صحت کی اصلاحات کے نام پر رد اصلاحات کے خلاف روز بروز کمزور ہونے کی بجائے مزید طاقت پکڑ رہی ہے۔ گرینڈ ہیلتھ الائنس نے نوجوان ڈاکٹروں، پیرا میڈیکل سٹاف اور ان کے حامیوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر کے درست جانب پیش قدمی کی ہے۔ کمرشل میڈیا اسے اپنے طبقاتی کردار کے عین مطابق مکمل نظرانداز کرنے کی روش پر گامزن ہے۔ یہ ہے وہ تحریک جس میں پاکستان میں سوشلزم کے داعیوں کو آنکھیں بند کرکے شامل ہو جانا چاہیے۔

یہ آزادی مارچ ہے یا دھرنا؛ ایک دو روز میں یہ واضح ہو جائے گا۔ یہ آزادی مارچ کیا گل کھلائے گا یہ تو زیادہ واضح نہیں لیکن مولانا فضل الرحمان ٹھنڈے کھلاڑی ہیں، جم کر کھیل رہے ہیں۔ مولانا اپنا کم سے کم نقصان کرائیں گے۔ وہ حکمرانوں کو روز یاد کراتے ہیں کہ کراچی سے لاہور تک ایک بھی گملا نہیں ٹوٹا۔ گملا تو نہیں ٹوٹا مگر اس نے تحریک انصاف کے گلشن کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ وہ اسلام آباد میں جا کر وہ کرتے نظر نہیں آتے جو عمران خانی گروہ اور مولوی طاہرالقادری اپنے دھرنے کے دوران کرتے رہے۔ لگتا ہے کہ مولانا فضل الرحمان آزادی مارچ کرنے آئے ہیں دھرنا دینے نہیں، وہ استعفیٰ شائد لے کر نہ جائیں مگر استعفیٰ لینے کی بنیادیں رکھنے والوں میں شمار ضرور ہوں گے۔ جو کچھ موجودہ حکمران کر رہے ہیں وہی کچھ سعد حریری نے لبنان میں کیا تھا۔ وہ تو استعفیٰ دے کر جان بچا کر پیچھے ہٹ گیا مگر عمران خان زیادہ ڈھیٹ ھڈی ہے، یہ ابھی اڑے گا اور اس کے بقول فوج اس کے پیچھے کھڑی ہے۔

بائیں بازو اور سوشلسٹوں کی واضح اکثریت اس مارچ کے ساتھ نہیں جبکہ عوامی نیشنل پارٹی اور نیشنل پارٹی اس کا کھل کر ساتھ دے رہی ہیں۔ مولانا ان دونوں پارٹیوں کے ساتھ جو کچھ ماضی میں کرتا رہاہے وہ اب انکی موجودہ حمایت کی وجہ سے تبدیل نہ ہو گا۔

مولانا نے تو عورتوں کو اس مارچ میں آنے سے منع کر دیا تھا۔ کیونکہ انکی سیاست تو عورتوں کی چادراور چار دیواری سے باہر نہ آنے سے ہی آگے بڑھتی ہے۔ یہ رجعتی خیالات کو ہر وقت ہر جگہ فروغ دیتے ہیں۔ جمہوریت کی کوئی ایک شکل بھی ان کی سرشست کے ہی خلاف ہے۔

جمہوریت انکے مذہبی ایجنڈے کو عمل میں لانے کا ایک ذریعہ ہے، یہ جس قسم کی جمہوریت کے قائل ہیں وہ مذہبی لفافے سے باہرنہیں آ سکتی۔ انکا یہ مطالبہ کہ ہم انکے خلاف ہیں جو انہیں لے کر آئے ہیں ایک وقتی ڈھکوسلہ ہے جو اس وقت بکتا ہے اور مقبول عام بیانیہ ہے۔ یہ انکی جھولی میں سب سے پہلے گرنے والوں میں شامل ہوں گے اگر جھولی ان کی متمنا ہوئی تو۔

یہ آزادی مارچ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں تبدیلیاں لانے کا باعث بن سکتا ہے مگر اور زیادہ دائیں جانب؛ شائد فوری نہیں مگر بنیادیں تو اس نے رکھ دی ہیں۔

محنت کش طبقہ اس مارچ سے الگ اپنی عوامی تحریک سے ان سرمایہ درانہ، جابرانہ اور سامراجی ایجنڈے پر کام کرتی حکومت کے خلاف جدوجہد جاری رکھے گا مگر کسی بھی جواز پر ان کے ساتھ مل کر سیاست کرنے کو تیار نہیں۔

Farooq Tariq
+ posts

فارق طارق روزنامہ جدوجہد کی مجلس ادارت کے رکن ہیں۔ وہ پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری ہیں اور طویل عرصے سے بائیں بازو کی سیاست میں سرگرمِ عمل ہیں۔