ایاز ملک
جمہوری جدوجہد کا یک سمتی و مرحلہ وار تصور
مولانا مارچ اور اس کی عمران باجوہ سرکار سے نوک جھونک کے تحت پاکستانی سیاست میں ”سول فوجی عدم توازن“کے پرانے سوالات ایک بار پھر منظرِ عام پر ابھرے ہیں۔ لبرلزسے لے کر بائیں بازو تک ترقی پسند حلقوں میں اس دھرنے نے بحث و تذبذب کو جنم دیا۔ ایک طرف اسٹبلشمنٹ پوری طرح حکومت کی پشت پناہی کر رہی ہے (بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ حکومت چلا ہی اسٹبلشمنٹ رہی ہے)، دوسری طرف ”سول بالادستی“ و جمہوریت کے لئے دھرنے کی قیادت ایک ایسی مذہبی جماعت کر رہی ہے جو سماجی مسائل پر رجعت پسندانہ رویوں کی حامل ہے (جیسے کہ صنفی جبر، احمدیوں کے ساتھ امتیازی سلوک وغیرہ)۔
یوں ترقی پسندوں میں بحث کے خد و خال بھی حیرانی کا باعث نہیں: اگر ایک دھڑا مولانا اور ان کے متزلزل اتحادیوں کو اپنی سہولت کے تحت ”اسٹبلشمنٹ مخالف“ قرار دیتا نظر آتا ہے، تو دوسرا دھڑا مولانا کے مارچ کی تنقیدی و مشروط حمایت کا حامی نظر آتا ہے۔
اس موخر الذکر رجحان کی توجہ مولانا کی سیاست میں فوجی مداخلت کے خلاف اور بظاہر دستور العمل جمہوریت کے عمومی رجحان کے حوالے سے مطالبات پر ہے۔ اس رجحان کے لئے ملک میں کسی بھی مثبت تبدیلی کے لئے رسمی یا باضابطہ جمہوریت کا استوار ہونا پہلا اٹل قدم ہے۔ اور اس سے منسلک یہ کہ ”سول فوجی عدم توازن“اور لبرل جمہوری اقدار کے براہِ راست سوالات کے موازنے میں نظریاتی یا اساسی و ٹھوس جمہوریت کے سوالات (جیساکہ طبقاتی سوال، صنفی جبریا علاقائی نا ہمواری) کو دوسرے درجے یا مرحلے پر رکھا جائے۔
سطحی طور پر سول فوجی خلش پر اس غیر معمولی یا اولین توجہ کو اس روش کے مقابل کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے جس کے تحت پاکستان میں تمام مسائل کی جڑ ”کرپشن“ ہے لیکن ”کرپشن“ ایک ایسی بے معنی اصطلاح ہے جس کا مطلب سب کچھ ہونے کے ناطے کچھ بھی نہیں ہوتااور جس کو عسکری حلقے محض اپنے محدود و منتخب ”احتساب“کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
اس لئے ”کرپشن“ کو اولین و واحد مسئلہ سمجھنے والے رجحان پر کچھ خاص روشنی ڈالنے کی ضرورت نہیں لیکن جہاں ہم پاکستانی سیاست میں ”سول فوجی عدم توازن“ کے خلاف اور باضابطہ جمہوریت کے لئے جدوجہد کو فوقیت دینے والوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں، وہاں ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کے اس رجحان میں جمہوری جدوجہد کا مرحلہ وار تصور نا صرف محدود ہے بلکہ اس کے تحت محض رسمی و با ضابطہ جمہوریت کی دور رس استواری بھی ممکن نہیں۔
بنیادی طور پر یہ مرحلہ وار تصور، جس کے تحت رسمی جمہوریت کے سوالات کو ٹھوس جمہوریت کے سوالات پر وقتی فوقیت حاصل ہے، اپنے زاویہ سماج و تاریخ میں ماڈرنائزیشن تھیوری کے فرسودہ و غلط ثابت ہوئے نکات سے مماثلت رکھتا ہے۔
ماڈرنائزیشن تھیوری سماجی ”ترقی“کو یک سمتی و مرحلہ وار عمل سمجھتی ہے جس کے تحت تمام ممالک مخصوص مرحلات و اقدام کے ذریعے صنعتی ترقی کی طرف ایک ہی رستہ اپنا سکتے ہیں۔
اگر ماڈرنائزیشن تھیوری علمی و تاریخی طور پر غلط ثابت ہوئی تو اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ سرمایہ داری نظام کے ان تاریخی و عالمی عوامل سے لا علم تھی جن کے تحت عالمی سطح پر کچھ ممالک کی سرمایہ داری نظام میں برتری کا انحصار دوسرے ممالک کی پسماندگی میں ہوتا ہے۔
سول فوجی خلش پر اس طرح کی غیر معمولی توجہ بھی مندرجہ بالا مماثلت یک سمتی و مرحلہ وار تصور سے جنم لیتی ہے جو حالانکہ اپنے مقاصد میں غلط نہیں لیکن ان مقاصد کو حاصل کرنے کے عوامل و اقدام کے حوالے سے محدود ہے۔ یوں ماڈرنائزیشن تھیوری کے مماثل، رسمی و با ضابطہ جمہوریت کی طرف یہ رجحان بھی اس وسیع تر سماجی و تاریخی رجحانات کو سمجھنے میں محدود ہے جس کے تحت پاکستان میں سول فوجی خلش اور جمہوری اقدار پر قد غن روز بہ روز زور پکڑتی جا رہی ہے۔ اس طرح جمہوری سوال کی تاریخی و سماجی طور پر محدود تفہیم کا نتیجہ سماجی طور پر محدود ہونے کے علاوہ اکثر غلط سیاسی عمل و مفروضوں کی صورت میں نکلتا ہے۔ جیساکہ مارکس اپنی تحریر ”یہودیت کے سوال“میں لکھتے ہیں ”سوال کی تشکیل میں اس کا جواب پنہاں ہے“۔
ایک بے ربط حکمران گٹھ جوڑ
لبرل و ترقی پسند حلقوں میں ٹھوس جمہوریت کے سوال پر باضابطہ جمہوریت کے سوال کی زمانی فوقیت اور اس کے تحت ”سول فوجی عدم توازن“ سیاست کی اولین دراڑ بن کر ابھرنے کو سمجھنے کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ پاکستانی سیاست میں فوجی سول خلش کی اہمیت اور اس کی بنیاد کیا ہے۔
ادھر یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ ہمارا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ پاکستانی سیاست میں سول فوجی خلش یا باضابطہ جمہوریت کی جدوجہد کی کوئی اہمیت نہیںبلکہ یہ کہ اس تقسیم کی سماجی بنیاد اور اس کی سمجھ بوجھ سیاسی لائحہ عمل اور اس کے تعین پر اثر انداز ہوتی ہے۔ یوں ہم مختصراً اس سیاسی خلش کی سماجی بنیادوں پر روشنی ڈالیں گے۔
سول فوجی خلش کو سیاسی منطر نامے پر اولین حیثیت دینے والے رجحان کا مفروضہ اول ریاست کا ایک تجریدی اور خیال پسندانہ تصور ہے: یعنی کہ ریاست کی ایسی تشریح جو سماج سے الگ یا آزاد اداروں کا ایک ایسا مجموعہ ہے جس میں ہر ادارے کا مخصوص دائرہ کار ہو جس کے تحت ریاستی ادارے شہریوں کی زندگی، آزادی اور جائیداد کی حفاظت کریں۔ یوں سیاسی جدوجہد کا دائرہ کار اس لبرل ادہ جاتی انتظام کا متحرک توازن برقرار رکھتا ہے جبکہ عسکری تجاوزات کے خلاف جدوجہد ”سول بالادستی“اور باضابطہ جمہوریت کے مطالبات کی شکل لیتی ہے۔
لیکن تاریخی اور تجریدی طور پر ایک ٹھوس نقطہ نظر کے تحت ریاست سماج سے ماورا مخصوص اداروں کا مجموعہ نہیں بلکہ یہ سماجی طور پر پیوست و بالادست طبقات کی طاقت کا ادارہ جاتی و سیاسی مظہر ہے۔ یوں ریاستی طاقت و سیاسی جدوجہد کا کلیدی عضویاتی رشتہ سماجی زندگی کے مختلف شعبہ جات (جیسے کے معیشت و سول سوسائٹی) میں کثیف ہونے والی طاقت و اجارہ داری کے اظہار سے ہے۔ اس نقطہ نظر کے تحت باضابطہ جمہوری عوامل کا فروغ یا اس میں سول فوجی خلش کے تحت خلل پڑنا لبرل ادارجاتی ریاست کے تصوراتی ”توازن“کی نفی نہیں بلکہ لبرل ریاست کا وقتی ”توازن“ یا اس سے دوری کا انحصار بھی ریاست و سماج میں تاریخی طور پر جاری طبقاتی و سماجی جدوجہد ہے۔
یوں سیاسی منظر نامے میں فوجی بالادستی محض ایک تصوراتی یاآئیڈیل توازن سے دوری نہیں بلکہ پاکستان کے وسیع تر سماجی منظر نامے کی تاریخی ہیت و ارتقا کا نتیجہ اور اس کا اظہار ہے۔ یوں کسی بھی بالادست طبقے یا بالادست طبقات کے اتحاد کو اپنی مستحکم حاکمیت کے لئے یہ تعین کرنا بہت ضروری ہوتا ہے کہ ان میں سے کون اولین گروہ ہو گا، یعنی کہ ان کے اجتماعی نمائندے کی حیثیت میں کون حکمرانی کرے گا اور ان کے مخصوص مفادات کو قومی یاآفاقی مفادات کا لبادہ اوڑھائے گا۔ یہ اجارہ داری کا سیاسی لیول ہے جس کے لئے حکمران طبقات کو نا صرف ایک دوسرے کو رعایات دینے کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ حکمران گٹھ جوڑ سے باہر عام عوام کو بھی محدود لیول پر رعایات دینا ضروری ہوتی ہیں۔
پاکستان میں سیاسی لیول کا بحران عین اسی ناکامی میں ہے جس کے تحت بالادست طبقات یہ تعین کرنے سے قاصر ہیں کہ ان میں حکمرانی کے متن میں اولین گروہ کون ہو گا لیکن یہ سمجھنا انتہائی اہم ہے کہ یہ نا کامی محض ایک اخلاقی یا موضوعی کمی کے تحت نہیں جو محض درست ”رویوں“ اور نیک نیتوں کے بل بوتے پر درست کی جا سکے یعنی کہ اگر تمام گروہ فوج کے سیاسی کردار کے حوالے سے ”ایک پیج“ پر آجائیں تو مسئلہ حل ہو جائے گا۔ یہ وہ محدود سیاسی پراجیکٹ ہے جس کے تحت حکمران گٹھ جوڑ کا کوئی بھی حصہ دوسروں کو (اور عام عوام) کو رعایات دینے کو نہیں تیار اور اس کے تحت پاکستانی فوج کا سیاست میں غالب کردار سمجھا جا سکتا ہے۔
پاکستانی فوج خود بھی بالادست پرتوں کا حصہ ہے اور نوآبادیاتی دور اور سرد جنگ میں اپنے سامراجی گماشتہ کردار، معیشت میں اپنے بڑھتے مفادات اور اسلامی عسکریت پسندی کے ریاستی نظریے میں اپنی اہمیت کے پیشِ نظر، بکھرے ہوئے حکمران گٹھ جوڑ اور ان کی کمزور اجارہ داری کی حتمی ضامن و مشترکہ نقطہ اتفاق ہے۔
لیکن یہی معاملہ نہیں ورنہ تو ایک بار پھر اس کا نتیجہ سیاسی منظر نامے میں ”سول فوجی“ کشمکش کے اولین درجے کے تصور میں ہوتا۔ اس کے برعکس یہ سمجھنا انتہائی اہم ہے کہ ایک مستحکم حکمران گٹھ جوڑ بنانے میں ناکامی اور مختلف اشرافیہ گروہوں کی مسلسل آپسی چپقلش، ان کی لبرل جمہوری اقدار کی پاسداری کے حوالے سے باہمی اختلافات، ان تمام کمیوں کی جڑ بالادست طبقات کی معروضی کمزوریوں اوران کی سماجی ناکامیوں میں ہے۔
جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا کہ کسی بھی پائیدار اجارہ داری کے لئے عام عوام کو کسی نہ کسی لیول پر رعایات دینا ضروری ہوتا ہے (جیسے کہ ترقی یافتہ سرمایہ دار ممالک میں فلاحی ریاست وغیرہ) لیکن ہم اگر پاکستان کی تاریخ کا جائزہ لیں تو یہ عیاں ہے کہ، خاص طور پر جنرل ایوب خان کے دور کے بعد، حکمران اتحاد کے پاس کوئی ایسا پائیدار پراجیکٹ نہیں رہا جس کے تحت نہ صرف بالادست طبقات سرمائے و دولت کا پائیدار طریقے سے ذخیرہ کر سکیں اور اس کے ساتھ عام عوام کی اکثریت کو کسی نا کسی قسم کی رعایات بھی دے سکیں۔ ایوب دور کے انتہائی غیر مساوی ”امپورٹ متبادل صنعت کاری“پراجیکٹ کے بعد سے بالادست طبقات کا اپنا کوئی معاشی پراجیکٹ نہیں رہا بلکہ ایوب دور کا صنعت کاری پراجیکٹ بھی امریکی سامراج کے رحم و کرم (جس نے ایوب دور کے پانچ سالہ منصوبوں کی 40 فیصد تک فنڈنگ کی) اور مشرقی پاکستان کے نوآبادیاتی استحصال کے تحت ہی چل رہا تھا (اس دور میں مشرقی پاکستان 60 فیصد زرِ مبادلہ ذخائر اور مغربی پاکستان کے صنعت کاروں کی 40 فیصد منڈی کا ذریعہ تھا)۔
بھٹو کے اسلامی سوشلزم کو 1970ء کی دہائی کے عالمی سرمایہ داری بحران اور بھٹو صاحب کی اپنی متضاد سماجی بنیادوں کے تحت نا کامی کا سامنا کرنا پڑا۔
اس کے بعد سے پاکستان کے حکمران طبقات نے اپنے معاشی پراجیکٹ کے لئے مختلف اقسام کی آربٹریج یعنی کہ اپنے آپ کو مختلف ذرائع سے بیچنے کا سہارہ لیا ہے۔
مثال کے طور پر اپنی قوتِ محنت کو مختلف خلیجی ممالک کو ایکسپورٹ کرنا اور اپنی عسکری قوت مختلف سامراجی اور گماشتہ ممالک کو بیچنا (جیسے کہ امریکہ، سعودی عرب اور چین)۔ ضیا اور مشرف ادوار میں امریکی امداد پر انحصار اور متواتر آئی ایم ایف کا قرض دار بننا بھی ایک پائیدار معاشی پراجیکٹ نہ ہونے کی نشان دہی کرتا ہے بلکہ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقات اپنے معاشی ربط و بقا کے لئے سامراجی قوتوں کے محتاج ہیں۔
یوں اگر ایک طرف پائیدار اجارہ داری قائم کرنے والا معاشی پراجیکٹ میسر نہیں تو دوسری جانب پاپولر طبقات کو مراعات محض محدود پیٹرونیج کے نظام، جعلی قسم کے ”ماڈل ترقیاتی پراجیکٹ“ اور اسلام اور قوم پرستی کے چورن کی شکل میں ہی ملتی ہیں۔ ایک پائیدار و ٹھوس اجارہ داری قائم کرنے والا معاشی پراجیکٹ جس کے ذریعے نچلے طبقات کو مناسب رعایات دی جا سکیں، ایسے پراجیکٹ کی عدم موجودگی میں حکمران طبقات کے گٹھ جوڑ میں کسی بھی پرت کی بالادستی ہمیشہ سطحی اور دوسری پرتوں کے حملوں کے آگے کمزور رہتی ہے (جیسا کہ فوج، عمران خان کی قیادت میں متوسط طبقہ، وغیرہ)۔
یوں یہ سمجھنا انتہائی اہم ہے کہ سیاسی لیول پر بے ربطگی کے پیچھے بالادست طبقات کی سماجی و معاشی نا کامیاں ہیں۔ اس کے بر عکس معیشت و عمومی مراعات کے کسی بھی دور رس پراجیکٹ کا مرکزِ توجہ داخلی ترقی ہو گا جس میں مثال کے طور پر دیہی و شہری زمین کی مساوی تقسیم، زراعت و صنعت میں منصوبہ بندی کے تحت سرمایہ کاری، اشرافیہ پر ٹیکس میں اضافہ اور سامراج کی علاقائی مہم جوئیوں سے علیحدگی اختیار کرنا شامل ہو گا لیکن ایسے اقدام اٹھانے سے رائج بالادست طبقات صرف موضوعی طور پر رضامندی سے قاصر نہیںبلکہ یہ معروضی طورپر اس کے قابل نہیں کیوں کہ ان پیش رفتوں کا منطقی انجام بالادست طبقات کی اپنی سماجی و معاشی بنیادوں کو کاٹنا اور ان کے شاہانہ طرز پر مراعات کا خاتمہ ہے (جیسے کے متعدد ڈی ایچ اے، سرے میں محلات، لندن میں لگژری فلیٹس، قطری شہزادوں کے خطوط وغیرہ)۔
یوں جہاں عوام کی عمومی اکثریت حکمرانوں کے اجارہ داری پراجیکٹ میں سطحی طور پر شامل ہوتی ہے، ادھر یہ امکان برقرار رہتا ہے کہ بالادست یا ابھرتی پرتوں میں سے کوئی اور پاپولسٹ شعلہ بیانی (اور ہمیشہ تیار بیٹھی اسٹبلشمنٹ کی مدد) کے ذریعے رائج حکمران گروہ کو چیلنج کرے۔
اس طرح پاکستان کے بالادست طبقات ایک معمے کے اسیر ہیں: اگر یہ فوجی اشرافیہ کی طاقت کو کاٹنا چاہتے ہیں تو ان کو ٹھوس سیاسی، معاشی و نظریاتی مراعات کے ذریعے عوام سے پائیدار جڑت پیدا کرنی ہو گی لیکن ایسی پائیدار و دور رس مراعات حکمران طبقات کی اپنی سماجی و معاشی جڑیں کاٹنے کے مترادف ہے۔ اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کے پاکستان کی بڑی سیاسی پارٹیاں بھی (جیسے کہ تحریک انصاف، ن لیگ اور پیپلز پارٹی) طاقت میں اپنے حصے کے لئے کسی نا کسی موقع پر ہمیشہ فوج ہی کی طرف دیکھتی ہیں۔
جیسے مارکس ”لوئی نپولین کے اٹھارویں برومیئر“ میں لکھتے ہیںکہ”پاکستان کے بالادست طبقات ’’جب تک عوام خاموش رہتے ہیں تو ان کی قدامت پسندی سے ڈرتے ہیں اور جب وہ انقلابی ہوتے ہیں تو ان کی بصیرت سے خوف کھاتے ہیں“۔
یوں حکمران گٹھ جوڑ کا پائیدار باہمی اتفاق نہ ہونا اور فوجی و سول بالادستی کے درمیان مسلسل رسہ کشی کی جڑیں حکمران طبقات کی اس وسیع تر سماجی، سیاسی و معاشی بے ربطگی میں ہے۔ یہ محض ایک باہمی ادارہ جاتی توازن کی عدم موجودگی یا با ضابطہ جمہوری تقاضوں و عوامل پر پورا نہ اترنے کی موضوعی ناکامی نہیں ہے۔
سول فوجی خلش اور لبرل جمہوری عوامل پر حملوں کے بہت ٹھوس و گھمبیر اثرات ہوتے ہیں لیکن یہ خلش محض اپنے بل بوتے پر نہیں کھڑی بلکہ یہ عوامل ٹھوس و عضویاتی طور پر وسیع تر سماجی جدوجہد، پائیدار معاشی مراعات اور ان کی عدم موجودگی اور سیاسی و طبقاتی اشرافیہ کی خود ساختہ بے ربطگی سے جڑے ہوئے ہیں۔ حکمران طبقات کی موضوعی بے ربطگی کی جڑیں ان کی اپنی معروضی نا کامیوں و خیال پسندی میں ہیں۔
پاکستان کے تاریخی و سماجی حالات میں لبرل و باضابطہ جمہوریت اپنے آپ کو نہیں بچا سکتی جبکہ ٹھوس جمہوری جدوجہد کو باضابطہ جمہوری عوامل سے موازنے میں دوسرے درجے پر نہیں رکھا جا سکتا۔ یوں باضابطہ و دستور العمل جمہوریت کا واحد نجات دہندہ اور اس کی واحد پائیدار بنیاد ٹھوس جمہوریت کے سوا کچھ نہیں ہے۔
منروا دیوی کا الّو اور اس کے مٹیالے پاوں
پاکستان میں سیاسی منظر نامے کی مندرجہ بالا وضاحت کی روشنی میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ محض باضابطہ جمہوریت اور ”فوجی سول خلش“ کو اولین فوقیت دینا ایک محدود نقطہ نظر ہے جو کہ اپنی شرائط و مقاصد کے حوالے سے بھی کامیابی پانے سے قاصر ہے۔ یہ بات عیاں ہے کہ پاکستان میں سول فوجی تقسیم غیر اہم نہیں اور اس زاوئیے کے حامی اکثر ترقی پسند و لبرل مندرجہ بالا بیان کئے گئے اکثر عوامل سے واقفیت بھی رکھتے ہیں۔
یوں عمومی طور پر لبرل و ترقی پسند یہ پہچانتے ہیں کہ فوجی سول خلش کی بنیاد اسٹبلشمنٹ کی معاشی طاقت اور ریاست کے اسلامی عسکریت پسندی کے بیانئے میں ہے لیکن بالا دست طبقات کی وسیع تر ناکامیوں، ان کی سیاسی و معاشی بے ربطگی اور ان کی مسلسل بحرانی کیفیت کے رجحان کو نہ پہچاننے کے تحت یہ نقطہ نظر اپنے آپ میں محدود ہے۔ یوں سیاسی منظر نامے میں عسکری بالادستی سمجھنے کے لئے ہمیں حکمران طبقات کی عمومی بے ربطگی اور سماجی اجارہ داری میں کمزوری کو سمجھنا ہو گا۔
چناچہ مرحلہ وار جمہوری جدوجہد اور لبرل بیانئے میں سول فوجی خلش کی اولین فوقیت کو ایک ”قلیل سٹرکچرل وضاحت“ کہا جا سکتا ہے یعنی کہ ایسی وضاحت جو لبرل ادارہ جاتی ریاست کے ایک تجریدی تصور میں پھنسی رہے اور اجارہ داری، تشدد و رعایات کے ان وسیع تر عوامل سمجھنے سے قاصر ہو جن میں ریاستی طاقت اور ریاست و سول سوسائٹی کا جدلیاتی رشتہ پھلتا پھولتا ہے۔
یوں سیاسی طاقت اور اس کی سماجی و تاریخی بنیادوں کے حوالے سے اس طرح کے قلیل و محدود بیانئے کا منطقی انجام ہر اس شخص یا گروہ کی پر زور حمایت میں نکلتا ہے جو ”سول بالادستی“ کا علم بلند کرکے کھڑا ہو جائے۔
سیاست کی یہ سمجھ بوجھ محض ”مواقعاتی تدابیر و جوڑ تور“ پر مشتمل ہے جو سیاسی منظر نامے کو اس کی موجودہ شکل میں ڈھالنے والے سماج و تاریخ کے وسیع تر عوامل کو پسِ پردہ ڈال کر تاریخ کے درمیان میں داخل ہوتی ہے۔ ان وسیع تر عوامل سے ماورا، ”جمہوریت“ محض ایک تجریدی و تصوراتی فارمولا بن جاتی ہے، ایک ایسی بے معنی اصطلاح جو نظریے، تاریخ اورسماجی عوامل و معروضیت کے حوالے سے کھوکھلی ہے۔ سیاسی بصیرت اور تدابیر و حکمتِ عملی کے حوالے سے اس نقطہ نظر کا انجام اشرافیائی تنظیموں کا دم چھلّا بننا اور سماجی اجارہ داری کی وسیع تر بنیادوں سے منہ پھیر لینے کے علاوہ کچھ نہیں۔ یہ سیاست محض ہجوم کے درمیان کھڑے ہو کر تالی بجانے کے مترادف ہے۔
یہ عمومی طور پر لبرلزم اور پاکستان میں ”باضابطہ جمہوریت“اور ”سول بالادستی“کی یک طرفہ سیاست کا بنیادی نقص ہے۔ جیسے ہیگل کہتے ہیں کہ منروا دیوی کا الّو ڈھلتے سورج کے ساتھ ہی اپنے سفر پر روانہ ہوتا ہے، یعنی کہ تاریخ اور اس کی عمومی منطق کا شعور ہمیشہ واقعات سے ایک زمانی فاصلے پر حاصل ہوتا ہے لیکن لبرلزم منروا دیوی کا وہ الّو ہے جس کے پاﺅں کاٹ دیئے گئے ہوں۔ یوں یہ واقعات کے اختتام پر ہوا میں معلق تو ہوتا ہے لیکن یہ جانے بغیر یہ کدھر سے آیا اور ہوا میں اس مخصوص طریقے سے کیوں معلق ہے۔ یہ تاریخ تو جانتا ہے لیکن اپنی تاریخ نہیں پہچانتا۔ یہ سماجی ڈھانچے کو بھی بھانپتا ہے لیکن ایک ”قلیل شدتی“ و محض سطحی طور پر۔ یوں اس کا سیاست و وقت کا تصور محض ایک ابدی نقل کا ہے ؛پاکستان میں اس کا اظہار تاریخ کے اس مستقل دہراتے عمل میں ہے: یعنی کے ”سول فوجی مسئلہ“۔
کیا پاکستان میں سول فوجی خلش ہے جو دن بہ دن مزید پر تشدد اشکال اختیار کرتی جا رہی ہے؟ جی، یہ بالکل عیاں حقیقت ہے۔ کیاآئین، لبرل آزادی اظہارِ رائے و الحاق کے لئے جدوجہد کی اپنی اہمیت ہے؟ جی بالکل۔
لیکن ادھر سوال بنیادی طور پر لبرل جمہوریت اور آزادیوں کو بچانے یا ان میں مزید توسیع کا نہیں ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا لبرلزم، جمہوریت اور وہ اشرافیہ گروہ جو اس وقت اس کے علم بردار بنے ہیں، کیا یہ اپنے آپ کو بچا سکتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بادشاہ (یعنی اسٹبلشمنٹ) مکمل طور پر برہنہ ہے لیکن کیا اشرافیائی سیاست اور اس کی وفادار ساتھی: یعنی کہ سول بالادستی کی سیاست، کیا یہ اپنے مقاصد کی محدودیت، اپنی تاریخی و سماجی ناکامیوں کا ازالہ کر سکتی ہے؟
منروا دیوی کا الّو تو اپنی اڑان میں محو ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ یہ وقت اس کے مٹیالے پاوں پر توجہ ڈالنے کا ہو۔