لاہور (روزنامہ جدوجہد/پریس ریلیز) لاہور پریس کلب میں طلبہ اور محنت کشوں کی مشترکہ پریس کانفرنس میں 29 نومبر کے مارچ کا پروگرام پیش کیا گیا۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرنے والوں میں پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹو سے عروج اورنگزیب، حیدر بٹ، رضا گیلانی، آمنہ وحید، حقوق خلق موومنٹ سے عمار علی جان اور زاہد علی، پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین سے ڈاکٹر لال خان، انقلابی طلبہ محاذ سے نادر گوپانگ،پروگریسو لیبر فیڈریشن کے جنرل سیکرٹری نیاز خان، پاکستان بھٹہ مزدور یونین کے صدر بابا جان مسیح، منظوراں بی بی، ساجدہ بیگم اور جنرل سیکرٹری محمد شبیر، لاہور لیفٹ فرنٹ کے فرخ سہیل گوئندی، جاوید اقبال معظم اور فاروق طارق، لیبر ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر خالد محموداورپاکستان کسان رابطہ کمیٹی کی نازلی جاوید شامل تھے۔ پریس کانفرنس میں صحافیوں کی بھرپور شرکت نظر آئی۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے طالب علم اور مزدور راہنماؤں نے کہا کہ سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی کال پر 29 نومبر کو ملک گیر مظاہرے ہورہے ہیں۔ لاہور، کراچی، راولپنڈی، حیدرآباد، کوئٹہ اور دیگرشہروں میں طلبہ اپنے حقوق کے لیے مظاہروں میں شریک ہوں گے۔ ان کے بنیادی مطالبات میں طلبہ یونین کی بحالی، تعلیمی کٹوتیوں کا خاتمہ، تعلیم کی نجکاری اور مہنگی فیسوں کوختم کرنا شامل ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں مذہبی غنڈہ گرد عناصر کی سرکوبی کرتے ہوئے اداروں میں پرامن، صحت مند اورجمہوری ماحول قائم کیاجائے۔ طلبہ کی تعلیمی فیصلہ سازی کے اداروں میں شمولیت کو یقینی بنایا جائے۔
لاہور میں محنت کش طبقے نے طلبہ یکجہتی مارچ میں بھرپورشمولیت کا فیصلہ کیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ مزدوروں کا بنیادی مطالبہ کم ازکم تنخواہ پر عمل درآمد کرانے پر ملک گیر سطح پر حکومت اور لیبر ڈیپارٹمنٹ اپنا کردار ادا کرے۔ ملک کے 80 فیصد اداروں میں غیرہنرمند مزدور کو حکومت کی طے شدہ اجرت 17500 روپے ادا نہیں کی جا رہی اور بھٹوں پر 1000 اینٹ بنانے کے لیے حکومت کا تجویز کردہ ریٹ 1295 روپے ادا نہیں کیا جا رہا۔ لیبر قوانین پر عملدرآمد کرانے میں حکومت کو کوئی دلچسپی نہیں اور لیبر ڈیپارٹمنٹ اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام ہوچکا ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت ہر ادارے اور بھٹہ مزدوروں کے لیے مقرر کردہ کم از کم تنخواہ پر عمل درآمد یقینی بنائے اور لیبر قوانین کا اطلاق ہر ادارے میں کرنے کے لیے لیبر انسپکٹرز پر فیکٹریوں میں داخل ہونے پر عائد کردہ پابندی کو فوری طورپر ختم کیا جائے۔ مزدوروں کے خلاف ہڑتال اور مظاہروں میں شرکت کرنے پر انسداد دہشت گردی کی دفعات کا غلط استعمال فوری بند کیاجائے۔
ہم طلبہ اور مزدور مل کر ملک میں ایک نئی انقلابی تحریک کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔ دونوں کا ایک دوسرے سے چولی دامن کا ساتھ ہے۔ طلبہ، نوجوانوں اور مزدوروں کے استحصال میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔ تعلیمی اداروں میں شدد پسند عناصر کی غنڈہ گردی جاری ہے۔ طلبہ یونینوں پر پابندی عائد ہے۔ طلبہ کو اکٹھے ہونے پر قدغن لگائی جاتی ہے۔ پرائیویٹ تعلیمی ادارے پیسے کمانے کی فیکٹریاں بن چکی ہیں۔ اب بڑے پرائیویٹ تعلیمی ادارے میں کسی بھی سبجیکٹ میں ماسٹرز کرنے کے لیے ہر سال کم از کم دس لاکھ روپے یا اس سے زیادہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ پرائیویٹ تعلیمی ادارے عدلیہ کی جانب سے فیسوں میں کمی کرنے کے فیصلوں پر عمل کرنے سے بھی منکرہیں۔ حکومت نے تعلیمی بجٹ میں شدید کٹوتیاں کی ہیں۔ جس سے تعلیم کی شرح اور کم ہو جائے گی۔ تعلیمی اداروں کی نجکاری کا عمل جاری ہے۔ ہم طلبہ اور مزدور تعلیمی اداروں، ہسپتالوں اور سرکاری اداروں کی نجکاری کے خلاف متحد ہوکر آواز بلند کررہے ہیں۔ نجکاری کا سلسلہ بند کیا جائے۔ مہنگائی کم کرنے کے اقدامات کئے جائیں۔ لاہور میں 29 نومبر ملکی تاریخ کا ایک نیا باب لکھنے کادن ثابت ہوگا۔ طلبہ اور مزدور لال جھنڈے لہراتے ہوئے اپنے مطالبات کو پیش کریں گے۔ سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی کال پر ہزاروں طلبہ اور مزدور اس میں شریک ہوں گے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ گلگت بلتستان میں قید بابا جان اور ان کے ساتھیوں اور اوکاڑہ میں مزارعین راہنماؤں کے خلاف عائد جھوٹے مقدمات فوری واپس لیے جائیں اور انہیں فوری طورپر رہا کیاجائے۔ طلبہ کے خلاف غداری، دہشت گردی، اینٹی سٹیٹ سرگرمیاں کرنے کے الزامات پر درج جھوٹے مقدمات ختم کئے جائیں۔
طلبہ مزدور اتحاد زندہ باد!