سوشل

آج کی ویڈیو: غریبوں کی ہتک اور سیلیبریٹی ایکٹوزم

سوشل ڈیسک | فارو ق سلہریا

یو ٹیوب پر اتفاق سے میں ”بولو جوان“ نامی ایک یو ٹیوب چینل پر پہنچ گیا۔ چینل کے ایک پروگرام بعنوان ”نو اینڈ یس کوئز ود بلال اشرف اینڈ ماہرہ خان“ میں شو بز کے ان دو معروف ناموں سے مختلف سوال پوچھے جا رہے ہیں۔ پروگرام کا فارمیٹ ایساتھا کہ دونوں نے سوال کا جواب ہاں یا ناں میں دینا تھا۔

چار منٹ کے اس پروگرام کے آغاز میں ہی 45 سیکنڈز کے بعد پروگرام کی میزبان خاتون جو اسکرین پر نظر نہیں آ رہیں، سوال پوچھتی ہیں: ”جو ماں باپ اپنی بیٹیوں کو اسکول نہیں بھیجتے ان کو چھتر پڑنے چاہئیں۔“

جی ہاں لفظ ”چھتر“ استعمال کیا گیا۔

جواب میں ماہرہ خان نے پہلے تو لفظ چھتر کا ترجمہ پوچھا۔ اس کے بعد بلال اشرف اور ماہرہ خان دونوں کا جواب تھا: ”چھتر کا تو نہیں معلوم مگر بچیوں کو اسکول بھیجنا چاہئے۔“

بچوں یا بچیوں کو اسکول نہ بھیجنے کا معاملہ کسی حد تک رجعتی سوچ سے جڑا ہے مگر سو فیصد غربت سے تعلق رکھتا ہے۔ پروگرام میں ماہرہ خان ہوں یا بلال اشرف دونوں کے رد عمل سے تو لگتا ہے کہ ان کے نزدیک نہ غربت کوئی مسئلہ ہے نہ غریبوں کی ہتک۔

سماجی مسائل پر روشنی ڈال کر دنیا بھر کی شو بز شخصیات اپنی مقبولیت میں اضافے کی کوشش کرتے ہیں۔ بعض اوقات ان میں سے کچھ لوگ مخلص بھی ہوتے ہیں۔ ہمیں اس بحث میں یہاں پڑنے کی ضرورت نہیں کہ شو بز ستارے کتنے مخلص ہوتے ہیں اور ان کے ایکٹوزم سے کسی تحریک کو کتنا فائدہ یا نقصان ہوتا ہے۔ یہاں صرف یہ نقطہ اجاگر کرنا تھا کہ نہ تو متعلقہ چینل کو شرم آئی ایک ایسا سوال پوچھتے ہوئے جس سے انسانوں کی تضحیک ہوتی ہے‘ نہ چینل نے اس سوال کے طبقاتی پہلو پر غور کیا۔

تھپڑ مارنا، چھتر مارنا، گالی دینا بنیادی طور پر انسان کی تضحیک ہوتے ہیں۔ دوم اس کی طبقاتی بنیاد ہے۔ ایسا شاید ہی کبھی ہوا ہو کہ کسی مزارع نے کبھی کسی وڈیرے کو تھپڑ رسید کیا ہو یا جوتے مارے ہوں۔ اس تضحیک کا مقصد مخالف کو اندر سے توڑ دینا ہو تا ہے تا کہ وہ مزاحمت نہ کرے۔ طبقاتی سماج میں تضحیک‘ تشدد سے زیادہ کارگر ہتھیار ہے۔

مندرجہ بالا باتوں سے درکنار، ماہرہ خان اور بلال اشرف بہت نیک دلی سے لڑکیوں کی تعلیم کا درس دیتے ہیں۔ شاید گھر جا کر انہیں اچھا بھی لگا ہو کہ انہوں نے ایک اچھا پیغام لوگوں تک پہنچایا۔ عین ممکن ہے کہ پروگرام کے بعد انہوں نے پروگرام کی ہدایت کار اور میزبان کو ایسا اہم سماجی اور ترقیاتی مسئلہ اٹھانے پر مبارکباد بھی دی ہو۔ ان کے مڈل کلاس نظریاتی افق پر شاید طبقاتی تجزئیے کی کوئی گنجائش نہیں۔ غریب اور محکوم انسانوں کی ہتک ہو یا عزت، ان لوگوں کو اس سے غرض نہیں۔ ایسا بھی نہیں کہ انہیں ہتک کا احساس نہیں۔ ذرا سوچئے اگراسی پروگرام میں یہ پوچھا جاتا کہ بچوں کو میکڈونلڈز لے جانے والی ماوں کو چھتر مارنے چاہئیں یا گھروں میں ملازموں سے بدسلوکی کرنے والی بیگمات کو چھتر مارنے چاہئیں تو عین ممکن ہے ہمارے شو بز ستارے اس پروگرام سے اٹھ کر چلے جاتے۔

ہمیں اس چینل سے مطالبہ کرنا چاہئے کہ وہ اس ہتک آمیز سوال اور حرکت پر معافی مانگے۔


آپ بھی سماجی مسائل کو اجاگر کرنے والی ویڈیوز ہمیں ارسال کر کے سوشل ڈیسک کا حصہ بن سکتے ہیں۔ اپنی ویڈیوز ہمیں یہاں ارسال کریں۔


Social Desk
+ posts
Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔