لاہور (جدوجہد رپورٹ) گزشتہ روز تھانہ سول لائنز لاہور میں 29 نومبر کو ہونے والے تاریخی”طلبہ یکجہتی مارچ“ کی حمایت کرنے اور اس مارچ کومنظم کرنے کے الزام میں بائیں بازو کے معروف رہنماؤں اور طلبہ کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
جن کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے ان میں بائیں بازو کے معروف رہنما اور ”روزنامہ جدوجہد“ کے ادارتی بورڈ کے رکن فاروق طارق، ایف سی یونیورسٹی سے وابستہ ڈاکٹر عمار علی جان، اقبال لالا (جو مشال خان کے والد ہیں)، عالمگیر وزیر، محمد شبیر اور کامل خان شامل ہیں۔
فاروق طارق کا رد عمل
اس مقدمے بارے بیان دیتے ہوئے فاروق طارق نے کہا ہے کہ”یہ مقدمہ سراسر اشتعال انگیزی ہے۔ طلبہ نے یونینز کی بحالی کے لئے جبکہ مزدوروں نے کم از کم تنخواہ کے مسئلے پر ریلی نکالی۔ مارچ کے شرکا نے ٹریفک میں خلل ڈالا نہ کسی کو نقصان پہنچایا۔ مقدمہ شہری انتظامیہ کی بوکھلاہٹ کی نشانی ہے۔ یہ مقدمہ بائیں بازو کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے خلاف رد عمل اور آزادی اظہار پر حملہ ہے۔ ہم تمام افراد کے خلاف مقدمے کی واپسی کابھر پور مطالبہ کرتے ہیں۔“
سوشل میڈیا کا نمایاں ٹرینڈ
اس مقدمے کی خبر اتوار کے روز، سہ پہر کے وقت سوشل میڈیا پر سامنے آئی اور اس کے بعد بی بی سی اردو سمیت بعض عالمی اور مقامی ویب سائٹس پر نمایاں خبر بن گئی۔ یہ خبر ٹوئٹر پر بھی ایک نمایاں ٹرینڈ بنی رہی۔
اس سے قبل، ہفتے کی رات طلبہ مارچ سے خطاب کرنے والے ایک مقرر اور پشتون طالب علم رہنما عالمگیر وزیر کی گمشدگی کی خبر آئی۔ ان کی واپسی کے لئے طلبہ نے نیو کیمپس میں وائس چانسلر کے دفتر کے باہر دھرنا دئیے رکھا، یہ دھرنا اتوار کے روز بھی جاری رہا جبکہ اتوار کی دوپہر نیو کیمپس پل پر ایک مظاہرہ بھی ہوا جس میں طلبہ کے علاوہ یونیورسٹی اساتذہ نے بھی شرکت کی۔ عالمگیر وزیر ایم این اے علی وزیر کے قریبی رشتہ دار ہیں۔ اپنے ایک ٹویٹ میں ایم این اے محسن داوڑ نے بھی ان کی واپسی کا مطالبہ کیا ہے۔
دریں اثنا، یونیورسٹی اساتذہ کی تنظیم ”ترقی پسند اساتذہ اتحاد“ نے اپنی ایک پریس ریلیز میں عالمگیر وزیر کی واپسی کا مطالبہ کرتے ہوئے فاروق طارق، عمار علی جان، اقبال لالا اوردیگر تین افراد کے خلاف مقدمے کی شدید مذمت کی ہے۔
تادم تحریر (اتوار شب) عالمگیر وزیر لاپتہ ہیں۔ ان کی واپسی کے لئے نیو کیمپس میں طلبہ کا پر امن احتجاج بھی جاری ہے۔