دنیا

ٹرمپ کا دورہ ہند: ایک عرب نقطہ نظر

جلبیر اشقر

ٹیلی وژن اسکرین پردکھایا جانے والا وہ منظر انتہائی کریہہ تھا جس میں ہم دیکھ رہے تھے کہ دورہ ہندوستان کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ بغل گیر، احمد آباد کے کرکٹ اسٹیڈیم میں موجود ایک لاکھ لوگوں کے سامنے ایک دوسرے کی تعریفوں کے پل باندھ رہے تھے۔ یہ منظر ان بیس کروڑ مسلمانوں کے لئے ہی کریہہ نہیں تھا جن کی شہریت کواسی طرح از سرِ نو مذہبی و لسانی بنیادوں پر پرکھا جا رہا ہے جس طرح بنجمن نیتن یاہو نے اسرائیل کو (2018 میں: مترجم) یہودیوں کی ریاست قرار دینے کے لئے نیشن سٹیٹ بل منظور کروایا (اور عربوں کی شہریت پر سوال اٹھا دیا: مترجم)۔ اسی طرح ٹرمپ نے بھی امریکہ میں مسلمانوں کے داخلے کو محدود کرنے کے لئے ویزا قوانین میں تبدیلیاں کیں۔

ٹرمپ اور مودی کا بغل گیر ہونا صرف دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے ہی ایک کریہہ منظر نہیں تھا۔ ۔ ۔ ۔ یاد رہے مسلمان دنیا کی کل آبادی کا ایک چوتھائی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ یہ منظر ہر اُس انسان کے لئے ناقابل ِدید تھا جوبرابری کے حقوق پر یقین رکھتا ہے اور جو نسل، رنگ، جنس، زبان، مذہب، سیاسی یا غیر سیاسی رائے، نسلی و سماجی بنیاد، دولت، حادثہ پیدائش یا کسی بھی قسم کے سٹیٹس کی بنیاد پر امتیازی سلوک کے خلاف ہو جیسا کہ اقوامِ متحدہ کے اعلان نامہ برائے انسانی حقوق 1948ء کی شق 2 میں درج ہے۔

جب ٹرمپ اور مودی گجرات میں۔ ۔ ۔ ۔ جو بد ترین فرقہ وارانہ فسادات کا گڑھ رہ چکا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ایک لاکھ اُن مذہبی جنونیوں کے سامنے مور ناچ میں مصروف تھے جو ہندتوا کے پیروکار ہیں، عین اُس وقت مسلمان، سیکولروادی، جمہوریت پسند اور کمیونسٹ بھارتی شہری ان دونوں کے خلاف مظاہرے کر رہے تھے۔ ان دونوں کو اِس صدی میں دائیں بازوکی بد ترین علامتیں قرار دیا جا سکتا ہے۔ عہد ِحاضر کا یہ دایاں بازو گذشتہ صدی کی فسطائیت کے مترادف ہے مگر ایک فرق کے ساتھ۔ اس دائیں بازو کا کہنا ہے کہ وہ جمہوری اصولوں کی پاسداری کرتا ہے۔ معلوم نہیں اس جدید فیشن کی ضرورت کیا ہے؟

یہ امر لمحہ فکریہ ہے کہ عہدِ حاضر کی چار بڑی ریاستوں: امریکہ، چین، بھارت اور روس میں مسلمانوں سے مذہبی اور لسانی تعصب برتنے والے افراد حکومت کر رہے ہیں۔ چین میں ژی ین پنگ پندرہ ملین وہیگر مسلمانوں پر ظلم ڈھا رہا ہے۔ گویا مودی نے چین سے سبق لیتے ہوئے کشمیر کے پچاس لاکھ مسلمانوں کو قید کر کے رکھ دیا ہے۔ اس سے قبل ولادیمیر پوتن نے چیچنیا کے (پندرہ لاکھ) مسلمانوں کے ساتھ وہی کیا جو چین نے وہیگر مسلمانوں کے ساتھ کیا (تناسب کے لحاظ سے چیچن مسلمانوں کا روس میں وہی تناسب ہے جو وہیگر مسلمانوں کا چین میں ہے)۔ روس کی مدد سے بعد ازاں بشار الاسد نے شام میں خون کی ہولی کھیلی۔

کیا یہ امریکی مفکر سیموئیل ہنٹنگٹن مرحوم کی فکر کے مطابق’تہذیبوں کا تصادم‘ ہے جس میں ہر فرد اپنی شناخت کے لئے دوسرے مذہب کے خلاف اپنے مذہب کی آڑ لے رہا ہے؟ کیا یہ نتیجہ اخذ کیا جائے کہ مسلمان داعش اور القاعدہ کی طرح دیگر مذاہب کے خلاف اعلانِ جہاد کردیں؟ یا یہ کہ یہ’تہذیبوں کا تصادم‘ نہیں بلکہ’بربریتوں کا تصادم‘ ہے جس کا آغاز امریکہ نے عراق اور افغانستان کے خلاف دہشتگردی ختم کرنے کے نام پر سامراجی جنگیں مسلط کر کے کیا؟

بربریتوں کے تصادم میں سعودی عرب سمیت اہم مسلم ممالک: ترکی، ایران، مصر، پاکستان اور انڈونیشیا کی حکومتیں مندرجہ بالا چار بڑی طاقتوں میں سے کسی ایک کے ساتھ نتھی ہیں۔ ان مسلم ملکوں کو اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ ان چار ریاستوں کا اپنی مسلمان آبادیوں کی طرف کتنا نسل پرستانہ یا فرقہ وارانہ رویہ ہے۔ ان چھ مسلم ریاستوں میں قوم پرستی یا مذہب کے نام پر مطلق العنان حکومتیں مسلط ہیں۔ یہ حکومتیں اسی عالمی دائیں بازو کی لہر کا حصہ ہیں جس کی لپیٹ میں مندرجہ بالا چار بڑی ریاستیں آئی ہوئی ہیں۔

بربریت کا بربریت سے مقابلہ کرنے کا مطلب ہے کہ المئے جنم لیں گے۔ ان المئیوں کا شکار فقط ’دوسرے‘ نہیں ہوتے۔ جن سے بربریت برپا کرنے والوں کا تعلق ہوتا ہے، وہ بھی بربریت کا نشانہ بنتے ہیں۔ تاریخ کے طویل مارچ میں انسانیت نے جمہوریت اور انسانی حقوق (بشمول حقوق ِنسواں) کی جانب سفر کیا ہے۔ اگر آپ صدیوں پر مشتمل انسانی سفر کا جائزہ لیں تو مندرجہ بالا نتیجہ اخذ کیا جائے گا۔ ہر دیگر تاریخی عمل کی طرح، چاہے وہ کتنے ہی طویل کیوں نہ ثابت ہوئے، یہ تاریخی عمل بھی پسپائی کا شکار ہوا مگر ہر پسپائی کے بعد جمہوریت اور انسانی حقوق نے پیش قدمی بھی کی۔ اس کی ایک مثال تو دوسری عالمی جنگ کے دوران فسطائیت کی شکست کے بعد سامنے آئی۔

اگر تہذیبی ترقی نہ ہو تو پھر متبادل بربریت پر مبنی زوال ہوتا ہے۔ تاریخ میں کئی تہذیبیں اس کا شکار ہوئیں۔ اگر عالمی سطح پر رجعتی قوتوں کی پیش قدمی نہ روکی گئی تو تباہی پھر سے آ سکتی ہے۔ اس لئے انسانی حقوق پر یقین رکھنے والے تمام افراد کو ان رجعتی قوتوں کامقابلہ کرنا ہو گا۔ ان لوگوں کا ساتھ دینا ہو گا جو امریکہ میں ٹرمپ، چین میں ژی پنگ، بھارت میں مودی اور روس میں پوتن کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں۔

تیونس میں عرب بہار کی پہلی لہر اور سوڈان میں انقلاب کی صورت اس بہار کی دوسری لہر کے بعد ہمارا عرب خطہ سیاسی جبر کے خلاف عالمی مزاحمت کا ہراول بنا ہوا ہے۔ عراق اور لبنان میں اٹھنے والی حالیہ لہروں کے بعد تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ خطہ فرقہ وارانہ عدم رواداری کے خلاف بھی مزاحمت کا ہراول بن گیا ہے۔

Gilbert Achcar
Website | + posts

جلبیر اشقر اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز لندن کے پروفیسر ہیں۔ وہ مذہب کے سیاسی کردار اور بنیاد پرستی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔