ڈاکٹر عمار علی جان
ٹرمپ کی طرف سے یو ایس ایڈ کی فنڈنگ روکنے کے فیصلے نے دنیا میں ہلچل مچا دی ہے۔ یہ ادارہ امریکی صدر جون ایف کینیڈی نے 1961 میں بنایا تھا اور اس کا بظاہر مقصد تیسری دنیا کے ممالک کی امداد تھا، لیکن حقیقت میں یہ سوویت یونین کے ساتھ سرد جنگ میں امریکہ کی جارحانہ حکمت عملی کا حصہ تھا۔
تیسری دنیا میں حال ہی میں یورپی تسلط سے آزاد ہوئے ممالک سیاسی آزادی کے ساتھ ساتھ معاشی آزادی اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کے خواہشمند تھے۔ 1950 کی دہائی میں امریکی اسٹیبلشمنٹ پریشان تھی کہ یہ ملک امریکہ اور یورپ کی ”آزادیوں“کی خواہش رکھنے کے بجائے سوشلسٹ ممالک کی معاشی پلاننگ سے زیادہ متاثر نظر آرہے تھے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ سامراج مخالف انقلابی تحریکیں سیاسی اور معاشی آزادی کو ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم سمجھتی تھیں اور جن مشکل معروضی حالات میں سوویت یونین نے ہٹلر کو شکست دے کر معاشی ترقی کی،اس کی مثال نہرو سے لے کر فیڈل کاسترو تک تمام تیسری دنیا کے لیڈران دیا کرتے تھے۔
ایسے میں لازمی ہوگیا کہ امریکی مفاد کے تحفظ کے لئے تیسری دنیا کی حکومتوں کو معاشی امداد فراہم کی جائیں جس کے ذریعے ان کے حکمران طبقات اندرونی اصلاحات کئے بغیر ترقی کا کوئی ماڈل دے سکیں۔ یو ایس ایڈ اسی پالیسی کے تحت منظر عام پر آئی اور اس نے جمہوریت اور غربت کے خاتمے کے نام پر امریکہ نواز حکومتوں کو مدد فراہم کرنا شروع کردی۔ مثال کے طور پر پاکستان، تائیوان اور کوریا میں فوجی آمریتوں کو مضبوط کرنے کے لئے اس ادارے نے بے پناہ پیسہ خرچہ۔
اسی طرح سوشلسٹ ریاستوں میں اپوزیشن کے گروہوں کو ٹریننگ کروانے سے لے کر ان کے تنظیمی معاملات کے لئے فنڈ فراہم کئے،جس میں سی آئی اے کے ساتھ یو ایس ایڈ کا رشتہ مزید مضبوط ہوا۔ اس کی ایک مثال پولینڈ میں سولیڈیریٹی موومنٹ ہے جو کہ سوشلسٹ حکومت کے خلاف ایک ردانقلابی تحریک تھی اور اسے یو ایس ایڈ اور سی آئی اے کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ صرف اس تحریک کے لئے سی آئی اے نے 25 ملین ڈالر مختص کئے،جس کی وجہ سے امریکی دانشور Michael Parenti نے اسے تاریخ کا سب سے ’مہنگا انقلاب‘کہا۔
کئی امریکی سینیٹر سوویت یونین اور مشرقی یورپ میں سوشلسٹ حکومتوں کے ٹوٹنے میں یو ایس ایڈ کے کردار کو کلیدی سمجھتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر سوویت یونین اور دیگر سوشلسٹ ریاستوں کو ردانقلابی قوتوں نے توڑا تھا، تو لاطینی امریکہ، کوریا، پاکستان، یونان اور کئی دیگر ممالک میں 1980 کی دہائی میں جمہوریت کی تحریک کو ترقی پسند قوتیں لیڈ کررہی تھیں۔ ان ممالک میں یو ایس ایڈ نے جمہوریت کی طرف منتقلی کے دوران بے پناہ پیسہ خرچہ،جس کے ذریعے سرمایہ داری اور گلوبالائزیشن کے فوائد پڑھائے گئے۔ ڈالروں کی بھرمار کے ذریعے ایک نئی سول سوسائٹی پیدا کی گئی جس کے زاویے کو چند ایشوز جو امریکہ کے لئے قابل قبول تھے (اقلیتوں اور عورتوں کے حقوق، ماحولیاتی تبدیلی وغیرہ) تک محدود کردیا اور ان سوالوں کو اندرونی اور بیرونی نظام، خصوصاً سرمایہ داری اور وسائل کی تقسیم کے سوال کے ساتھ جڑنے سے روک دیا گیا۔
اس طرح نیو لبرلزم کا دور شروع ہوا جس میں تیسری دنیا میں معاشی پالیسی پر بحث ختم ہوگئی اور تعلیم صحت اور پانی تک کو نجی ملکیت میں دے دیا گیا، جبکہ تجارتی پالیسیاں بھی مغربی کمپنیوں کے حق میں بننے لگیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان جیسے کئی ممالک میں فنانس منسٹر بھی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ملازم بننا شروع ہوگئے۔ ان ممالک میں جمہوریت کی بحالی کے لئے جن سامراج مخالف سوشلسٹوں نے لڑائی لڑی یا تو وہ گمنامی کی زندگی بسر کرنے لگ گئے یا پھر یو ایس ایڈ کے کسی پراجیکٹ میں ملازم لگ گئے۔Jason Hickel کے بقول نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج ہر 1 ڈالر امداد کے عوض مغرب تیسری دنیا سے 300 ڈالر منافع کے طور پر لوٹ رہا ہے۔
امریکہ مخالف حکومتوں کا تختہ الٹانے اور انقلابی تحریکوں کو لبرل بنانے میں یو ایس ایڈ نے سامراج کی بے پناہ مدد کی ہے۔ پھر ایلون مسک نے اس ادارے کے پیسے کیوں رکوائے اور اب وہ اس کے مستقل خاتمے کی کیوں بات کررہا ہے؟ اس کی بنیادی وجہ سامراجی پالیسیوں کی وجہ سے امریکہ کے اندر رونما ہونے والی تبدیلیاں ہیں۔ مثال کے طور پر گلوبلائزیشن سے امریکی کمپنیوں نے جہاں بے پناہ دولت کمائی وہاں پر امریکہ سے انڈسٹری نکل کر تیسری دنیا کے ممالک میں منتقل ہوگئی،جس کا نقصان امریکی ورکر کو ہوا۔ ڈیوڈ ہاروی کے مطابق امریکہ ورکر کی تنخواہ مہنگائی کی نسبت سے 1973 سے نہیں بڑھی اور وہ اپنا معیار زندگی قرضے کی بنیاد پر قائم رکھے ہوئے تھا۔ یہ مصنوعی معیار زندگی 2008 کے مالیاتی بحران اور پھر 2020 میں کرونا کے بحران کے بعد قائم رکھنا ناممکن ہوگیا جس کی وجہ سے امریکی ورکروں میں شدید غم و غصے پایا جاتا ہے۔
امریکہ کے اندر ایک طرف Financial Oligarchy ہے تو دوسری طرف غریب ورکر۔ دونوں پارٹیاں اس Oligarchyکی نمائندہ ہیں لیکن ان میں فرق موجود ہے۔ ڈیموکریٹس امریکہ کی دنیا بھر میں سوفٹ پاور، آزاد تجارت، اقلیتوں کے حقوق اور اس طرح کی لبرل آزادیوں اور عالمی سسٹم کا دفاع کرتے ہوئے امریکی سامراجی پراجیکٹ کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ دوسری جانب ٹرمپ نے اس عالمگیریت کو امریکہ کی ڈی انڈسٹرئیلائزیشن اور تارکین وطن کی بڑھتی ہوئی تعداد کے لئے ذمہ دار قرار دیا ہے اور امریکی ورکر کے نام پر دنیا بھر میں امریکی کی’فضول خرچی‘پر پابندی لگانے کا عزم ظاہرکیا ہے۔ یو ایس ایڈ پر پابندی اسی لڑائی کا حصہ ہے، جس میں ڈیموکریٹک پارٹی کی کاسموپولیٹن امپیرئیلزم اور ٹرمپ کی نیشنلسٹ امپیرئیلزم ایک دوسرے سے ٹکرا رہی ہیں۔
یاد رہے دونوں جماعتیں امریکی ارب پتی بزنس مینوں پر ٹیکس لگانے سے گریزاں ہیں کیونکہ وہ ان پارٹیوں کے ڈونر ہیں۔ یو ایس ایڈ کی تباہی اس بات کا اشارہ ہے کہ امریکہ اب جمہوریت کے لیکچر دینے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا،بلکہ کھل کر عسکری اور تجارتی بدمعاشی کے ذریعے دیگر ممالک کو اپنے مطالبات ماننے پر مجبور کرے گا، لیکن معاملات اتنے آسان نہیں ہونگے۔ دو روز قبل میکسیکو اور کینیڈا نے جوابی کاروائی کرتے ہوئے امریکی مصنوعات پر ٹیرف لگا دیئے ہیں،جبکہ گزشتہ روز چین نے ٹیرف لگانے کے ساتھ ساتھ امریکی کمپنیوں کے خلاف ایکشن لینے کا بھی اعلان کیا ہے۔ رادھیکا دیسائی کے بقول ٹرمپ کی ان پالیسیوں سے نہ صرف امریکہ کے اندر مہنگائی بڑھے گی، بلکہ دنیا بھر میں نئے سیاسی اور معاشی اتحاد بننے کے امکانات بھی بڑھ جائیں گے، اور جہاں پر معاشی اتحاد بنتے ہیں، وہاں پر دفاعی تعاون بھی بڑھنا شروع ہوجاتا ہے۔
اس صورتحال میں پاکستان جیسے ممالک کے لئے بھی معاشی ترقی اور دفاعی تعاون کے نئے مواقع پیدا ہوں گے، لیکن ان مواقعوں سے ہم فائدہ اس وقت ہی اٹھا سکیں گے جب ’بھائی لوگ‘ہاؤسنگ سوسائٹیوں سے آگے سوچنا شروع کریں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک خوش آئند بات یہ بھی ہے کہ جو ساتھی یو ایس ایڈ کی وجہ سے سوشلسٹ روایت سے کٹ گئے تھے، ان کے بھی اب واپسی کے امکانات موجود ہیں۔ میں یہ بات طنزاً نہیں کہہ رہا،کیونکہ 1990 کے حالات میں جس نے جو فیصلہ کیا وہ اس وقت شائد مجبوری تھی، لیکن آج امریکہ کی خارجہ اور اندرونی پالیسی کا دفاع کرنا ناممکن ہے۔ اس لئے نئی دنیا کے جن خوابوں کو سی آئی اے، پینٹا گون اور یو ایس ایڈنے ہم سے 1990 کی دہائی میں چھین لیا تھا، آج ایک بار پھر ان خوابوں کو زندہ کرنے کا وقت آگیا ہے۔