دنیا

کرونا امریکہ میں: عدم مساوات اور نسلی امتیاز کے نئے زاویے!

قیصر عباس

جہاں دنیا کا طاقتورترین ملک اب کرونا وائرس کا سب سے بڑا نشانہ بن چکا ہے وہاں سرمایہ دارانہ نظام میں معاشی عدم مساوات اور نسلی امتیازکے نتائج بھی اب مزید کھل کر ظاہر ہورہے ہیں جن کی بازگشت نہ صرف امریکی میڈیا بلکہ واشنگٹن ڈی سی کے ایوان اقتدار میں بھی صاف سنائی دے رہی ہے۔

نیو یارک ٹائمز کے ایک حالیہ تجزیے میں کہا گیا ہے کہ ویسے تو اس وبا نے بلا امتیازِ رنگ ونسل تمام باشندوں کو اپنی گرفت میں لے رکھاہے لیکن ملک کے غریب طبقوں خصوصاً افریقی نژاد امریکیوں پر سب سے زیادہ مہلک اثرات چھوڑے ہیں۔ پوری صورت حال ابھی واضح تو نہیں لیکن تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق بڑے شہروں میں جہاں اقلیتوں کی تعداد زیادہ ہے، افریقی نژاد آبادی سب سے زیادہ کرونا وائرس کا نہ صرف شکار ہورہی ہے بلکہ اموات بھی اسی آبادی میں زیادہ ہورہی ہیں۔

اسی پس منظر میں ملک کے سرجن جنرل جیروم ایڈمز، جو خود بھی افریقی نژاد ہیں، نے ایک حالیہ بیان میں کہاہے کہ ”مجھے بھی سانس کا عارضہ ہے، میں بھی زیابیطیس کے ابتدائی مرحلے سے گزررہا ہوں کیونکہ میرا بچپن بھی غربت میں گرفتار سیاہ فام لوگوں کی آبادی میں گزرا ہے۔ میں اور میری طرح دوسرے سیاہ فام امریکی بھی کووڈ – 19 کا آسانی سے نشانہ بن سکتے ہیں۔ مجھ سمیت ملک کی سیاہ فام آبادی کو اس وبا سے سب سے زیادہ خطرات لاحق ہیں اور ہم سب کو چاہئے کہ اسے روکنے کے لیے اپنا کردار اداکریں۔“

مجموعی طورپرکرونا وائرس نے امریکہ کا پہیہ جام بلکہ پورا نظام معطل کردیاہے۔ اگرچہ صورت حال روزانہ کی بنیاد پر تبدیل ہو رہی ہے لیکن اب تک کی اطلاعات کے مطابق امریکہ میں 456,000 افراد اس موذی وباکا شکار ہوچکے ہیں اور 16,000 سے زیادہ لوگ جان کی بازی ہار چکے ہیں جو اب تک دنیا کے دوسرے ملکوں کے اعدادوشمار سے بے انتہا زیادہ ہیں۔ پورے ملک میں لاک ڈاؤن ہے، سرکاری اور پرائیویٹ دفاتر بند ہیں اورانتہائی ضروری عملے کے علاوہ زیادہ تر لوگ گھروں سے آن لائن کام کررہے ہیں۔ کاروباری اداروں پر تالے پڑے ہیں اور ملک بھر میں بے روزگار لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔

امریکہ کے تمام بڑے شہروں اور ریاستوں میں یوں تو سب ہی اس کی لپیٹ میں ہیں مگر اپنی آبادی کے تناسب کے لحاظ سے افریقی نژاد آبادی سب سے زیادہ متاثر ہورہی ہے۔ مشیگن (Michigan) کی ریاست میں جہاں افریقی نژاد آبادی کا تناسب چودہ فیصد ہے، ان کی تینتیس فیصد آبادی اس وبا کا شکار ہے اور چالیس فیصد اموات بھی ان ہی کی ہوئی ہیں۔ اسی طرح شکاگو (Chicago) میں جہاں شہر کی تیس فیصد آبادی افریقی نژاد ہے، مرنے والے سڑسٹھ فیصد لوگوں کا تعلق اسی آبادی سے ہے۔ میلواکی(Milwaukee) شہر اور کاؤنٹی میں بھی صورت حال کچھ مختلف نظر نہیں آتی۔ یہاں اگرچہ چھبیس فیصد لوگ افریقی نژاد ہیں مگرپوی کاؤنٹی میں مرنے والے اکیاسی فیصد لوگ یہی ہیں۔ ان کے علاوہ بھی نیویارک(New York)، نارتھ کیرولائنا(North Carolina)، لیوزیانا(Louisiana) اور الینوئے (Illinois) سمیت دوسری ریاستوں میں بھی صورتِ حال زیادہ مختلف نہیں ہے۔

اس صورت حال کے محرکات صدیوں پرانے نسلی امتیاز کے غیرانسانی رویے اور غیر مساویانہ معاشی نظام ہے جواس پس ماندہ آبادی کو غربت اور طبقاتی جال سے باہر نہیں آنے دیتا۔  ان رویوں اور پالیسیوں کے نتیجے میں افریقی نژادباشندے جو دوسرے امریکیوں کی نسبت زیابیطیس، دل کے عارضے، کینسر اور دوسری کئی جان لیوا بیماریوں میں پہلے ہی گرفتار ہیں، اس وائرس سے تیزی سے متاثر ہوتے ہیں۔

ٹیکساس سٹیٹ ڈیموکریٹک پارٹی کی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن اور مسلم امیریکن ڈیموکریٹک کاکس کے شریک چیئر، پاکستانی نژاد سید فیاض الحسن نے اس مسئلے پر روشنی ڈالتے ہوئے روزنامہ جدوجہد کو بتایا کہ”یہ کوئی حیرانگی کی بات نہیں کہ افریقی نژاد امریکیوں کو کرونا وائرس سے سب سے زیادہ خطرات لاحق ہیں جن کی آبادی کا ایک بڑا حصہ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ اس آبادی میں بڑھتے ہوئے نفسیاتی مسائل، بچوں اور ماؤں کی بڑھتی ہوئی شرح ِاموات اورسیاہ فام سابق فوجیوں میں گلف وار سنڈروم (Gulf War Syndrome) جیسے تیزی سے بڑھتے ہوئے نفسیاتی امراض سماجی تعصب کی صرف چند مثالیں ہیں۔ تاریخی، اقتصادی اور سماجی سطح پر اس کمیونٹی سے جو تعصب برتا جارہا ہے اس کے نتائج کمیونٹی میں صحت کے گوناگوں مسائل کی صورت میں سامنے آرہے ہیں۔“

کم آمدنی کے علاقوں م میں، جہاں سفیدفام آبادی کم ہوتی ہے اور سیاہ فام زیادہ، صحت عامہ کی سہولتیں بھی کم میسر ہوتی ہیں اور اگر ہوں بھی تو آبادی کے بیشترلوگ مہنگی ادویات اور علا ج کے اخراجات برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ کم آمدنی پر گزارہ کرنے والے زیادہ تر مزدوربھی امریکہ میں منافع خورانشورنس کمپنیوں کی آسمان سے باتیں کرتی فیسوں اور ادویات کی خریداری کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ مزدور طبقہ اس وباکے دوران گھر بیٹھنے کا خطرہ بھی مول نہیں لے سکتا کیوں کہ ’سماجی فاصلوں‘ کا مطلب ان کے خاندان کے لیے فاقوں کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ اس تناظر میں غیر معیاری رہائشی سہولتیں، بے گھری (Homelessness)، تعلیم کی کمی اور دوسرے مسائل پسماندہ طبقوں میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو اور بھی آسان بنادیتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ آج جو لوگ امریکہ میں صاحبِ اقتدار ہیں وہ ان مسائل کو حل کرنے میں کتنے سنجیدہ ہیں؟

نیویارک ٹائمز کے تجزئے کی اشاعت کے فوراً بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ کوبھی اپنی روزانہ کی بریفنگ میں موجودہ صدارتی مہم کی مجبوریوں کے تحت تسلیم کرنا پڑا کہ اس آبادی پرکرونا وائرس کے سب سے زیادہ مہلک اثرات ظاہر ہورہے ہیں لیکن ٹرمپ کے لئے، جن کا تعلق رجعت پسند ر پبلکن پارٹی سے ہے، یہ مسئلہ اتنا اہم نہیں کیوں کہ وہ آجکل صدارتی انتخاب کے لئے زیادہ فکرمندہیں۔ شاید اسی لئے وہ کبھی سابق صد براک اوباما کی پالیسیوں کو، کبھی ڈیموکریٹک پارٹی کو اور کبھی چین کو کرونا وائرس کا ذمہ دار ٹھہراتے رہے ہیں البتہ ڈیموکریٹک پارٹی کے سوشلسٹ رہنما برنی سینڈرز، جنہوں نے حال ہی میں ملک کے صدارتی عہدے کے لئے پارٹی کے داخلی انتخاب (یا پرائمریز) سے دستبرداری کا اعلان کیاہے، گزشتہ دنوں ہی کہہ چکے ہیں کہ”امریکہ میں امرااور غربا کے درمیان آمدنی کی بڑھتی خلیج اور معاشی عدم مساوات میں آ ج گزشتہ سو سا لوں کے مقابلے میں بے انتہا اضافہ ہو چکاہے۔ امیرطبقے کے لئے کرونا وائرس سے نبٹنا نسبتاً آسان ہے جب کہ امریکہ کی آدھی آبادی ایک تنخواہ سے دوسری تنخواہ کے چیک پر گزارہ کررہی ہے۔ ایسے بھی لوگ ہیں جو ایک سے زیادہ ملازمتیں کرکے اپنا پیٹ پال رہے ہیں۔ ان کا کیا ہوگا؟“

ان حالات کی روشنی میں یہ کہنا کہ کرونا وائرس بلا رنگ ونسل سب کے لئے ایک جیسی مہلک وبا ہے اب ایک مذاق سا لگتاہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ وبا سماج کے مراعات یافتہ اور امیر طبقوں کے لیے اتنی مضر نہیں جتنی نچلے طبقوں کے لیے ہے۔ بلا شبہ آج دنیا کے سب سے بڑے سرمایہ دار ملک میں کرونا وائرس نے معاشی عدم مساوات اور نسلی امتیاز کے ان زاویوں کو مزید اجاگرکردیا ہے جو ملک کے پس ماندہ طبقوں کے لئے دو دھاری تلوار سے کم نہیں۔

Qaisar Abbas
+ posts

ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔