پاکستان

صنف، صحت اور عالمی وبا

بشریٰ ناز

جن کو آج تک کمزور انسان سمجھا جاتا رہا آج وہی کرونا جیسی جان لیوا وبا سے لڑنے میں سب سے اگلے محاز پر لڑ رہی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں صحت کے شعبے میں 70 فیصد خواتین ہیں۔ نسلِ انسان کو محفوظ رکھنے کے لیے کیسے کیسے اوزار نہیں بنائے گئے اور ان پر بے پناہ اخراجات بھی کئے جاتے رہے مگر اس وبا کے سامنے سب بے کار پڑا ہے۔ اس وبا سے لڑنے کے لیے صحت کے شعبے میں کام کرنے والی باہمت خواتین آج تاریخ کا دھارا موڑ رہی ہیں۔ خواتین کے اس مرکزی کردار پر ایک بار پھر ثابت ہوا ہے کہ خواتین بڑے سے بڑے طوفانوں سے ٹکرانا جانتی ہیں اور آفتوں میں نسل انسان کو بچانے کے لیے اپنی جان پر کھیل جاتی ہیں۔ ثابت ہوا کہ خواتین کسی بھی صورت مردوں کی نسبت کم تر انسان نہیں اور خواتین کی تعلیم صرف اُس بچی کے لیے ہی نہیں بلکہ پورے معاشرے کی حفاظت کے لیے کتنی ضروری ہے۔

دوسری طرف دیکھا جائے تو اس وبا سے دنیا بھر میں سب سے زیادہ مرد متاثر ہوئے ہیں جس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک یہ کہ قدرتی طور پر خواتین میں وائرسز کے خلاف لڑنے کا نظام مردوں کی نسبت بہتر ہے۔ دوسری وجہ مردوں کا زندگی گزارنے کا طریقہ کار ہے۔ جیسے دنیا بھر میں سگریٹ پینے والوں کی اکثریت مردوں سے تعلق رکھتی ہے اور سب سے زیادہ مرد ہی عوامی مقامات پر جاتے ہیں۔ اس وجہ سے مردوں کو کرونا وائرس نے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ چین کے صوبہ ہوبائی کے محکمہ صحت کے مطابق صوبے بھر کی 90 فیصد نرسیں جبکہ 60 فیصد ڈاکٹرزخواتین ہیں۔ مگر پھر بھی صحت کے شعبے میں کام کرنے والوں میں جو کرونا وائرس کا شکار ہوئے ہیں ان میں مردوں کی اوسط خواتین سے زیادہ ہے۔

مگرپدرسری نظام کی جکڑ بہت مظبوط ہے جس کی جھلک روزہ مرہ کے واقعات میں دیکھی جا سکتی ہے۔ خواتین دشمن رویوں سے ہمارا کراہِ ارض بھرا پڑا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں خواتین اور بچوں پر ہونے والے تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ اس اضافے کی وجہ موجودہ وبا کی وجہ سے ہونے والے لاک ڈاؤن کے اثرات بتائی گئی ہے۔ گھرداری میں مصروف خواتین کی زندگی میں کام کے اوقات کار میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور یہ ایسا کام ہے جس کی کوئی اُجرت نہیں۔

مغربی ممالک نے بھی تاریخ سے سبق نہیں سیکھا۔ ایبولا، زیکا، سارس، برڈ فلو اور سوائن فلو جیسی وباؤں نے دنیا کو موقع فراہم کر دیا تھا کہ اپنا اپنا صحت کا نظام بہتر کرلیں۔ ان وباؤں کے دوران، خصوصاً افریقہ میں جہاں بچوں کی ویکسنیشن میں کمی نظر آئی وہیں بچوں میں قابلِ علاج بیماریوں میں اضافہ بھی دیکھنے کو ملا۔ اس کے نتیجے میں خواتین کی بڑی تعداد نوکریوں کو چھوڑ کر بچوں کی تیمار داری میں لگ گئیں۔ بہت سی نوکریوں کا خاتمہ ہواجو وبا کے بعد بھی خواتین پر منفی اثرات مرتب کرتا رہا۔ جیسے خواتین کو وبا سے پہلے ملنے والی تنخواہ پر واپس آنے میں مردوں سے دوگناہ زیادہ وقت لگا۔ موجودہ وبا کی وجہ سے بھی خواتین کو مردوں کے ساتھ ساتھ نوکریوں سے ہاتھ دھونے پڑے۔ یہاں ایک حقیقت بھی مدِ نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ خواتین کی اکثریت گھرداری کی مشقت بغیر اجرت کے ادا کر رہی ہیں۔ ایسی خواتین کے لیے لاک ڈاؤن کے پیشِ نظر جنسی، جسمانی اور ذہنی تشدد جیسی وباؤں نے بھی سر اُٹھا لیا ہے۔ مگر اس میں قصور کسی ایک مرد کا نہیں (اگرچہ تشدد کرنے والوں کی اکثریت مردوں سے تعلق رکھتی ہے) کیونکہ مردوں پر بیتنے والی کیفیت میں اُن کا اپنا کردار کم ہوتا ہے، جیسے معاشی بحرانوں، آفات یا موجودہ وبا کے دوران کروڑوں مردوں کا بے روز گار ہونا ہے۔

موجودہ بحران میں پاکستان جیسے ملک میں حالات مزید پیچیدہ نظر آتے ہیں جہاں ثقافت، سیاست، معیشت اور ریاست خواتین کی نسبت مردوں کو ترجیح دیتی ہے۔ ہمارا صحت کا نظام شاید موجودہ بحران سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں۔ ہسپتالوں، بیڈز، وینٹی لیٹرز، ڈاکٹرز اور دیگر عملے کی تعداد وبا کے طوفان سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ ایسے حالات میں صنف اور صحت سے متعلق حقائق بتانے ضروری ہیں جو اس وبا میں اپنی اہمیت بڑھا گئے ہیں۔ میڈکل کی تعلیم حاصل کرنے والی خواتین میں سے صرف 24 فیصد ہی اس پیشے کو اپناتی ہیں۔ باقی خواتین ڈاکٹرز کو گھرداری کے لیے رہنا پڑتا ہے۔ خواتین ڈاکٹرز کے رشتوں کی طلب میں اضافہ اس مسئلے کی ایک بڑی وجہ بتائی جاتی ہے۔ ان خواتین ڈاکٹرز کی تعلیم پر سرکاری خزانے سے رعایات بھی دی جاتی ہیں مگر ہمارا ملک اس مشکل میں ان کی خدمات حاصل کرنے سے قاصر ہے۔ اور وہ بھی ایک ایسا ملک جہاں لگ بھگ 1600 مریضوں کے لیے صرف ایک ڈاکٹر میسر ہو۔ ایسے ملک میں عطائی کیوں نا اپنی جگہ بنالیں یا کیوں نہ کوئی علاج کی غرض سے پِیروں کے پاس جائے جب ڈاکٹرز کی تعداد ہی کم ہو اور علاج بھی اتنا مہنگا ہو۔ موجودہ بحران سے نمٹنے کے لیے حکومت کو غیر معمولی اقدامات اُٹھانے کی ضرورت ہے۔ ایسے وقت میں ان گھرداری میں مصروف خواتین ڈاکٹرز کو ایک اچھا پیکج آفر کر کے ڈاکٹروں کی کمی کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ حکومت اس حوالے سے قانون سازی بھی کر سکتی ہے کہ جو ایسی خواتین کواپنا پیشہ اپنانے پر قائل کرے۔ ایسے اقدام سے خواتین ڈاکٹرز کو صرف گھر داری کے لیے استعمال کرنے کی حوصلہ شکنی ہوگی۔

یاد رہے کہ کرونا وائرس کی نشاندہی کرنے والی بھی ایک خاتون سائنس دان تھی۔ خواتین کو اپنا آپ منوانا آتا ہے، وہ پدرسری نظام کی جکڑ بندیوں کو چیرتی ہوئی آگے بڑھ رہی ہیں۔ ہم سلام پیش کرتے ہیں دنیا بھر کے صحت کے شعبے میں کام کرنے والوں کو اور خصوصاً اس شعبے میں موجود 70 فیصد خواتین کو کہ جن کے دم سے ہے نسلِ انسان کو جینے کی اُمید۔

Roznama Jeddojehad
+ posts