نقطہ نظر

کیا کرونا وائرس مستقبل قریب میں سماجی و سیاسی تبدیلیوں کا موجب بن سکتا ہے؟

ناصر اقبال

اس میں کوئی شک نہیں کہ کرونا وائرس حالیہ عہد کا سب سے بڑا اور خطرناک المیہ بن کر سامنے آیا ہے۔ آج کے دن تک یعنی 12 اپریل تک دنیا بھرمیں ایک لا کھ دس ہزارسے زیادہ افراد لقمہ اجل اورایک لاکھ اٹھارہ ہزار سے زیادہ افراد ہسپتالوں، سرکاری قرنطینو ں اور گھریلو قسم کے قرنطینوں میں موت و حیات کی کش مکش میں مبتلا ہیں۔

کرہ ارض کی باقی ماندہ آبادی بمعہ اپنے اپنے حکمران طبقات و ٹولوں اور ریاستوں کے ممکنہ کرونا انفیکشن، سماجی دوری، بیروزگاری اور ہر قسم کے نامساعدحالات اور مستقبل کے ا ن دیکھے خوف سے دوچار ہے۔ تقریباً چار ماہ کے قلیل عرصہ میں کرونا نے چین سے امریکہ تک کا سفرمکمل کر کے دنیا کے ہر انسان کو بلاواسطہ اور بلواسطہ طورپر بیمار یا متاثر کر کے عالمی معیشت کا پہیہ روک دیا ہے۔

بہر حال اس وبا کا علاج تو ڈاکٹر حضرات نے ہی کرنا ہے۔ ناکامی کی صورت میں علاج پھر قدرت کرے گی اور یہ ضروری نہیں کہ پھرنتیجہ ہماری مرضی و منشا کے عین مطابق ہی ہو۔ سماجی تبدیلی کے طالبعلم ہونے کے ناطے اس وقت ہم کرونا کے نقصانات و دیگر پرکوئی جامع اور مستند کالم نہیں لکھ سکتے کیونکہ کرونا خالصتاً ٹیکنیکل مسئلہ ہے جس سے ہمارے ڈاکٹر ز اور پیرا میڈکس احسن طریقے سے نبٹ رہے ہیں۔

جدوجہد آن لائن کی طرف سے ہم ان تمام خواتین و حضرات کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالااورکرونا کے خلاف صف آرا ہوئے۔ اس میں ہمارے نوجوان کامریڈز بھی قابل تحسین ہیں جو بیروزگار مزدوروں کو گھر گھر جا کر راشن تقسیم کرنے میں ہمہ تن ہیں۔

وائرس کے پھیلاؤ کی خبریں چین سے دسمبر میں آنی شروع ہوئیں۔ حسب روایت ملکی اورعالمی سوشل میڈیا اور پرنٹ و الیکٹرونک میڈیاپرسازشی نظریات، افواہوں، خواہشات، فروعات اور غلط فہمیوں کے ساتھ ساتھ فکری مغالطوں کا ملا جلا وائرس کرونا سے بھی دس گنا زیادہ تیز رفتاری سے پھیلنا شروع ہوا۔

آج کے کالم میں ہم صرف چند مغالطوں کا ذکر اور جواب دینے کی کوشش کریں گے جس میں کہ کرونا وائرس دو کے فارمولے کے تحت پھیلتا ہے یعنی ایک سے دو، دو سے چار اور چار سے آٹھ وغیرہ۔ پاکستان میں وبا کے اولین دنوں میں یعنی مارچ کے پہلے ہفتے میں اس تھیوری کے ذریعہ سے الیکٹرونک میڈیا پر خوب خوف و ہراس پھیلایا گیااور شطرنج، بادشاہ اور چاول کے دانے کی مثالیں پیش کی گئیں۔ اس طریقہ کے مطابق اگر پاکستان میں یکم مارچ کو ایک مریض ہوتا اور فارمولہ کے تحت مریض کم از کم دو افراد کو وائرس منتقل کر چکا ہوتا تو بارہ اپریل تک ملک میں مریضوں کی تعداد اڑتالیس کھرب سے بھی تجاوز ہو چکی ہوتی۔

پاکستان میں تو مرض یاوبا کی ابتدا یا بوہنی ہی دو ہزار مریضوں سے ہوئی اوراس پہ ا گر یہی فارمولہ لگے تو وبا اس وقت نظام شمسی تو کجا ہماری گلیکسی کی سرحدیں بھی پار کر چکی ہوتی۔ مجھ جیسے تمام کامریڈوں کا اولین فرض ہے کہ ایسے مواقع پرایسے شطرنج کے کھلاڑیوں جنہوں نے زند گی میں شاید لڈو یا گلی ڈنڈا بھی نہ کھیلا ہو پرخصوصی نظر رکھیں اور ان کے فضو ل پراپیگنڈے سے بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں۔ ہمارے کچھ کامریڈ نہ صرف اس طرح کے نظریات سے متاثر ہو جاتے ہیں بلکہ سوشل میڈیا کے ذریعے سے آگے بڑھا کر اپنا وقت اوردوسروں کا دماغ خراب کر تے رہتے ہیں۔

ہر قسم کے میڈیا پر یہ زدوعام ہے کہ کرونا وائرس تباہی کے ساتھ ساتھ کچھ اچھی باتیں بھی لایا ہے مثلاً ماحولیات کے مسئلہ کو ٹھیک کر رہا ہے، اوزون کا شگاف برابر ہو گیا ہے، اٹلی کی نہروں میں اور امریکہ کے ساحلوں پر مچھلیاں واپس آنا شروع ہو گئی ہیں، لاہورکی فضااس طرح صاف ہو گئی ہے کہ ستارے زمین پر اتر آئے ہیں اور زمین اپنے آپ کوٹھیک کر رہی ہے وغیرہ۔اور اس کے حق میں دلیل یہ دی جاتی ہے کہ چونکہ چند ہفتوں سے دنیاکی صنعتیں بند ہیں۔ کوئی ان لوگوں سے پوچھے کہ اے اللہ کے بندو کیا پاکستان یا دنیا کے کارخانے کوئلہ اور لکڑی سے چل رہے تھے؟ موسمیاتی تبدیلیاں جو کہ پانچ یا چھ سو سالہ صنعتی، ذرائع آمد و رفت اور ایٹمی فضلاجات کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوئی ہیں کیا چند ہفتوں یا مہینوں کے ٹریفک کنٹرول سے ٹھیک ہو جائیں گی؟

یہ بات بھی کی جا رہی ہے کہ کرونا وائرس کی تباہ کاریوں کے نتیجہ میں دنیا کی سیاست حتیٰ کہ جغرافیہ بھی تبدیل ہو جائے گا۔ ہمارے کچھ کامریڈوں کے نزدیک کرونا وائرس سرمایہ داری کے اندرونی تضادات کا شاخسانہ ہے اور یہ بحران اب بذریعہ کرونا ہی ٹھیک بھی ہو جائے گا۔

کچھ دوستوں کے خیال میں ریاستی ادارے کی ناکامی و نااہلی آشکار ہوئی ہے اور وہ نتیجے میں ریاست کی تحلیل کو دیکھ رہے ہیں۔ ہمارے ایک اور فاضل دوست نے چند دن پہلے سوشل میڈیاپر یہ فتویٰ جاری فرمایا کہ سندھ میں سائیں مراد علی شاہ نے کرایہ داروں کا کرایہ تین ماہ کے لئے موخر کر کے پاکستان میں سوشل ازم کی بنیاد رکھ دی ہے (ماخوذ)۔

یہاں اہل علم اور دوستوں کی نیک خواہشات جو کہ انہوں نے ایک وائرس یا وبا سے وابستہ کر لی ہیں کو رقم کرنے کا مقصد ان کا مذاق یا تحقیر کرنا نہیں بلکہ ایک نفسیاتی مسئلے کی طرف توجہ مبذول کروانا ہے جس کا شکار ہو کر انسان مکروہ سے مکروہ چیز میں سے بھی کوئی اچھی چیز اخذ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسی کیفیت حضرت انسان پربسا اوقات انتہائی فکری مایوسی، بے عملی اورجسمانی بے بسی کے عالم میں ہی طاری ہوتی رہتی ہے۔

وبا یا عالمی وبا لاکھوں اور کروڑوں انسانوں کی جان لے سکتی ہے، محدود پیمانے پر ا ور محدود وقت کے لئے معیشت اور سیاست پراثر انداز ہوتے ہوئے انسان کے مجموعی شعور میں فقط اتنا ہی اضافہ کر سکتی ہے کہ بیماریوں اور جراثیم کی لسٹ ایک کا اضافہ، میڈیکل کے سلیبس میں اک آدھ صفحے کا اضافہ، دواوں کے ناموں میں ایک نئی دوا کا اضافہ اور تاریخ کے اوراک چند الفاظ کااضافہ جیسے آج ہم یاد کرتے ہیں کہ فلاں سال میں انفلونزا یا فلاں وقت طاعون کی وباپھیلی اور اس سے اتنے لوگ جان سے گئے اوربس۔

انسانی تاریخ ہمیں بتاتی ہے بیشمار وبائیں آئیں اور انسانیت کا تھوڑا بہت نقصان کر کے غائب ہو گئیں مگر زندگی کی گاڑی چلتی رہی۔ جہاں تک سوال ہے حالیہ وبا کی تباہ کاریوں کا اور معاشی، سماجی اور سیاسی تبدیلیوں کا یا مابین رشتوں میں تبدیلیوں کاتو ہمارے جملہ علم کے مطابق تاریخ میں اس کاکہیں بھی ذکر کہیں نہیں ملتا کہ فلاں زلزلہ کے بعد غلام آزاد ہو گئے اور فلاں سونامی کے بعد جاپان میں سوشلزم آ گیا یا نافذ العمل ہو گیا۔ انسانی سماج کی تمام تر تبدیلیاں خواہ انقلابی ہوں یا ارتقائی انسانوں کے ذاتی اور اجتماعی شعوری کاوشوں، قربانیوں، جدوجہد اور محنت کاہی ثمر ہیں۔

میجر اسحق محمد (مرحوم) اکثر کہا کرتے تھے کہ قدرتی آفات کا طرز عمل بھی خالصتاً طبقاتی نوعیت کاہوتا ہے۔ قدرتی آفات جن میں سیلاب، زلزلہ، سونامی، طوفان بادو باراں، وبائیں اور جنگیں جب بھی مسلط ہوتی ہیں، جانی و مالی نقصانات کا سبب بنتی ہیں۔ بظاہرتویہ معاشرے کے تمام ارکان جن میں امیر اور غریب شامل ہوتے ہیں نقصانات سے متاثر دکھائی دیتے ہیں لیکن حقیقت میں بالادست طبقہ غریب طبقہ کی نسبت انتہائی کم نقصان اٹھا رہا ہوتا ہے اور جب بحالی کا وقت آتا ہے تو امیر یا بااثر طبقات اپنے تمام نقصان مع منافع اور سود وصول کر لیتے ہیں ا ور بسااوقات وہ نقصانات بھی پورے کر لئے جاتے ہیں جو کبھی ہوئے ہی نہیں تھے۔

جب سے پاکستان میں کروناکی وبا شروع ہوئی ہے، بالادست طبقات نے بھی لوٹ مار کی تیاری ابھی سے پکڑ لی ہے۔ یہاں ترقی پسندتحریک کا فرض بنتا ہے کہ وہ میدان عمل میں آئے، ہر قسم کے چوروں پر اور ان کی چالوں پر نظر رکھے اور بحالیات کے عمل کا حصہ بنتے ہوے پسے ہوئے طبقات کے مفادات کا تحفظ کرے۔

مشتری ہوشیار باش۔ جب سے آئی ایم ایف اور عالمی بینک کی طرف سے پاکستان کو امدادی پیکج کی آفر ہوئی ہے تب سے ملکی حکمران طبقات میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ جاگدے رہنا۔

Nasir Iqbal
+ posts

ناصر اقبال گزشتہ تقریباً تین دہائیوں سے پاکستان کی ترقی پسند تحریک کیساتھ وابستہ ہیں۔