خبریں/تبصرے

حکومت کسانوں بارے آنکھیں بند کئے ہوئے ہے: پاکستان کسان رابطہ کمیٹی

لاہور (پریس ریلیز/جدوجہد رپورٹ) حکومت نے کرونا وائرس سے متاثر چھوٹے زمین داروں اور کسانوں کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا ہے، وہ کسی ریلیف پیکچ کا حصہ نہیں ہیں اور انکے بارے میں مکمل خاموشی اختیار کر لی گئی ہے” ان خیالات کا اظہار فاروق طارق جنرل سیکرٹری پاکستان کسان رابطہ کمیٹی نے ایک بیان میں کیا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بے شمار نئے غریب سامنے آ چکے ہیں۔ جن کا زیادہ تر تعلق دیہاتوں سے ہے۔ ان کی آمدنی مکمل طور پر ختم ہے اور حکومت ان بارے آنکھیں بند کئے ہوئے ہے۔ چھوٹے زمین داروں، بے زمین کسانوں اور زرعی مزدوروں کے لئے فوری حکومت پیکچ کا اعلان کیا جائے۔

 کرونا وائرس نے حکومت کا کسانوں کی طرف بے انصافی پر مبنی رویہ بے نقاب کر دیا ہے۔ کرونا وائرس سے کسانوں کو پہنچنے والے نقصانات کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ پھلوں اور سبزیوں کے کاشتکار مالی طور پر تباہ ہو گئے ہیں۔ سندھ کے دیہاتوں میں ٹماٹر کی کھڑی فصلیں چھوڑ دی گئی ہیں۔ ان کو منڈی تک لے جانے کی لیبر بھی پوری نہیں ہو رہی۔ پنجاب کے مختلف شہروں میں ٹماٹر اور سبز مرچ 20 روپے کلو کے حساب سے فروخت ہو رہے ہیں۔ کرونا کی وجہ سے تمام سبزیوں کی قیمتیں گری ہوئی ہیں۔

اس دفعہ سٹرابری کاشت کرنے والے کاشتکاروں کو بڑا نقصان ہوا ہے۔ دو سو روپے کلو بکنے والی سٹرابری 60 سے 80 روپے کلو فروخت ہو رہی ہے۔ پھلوں، پھولوں اور سبزیوں کے کاشتکاروں کو کرونا وائرس لے ڈوبا ہے۔

ڈیری مصنوعات کی پیداوار میں شریک زمینداروں کو زبردست نقصانات ہوئے ہیں۔ بے شمار دور دراز دیہاتوں میں دودھ پانی سے بھی سستا بک رہاہے۔ چائے کے سٹال بند ہونے سے لاکھوں لیٹر دودھ اب شہروں میں نہیں پہنچ رہا۔ دیہاتوں میں دودھ 30 سے 35 روپے فی لیٹر بک رہا ہے۔ وہ تمام دیہاتی جو ایک دو گائے بھینس رکھ کر روزانہ کا گزارہ کر رہے تھے وہ اب شدید مشکلات کا شکار ہیں۔

ملک بھر میں پولٹری کا بزنس کرنے والے چھوٹے زمینداروں کو زبردست مالی نقصانات ہوئے ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں چوزوں کو کنووں میں پھینک دیا گیا تا کہ ان کی خوراک کا خرچہ تو بچایا جا سکے، شادیوں، تقریبات اور شہر میں پولٹری کی آمدورفت میں پابندیوں کی وجہ سے پولٹری کا کاروبار کرنے والے بے شمار دیہاتیوں کا دیوالیہ نکل گیا ہے۔ مرغی کا گوشت 140 روپے کلو تک نیچے گرا رہا اور آج بھی ملک کے مختلف حصوں میں مرغی کا گوشت اسی ریٹ پر مل رہا ہے۔

بحیثیت مجموعی چھوٹے کاشتکاروں یا بے زمین کسانوں کو سرکاری قرضوں کی واپسی اور پرائیویٹ قرضے جیسے کھاد سپرے یا مشینری کے استعمال پر لئے گئے قرضوں کی واپسی اور ادائیگی کا شدید مسئلہ درپیش ہے۔ جن لوگوں نے رقبہ یا زمین ٹھیکے پہ لے رکھی تھی ان کی ٹھیکوں کی ادائیگی کا مسئلہ شدت اختیار کر گیا ہے۔ ہمارا مطالبہ کہ کسانوں کے سرکاری قرضے فوری ختم کئے جائیں۔ اور تھوڑی تھوڑی زمین ٹھیکوں پر لے کر کاشت کرنے والوں کو بھی سرکاری طور پر مدد دی جائے۔

تحریک انصاف حکومت کو کسانوں کو کرونا وائرس سے پہنچنے والے نقصانات کا جائزہ لینے کے لئے فوری طور پر کسانوں کے نمائندوں کا حکومتی سطح پر اجلاس منعقد کرانا چاہئے جس میں نقصانات کا اندازہ کرنے کی حکمت عملی کا طریقہ کار طے کیا جائے اور کسانوں کے لئے معاشی پیکچ کا اعلان کیا جائے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts