دنیا

فورتھ انٹرنیشنل: ’فلسطین میں جارحیت پورے مشرق وسطیٰ پر سامراجی حملہ ہے‘

(مندرجہ ذیل بیان فورتھ انٹرنیشنل کی ایگزیکٹو بیورو نے جاری کیا ہے)

فلسطین کے خلاف جنگ نے تاریخ کا ایک نیا باب کھول دیا ہے۔ یہ نسل کشی ہے جو اسرائیل کی طرف سے امریکہ کی فعال حمایت یا تو بہت سی دوسری ریاستوں کی فعال پشت پناہی سے کی گئی ہے۔

غزہ کے 2.4 ملین فلسطینیوں میں سے 1.9 ملین یعنی آبادی کا 86 فیصد اندرونی طور پر بے گھر ہو چکے ہیں۔ 41 ہزارسے زیادہ ہلاک ہونے والوں میں سے 40 فیصد خواتین اور بچے ہیں۔ اس قتل عام کی حقیقت یہ ہے کہ ایک لاکھ 50ہزارسے 2لاکھ کے درمیان، یعنی غزہ کی آبادی کا تقریباً 10فیصد ہلاک ہوئے۔ خوراک یا امداد کے بغیر علاقے میں آبادی کے محاصرے اور بین الاقوامی قوانین کی بہت سی دوسری خلاف ورزیوں کے ذریعے اسرائیل یہ ظاہر کر رہا ہے کہ اس کا مقصد غزہ کی پٹی پر دوبارہ قبضہ کرنا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مغربی کنارے سے 16 فلسطینی کمیونٹیز کو زبردستی نکالا جا چکا ہے اور جولائی 2024 تک 1285 فلسطینی بے گھر ہو چکے ہیں۔

یہ تمام فلسطینیوں اور مشرق وسطیٰ کے لوگوں کی اکثریت کے خلاف ایک حملہ اور خطرہ ہے، جس کے پورے خطے اور عالمی جغرافیائی سیاست دونوں پر بڑے اثرات مرتب ہوں گے۔

ستمبر 2024 میں لبنان میں اسرائیل کے حملوں سے جنگ کے ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔ اندھا دھند حملوں اور بڑے پیمانے پر بمباری سے کئی سو لوگ مارے گئے، اور دسیوں ہزار ملک کے جنوب سے فرار ہو گئے۔ اس کے بعد 27 ستمبر کوحزب اللہ کے سیکرٹری جنرل حسن نصر اللہ اور دیگر متعدد رہنماؤں کا قتل کیا گیا۔حزب اللہ کے مواصلاتی نیٹ ورک کو سبوتاژ کرنے کے بعد تنظیم کے رہنما کو ہلاک کر دیا گیا۔

اس کے بعد یہ واضح ہو گیا ہے کہ اسرائیل کے فوجی اور سیاسی حملے کا مرکز غزہ سے لبنان کے جنوب کی طرف منتقل ہو گیا ہے، یعنی اس ریاست کے ان علاقوں میں جہاں حزب اللہ کے ٹھکانے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایران کونام نہاد مہذب دنیا کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیتے ہوئے پروپیگنڈے کی توجہ اس جانب مرکوز کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ درحقیقت نیتن یاہو نومبر 2023 سے اس علاقے میں ’محدود فوجی دراندازی‘ کر رہے ہیں لیکن اب ان کی چالوں کا ایک اہم حصہ ایسی صورت حال میں امریکی فوجی اور سیاسی حمایت حاصل کرنا ہے جہاں وائٹ ہاؤس کے پاس الیکشن کی وجہ سے ایسا کرنے کی طاقت نہ ہونے کے برابر ہے۔

بائیڈن کا اسرائیل کی طرف جھکاؤمنافقت کی نئی گہرائیوں کو بے نقاب کرتا ہے۔ 26ستمبر کو امریکہ اور دیگر کی طرف سے صہیونی ریاست اور حزب اللہ کے درمیان تین ہفتے کی جنگ بندی کے مطالبہ کو فوری طور پر بائیڈن کی جانب سے نصر اللہ کی موت کا خیرمقدم کرتے ہوئے بدل دیا گیا، جس نے واضح کیا کہ بائیڈن انتظامیہ جنوبی لبنان میں اسرائیل کے حملے کی اتنی ہی حمایت کر رہی ہے جس طرح غزہ میں کرتی آئی ہے۔

اسرائیل ایک غیر متناسب جنگ کی شکل میں بڑے پیمانے پر دہشت گردی کر رہا ہے، جس کا مقصد تمام سیاسی، عسکری یا فوجی اختلاف کو خاموش کرنا ہے۔ یہ’اسرائیل حماس‘ جنگ، یا حزب اللہ کے خلاف جنگ نہیں ہے۔ نہ ہی یہ محض نسل پرست اور نوآبادیاتی آبادکار ریاست کی 75 سالہ جنگ کا تسلسل ہے، اور نہ ہی یہ محض اسرائیل کی ریاست کے مسلط ہونے سے پہلے فلسطین میں آباد ہونے والوں کے خلاف نسلی تطہیر ہے۔

موجودہ قتل عام کو نیتن یاہو حکومت کی نیو فاشسٹ فطرت نے سہولت کاری فراہم کی ہے۔یہ حکومت عدلیہ پر اپنی متکبرانہ بالادستی اور بدعنوانی کے واضح الزامات، اور مہینوں سے جاری حکومت مخلاف عوامی مظاہروں سے بہت کمزور ہو چکی ہے۔
تاہم صیہونیت مخالف بائیں بازو کی انتہائی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نیتن یاہو نے داخلی صورتحال پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے لیے 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے کے موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ گریٹر اسرائیل کے قیام کا مقصد، جس میں لبنان کے جنوب میں دریائے لطانی تک کا علاقہ شامل ہو سکتا ہے، اسرائیلی پالیسی کے اندرونی مقاصد اور جنگ کی طرف بڑھنا درحقیقت مغربی طاقتوں کی طرف سے پیش کیے گئے’تہذیبوں کے تصادم‘ کے بیانات سے مطابقت رکھتا ہے، جو سامراجی تسلط کے عالمی بحران کے تناظر میں ان کی ضروریات سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔

نیتن یاہو آج دنیا میں انتہائی دائیں بازو کے سب سے بڑے سرخیل ہیں، جن کے روایتی اینٹی سمیٹک محور کو عالمی نسل پرست اور اسلاموفوبک محور سے مطابقت حاصل ہے۔ ہم ایک نئے عالمی نظام کے ظہور کا مشاہدہ کر رہے ہیں، جس کا تاریخی کام دنیا پر بڑی سامراجی طاقتوں کے تسلط کے فائدے کے لیے اجتماعی قتل عام کو ممکن بنانا ہے۔

لہٰذا ہم یہ ماننے میں غلطی نہیں کرتے کہ نیتن یاہو کو حکومت سے ہٹانے کا مطلب فلسطینی عوام کے لیے انصاف ہوگا۔ ہم، مثلاََ، دیکھ سکتے ہیں کہ ستمبر 2024 کے دوسرے نصف حصے میں حزب اللہ پر زیادہ توجہ مرکوز کرنے کی نیتن یاہو کی حکمت عملی درحقیقت اپنے ہی (زیادہ)رائٹ ونگ اتحادیوں اورنام نہاد حزب اختلاف کے مرکزی رہنما بینی گینٹزکو خاموش کرنے کی کوشش ہے۔یہ اتحادی اور بینی گینٹززیادہ توجہ لبنان پر مرکوز کرنے پر زور دے رہے ہیں۔

اگرچہ نیتن یاہو کے ممکنہ جانشین حماس کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے پر راضی ہو سکتے ہیں یا جنگ پر ان کے ساتھ دیگر حکمت عملی پر اختلاف رکھتے ہیں۔ تاہم وہ غزہ اور مغربی کنارے پر اسرائیلی کنٹرول کے لیے بالکل اسی طرح پرعزم ہیں، اور بالکل اسی طرح ان علاقوں میں محدود فلسطینی خودمختاری کی کسی بھی تجویز کے خلاف ہیں، جیسے نیتن یاہو ہیں۔

فلسطینیوں پر جبر کسی ایک شخص کی خواہش کی وجہ سے نہیں بلکہ فلسطینی عوام کی قیمت پر اسرائیلی ریاست کے قیام کی منطق ہے۔

اس کے باوجود اسرائیل تنہا کام نہیں کر رہا ہے۔ 2003 میں عراق کے خلاف کارروائی کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ امریکہ نے اتنی براہ راست مداخلت کی ہے۔ اسرائیل کو اسلحے اور لاکھوں ڈالر کی امداد کا عام شہریوں کا تاریخی قتل عام کرنے میں فیصلہ کن کردار ہے۔ یہ سلسلہ عظیم مغربی طاقتوں کی خاموشی یا منافقانہ احتجاج، چین کے محدوداحتجاج یا پیوٹن کے روس کی محتاط چال کی وجہ سے بڑھ رہا ہے۔

جہاں تک عرب دنیا کی زیادہ تر حکومتوں کا تعلق ہے، وہاں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو’معمول پر لانے‘ اور فلسطینی کاز کو نظر انداز کرنے کی ان کی جو منطق 7 اکتوبر سے پہلے غالب تھی، اب عوامی دباؤ کے تحت غزہ پر بمباری کے خلاف آنے والے تنقیدی بیانات قابل رحم اور افسوسناک ہیں۔عربی بولنے والے خطے کے مسلم ممالک کے لاکھوں لوگوں کے لیے عرب حکومتیں واضح طور پر اسرائیل اور سامراجیوں کے ساتھ تعاون کرتی نظر آرہی ہیں۔ الجزائر، مراکش، مصر اور اردن میں یہ پالیسی انہیں اپنی آبادیوں کے خلاف جبر کو تیز کرنے پر مجبور کررہی ہے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ فلسطین کے ساتھ یکجہتی کے لیے کوئی بھی تحریک لامحالہ ان کی حکومتوں کے خلاف احتجاج میں بدل جائے گی۔

شام میں اسد نواز بٹالینز، لبنان میں حزب اللہ، یمن کے حوثی۔۔۔ایسی تمام طاقتیں جو ایران میں تھیوکریٹک اور گہری جابرانہ حکومت کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں اور فلسطینی عوام کے مفادات میں کام کرنے کا دعویٰ کرتی ہیں، دراصل وہ اپنے مفادات کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہی ہیں۔

اس طرح یہ ایک کثیر اہداف پر مبنی نوآبادیاتی اور سامراجی حملہ ہے، جس میں مغربی کنارے میں نئی بستیوں کی پرتشدد اور جابرانہ حوصلہ افزائی، فلسطینیوں کی گمشدگی یا بڑے پیمانے پر اخراج، جنوب مغربی شام میں فوجی مداخلت اور یمن کے حوثیوں پربمباری شامل ہے، جو بحیرہ احمر کے داخلی راستے پر امریکی بحریہ اور تجارتی جہازوں کی نقل و حمل کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اسرائیل جو کچھ کر رہا ہے وہ اس کے دفاع کے لیے نہیں ہے،بلکہ حالیہ تاریخ کے سب سے شرمناک قتل عام میں سے ایک ہے، جسے ہیگ ٹریبونل کے سامنے جنوبی افریقہ نے بجا طور پر نسل کشی قرار دیا ہے۔ جاری المیہ دنیا بھر میں سیاسی نظریاتی اتھل پتھل کا باعث بن رہا ہے۔ ان کے اتحادیوں کے لیے امریکا اور اسرائیل دونوں کا دفاع کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

غزہ میں ہونے والے قتل عام کا پوری دنیا کے نوجوانوں پر خاص اثر پڑ رہا ہے۔ یکجہتی کی تحریک کو بڑے پیمانے پر جبر کا سامنا کرنا پڑا۔ مظاہروں پر پابندی لگا دی گئی، شرکاء کو دبایا گیا اور یہاں تک کہ انہیں قید کر دیا گیا۔ لاکھوں لوگوں نے احتجاج کیا، اسلحہ ساز فیکٹریوں کی ناکہ بندی کی اور اپنے ممالک اور اسرائیل کے درمیان معاہدوں کو توڑنے کے لیے دباؤ ڈالا۔ اس تحریک کا ثقافتی حلقوں میں اثر رہا ہے، اور بائیکاٹ کی تحریک پھیل چکی ہے۔ لاکھوں نوجوان جنہوں نے پہلی اور دوسری انتفادہ کا تجربہ نہیں کیا تھا، انہوں نے اس جدوجہد کو دوبارہ دریافت کیا اور اسے اپنا بنا لیا۔ محنت کش طبقے کے محلوں سے تعلق رکھنے والے اسلاموفوبیا کے عروج کا شکار نوجوانوں نے خود کو فلسطینی کاز کے ساتھ منسلک کر دیا ہے۔

اگرچہ اسرائیل کے اقدامات کا دفاع کرنے والوں کی طرف سے اس مقصد کی حمایت میں کیے جانے والے اقدامات کو فوری طور پر یہود دشمن قرار دیا جاتا ہے، مغرب میں نوجوان یہودی انسانیت پسند ہیں اور ان میں سے اکثر صیہونیت مخالف ہیں۔ وہ7اکتوبر کے اسرائیل نواز جذبات کے مخالف سمت میں بڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے ایک تاریخی تحریک کا اہتمام کیا ہے،جس نے ان طاقتوں کو چیلنج کیا جو امریکہ میں ہیں۔ اس تحریک نے جوبائیڈن کو کملا ہیرس سے بدلنے میں اہم کردار ادا کیا۔ مغربی دنیا کے بہت سے رہنماؤں کی طرح وہ (کملا ہیرس)اسرائیل کے خلاف عوامی سطح پر تنقیدی موقف اختیار کرنے پر مجبور ہیں، چاہے ان کی اصل پالیسی نسل کشی کی حکومت کی غیر متزلزل حمایت ہی ہے۔

تحریک کئی مراحل سے گزری ہے۔ سب سے پہلے 7اکتوبر کے بعد کے مہینوں میں اسرائیل کے نام نہاد ’دفاع کے حق‘ کی حمایت کرنے والے سیاسی دباؤ سے نمٹنے میں مشکلات درپیش تھیں۔ اس کے بعد جب یونیورسٹیاں متحرک ہوئیں تو ایک ردعمل نظر آیا اوربڑے پیمانے پر لوگ متحرک ہوئے۔ آج ہمیں لبنان تک جنگ کی توسیع کے ساتھ ایک نئی صورتحال کا سامنا ہے، جو ایران میں ٹارگٹڈ حملوں کے بعدبنی ہے۔ علاقائی جنگ کا خطرہ پہلے سے کہیں زیادہ موجود ہے، اور جس جنگ کا ہمیں خوف تھا، یا جس کی پیش گوئی کی گئی تھی وہ جاری ہے۔

فلسطین کے ساتھ یکجہتی کے لیے عالمی تحریک کی تشکیل کرنا ہماری پہلے سے زیادہ ذمہ داری ہے۔ ایسی تحریک کو وسیع البنیاد اور متحد ہونا چاہیے، جس میں قتل عام کے خاتمے، فوجوں کے انخلاء، غزہ کی تعمیر نو، انسانی امداد، پناہ گزینوں کی واپسی کے حق، اور تمام بنیادی انسانی ہمدردی کے مطالبات کو شامل کیا جائے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہمیں مظاہروں، دھرنوں اور بائیکاٹ کو تیز کرنا چاہیے، نسل کشی کے ساتھ تعاون کرنے والی کمپنیوں کی طلبی کا مطالبہ کرنا چاہیے، اور ہتھیاروں کی فروخت کو روکنے کا مطالبہ کرنا چاہیے۔

ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ تحریک ایک سامراج مخالف، نوآبادیاتی، جنگ مخالف تحریک بھی ہے، یہ دنیا میں افراتفری کے خطرے کے خلاف ہے، جہاں بڑی طاقتوں کے درمیان تعلقات ہتھیاروں کے ذریعے طے کیے جاتے ہیں۔ اس تحریک کے ایک حصے کے طور پر ہم دنیا کے لوگوں، محنت کش طبقے اور نسل پرستی مخالف لوگوں کو مجرموں سے اقتدار چھیننے کے لیے اٹھ کھڑے ہونے کی اپیل کرنا چاہتے ہیں۔

ہم مسلح اور غیر مسلح،دونوں طرح کی مزاحمت کی حمایت کرتے ہیں، پورے مشرق وسطیٰ سمیت صرف ایک بڑے پیمانے پر متحرک ہونا ہی غیر متناسب جنگی توازن کو بدل سکتا ہے اور اپنی ریاستوں اور تنظیموں کو اس نسل کشی کے خلاف متحرک ہونے پر مجبور کر سکتا ہے۔

ہم حماس یا حزب اللہ کے سیاسی منصوبے، معاشرے کے بارے میں ان کے رجعتی نظریات سے اتفاق نہیں کرتے۔ تاہم ہم تسلیم کرتے ہیں کہ خطے میں بائیں بازو کی دہائیوں سے ہونے والی شکستوں کے پیش نظر ایسی قوتیں موجود ہیں جو قابل اعتبار ہیں اورکسی دوسری قوت کی عدم موجودگی میں لوگ قیادت کے لیے ان کی طرف دیکھتے ہیں۔ ہم خطے اور خطے سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کی شکل میں موجود ان قوتوں سے بات چیت کر سکتے ہیں۔

ہم مغربی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے بیان بازی کی مذمت کرتے ہیں جو انہیں محض ’دہشت گرد‘قرار دیتی ہے۔دریں اثناء، جن معاملات میں ان قوتوں کے رجعتی پروگرام ہیں وہاں ہم ان سے رتی برابر اتفاق نہیں کرتے۔ ہم عوامی محاز آزادی فلسطین (PFLP)،جمہوری محاذ آزادی فلسطین (DFLP)، حماس اور حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرستوں سے نکالنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

دنیا میں کسی بھی دوسری جگہ کی نسبت،فلسطین میں استحصال زدہ اور مظلوموں کی کامیاب جدوجہد ایک منصفانہ دنیا کا زیادہ کامیاب راستہ بن سکتی ہے۔ ہم اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ صرف ایک آزاد، جمہوری، سیکولر اور مساوات پر مبنی فلسطین،خطے کی آبادیوں کو ایک منصفانہ اور پرامن حل فراہم کر سکتا ہے، جہاں ہر کوئی رہ سکتا ہو، چاہے اس کا کوئی بھی مذہب ہو،اور جب تک وہ اس غیر نوآبادیاتی ڈھانچے کو قبول کرے۔

ایسا فلسطین تب ہی ممکن ہے جب طاقت کا توازن اس طرح سے بدلے گا کہ فلسطین کا حل ٹکڑوں میں بٹی ریاست تک محدود نہ ہو۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب سامراجیوں، خاص طور پر امریکہ کو روکنے کے لیے عالمی سطح پر لوگ متحرک ہوں،خاص طور پر اس خطے میں ایک عوامی تحریک جنم لے۔

(ترجمہ: حارث قدیر، فاروق سلہریا)

Roznama Jeddojehad
+ posts