حمزہ ہاشمی سوز
تیشہ ہاتھوں میں گھمائے ہوئے، سیماب وجود
سینہِ سنگ سے جھرنوں کی صدا پھوٹتی ہے
ساز و اہنگ میں ڈھلتی ہوئی رفتہ رفتہ
جیسے خاموشی کی مضبوط گرہ ٹوٹتی ہے
ایک اک طعنہِ قسمت کو نگوں سار کیے
گاہے تدبیر کے بل پر پھرے بازو تولے
آبلے دھوپ کے تیور سے پھٹے پیروں پر
آہنی ہاتھ، نہاں خانوں کا رستہ کھولے
گاہے با عز و شرف آئے ہیں کشکول بدست
گاہے کشکول میں بہتات زر و گوہر کی
سنگ ریزوں میں، کبھی دفن محلات میں تھے
پہنی فولاد کی زنجیر، کبھی زیور کی
ہم نے چاہی ہی کہاں وقعتِ دینار و درم
ہم نے چاہا تو فقط اپنی مہارت کا صلہ
اک یہی خوں سے کشیدہ ہے پسینے کا خراج
اک یہی بارِ اجل، دستِ مشقت کا صلہ