قمرالزماں خاں
کارباری اداروں، کمپنیوں اور کارپوریٹ سرمایہ داری کیلئے، منڈیوں پر قبضہ، غالب جدید سرمایہ داری کا سب سے اہم ہدف رہا ہے۔ نو آبادیاتی عہد کے پیچھے بھی کاروباری مقاصد غالب تھے۔ ماضی میں اس مقصد کے لئے اردگرد کےممالک پر براہ راست قبضے کئے جاتے تھے۔ تمام جنگوں کے پیچھے ذرائع پیداوار، وسائل اور منڈیوں پر قبضوں کے بنیادی مقاصد دکھائی دیتے ہیں۔ جدید سرمایہ داری اپنے سامراجی مقاصد کیلئے اپنے طریقوں کو جدت دے چکی ہے۔ اب براہ راست قبضوں کی بجائے دیگر ذرائع کو ترجیح دی جاتی ہے۔ منڈی پر قبضے کیلئے عالمی سامراج نے عالمی بینک، آئی ایم ایف اور ورلڈ اکنامک فورم کی طرح کے کئی ادارے قائم کرلئے ہیں۔ جو کمپنیوں کے مفادات کے حصول کیلئے، حکمرانوں کے لئے پالیسیاں تیار کرتے ہیں۔ اگرچہ تکنیکی جدت کی بدولت محنت کے شدید استحصال اور ایجادات کی بنا پر ملٹی نیشنل کمپنیاں پیدواری لاگت پرکشش حد تک کم کرنے پر قادر ہوچکی ہیں اور ان کا مقابلہ مقامی صنعتیں اور ادارے نہیں کرسکتے۔ مگر بہت سی پالیسیاں، قوانین اور جبری ضوابط عالمی اداروں کے ذریعے ’مقامی‘ منڈیوں میں اس طرح سے وضع کرائے جاتے ہیں کہ ان ممالک کی صنعتیں، ادارے اور کاروبار دیوالیہ ہوجاتے ہیں۔ ”مقامی ممالک“ میں کامیابی سے چلنے والے ادارے، کارخانے اور خدمات کے شعبوں کو برباد کرنے کے لئے مقامی حکمران طبقے کو استعمال کیا جاتا ہے۔ اداروں کی بربادی کا سب سے بڑا ذریعہ وہاں ایسی انتظامیہ کومسلط کیا جانا ہے جو اس ادارے کو غیر منافع بخش بناتے بناتے تباہی کے دہانے پر پہنچادے۔ پاکستان ان پالیسیوں کی بہت کامیاب لیبارٹری ثابت ہوا ہے۔ یہاں پر عالمی اجارہ داریوں کیلئے منڈی کو منافع بخش بنانے اور مقامی صنعتوں، خدمات کے اداروں اور کارخانوں کو خوفناک طریقوں سے بربادی کے دہانے پر پہنچا کر پھر پروپیگنڈا کیا گیا کہ پبلک سیکٹر اس قابل ہی نہیں ہے کہ وہ متذکرہ اداروں کو چلاسکے، لہذا اسکی نجکاری کی جائے یا اسکو مکمل بند کر دیاجائے۔ ہر ادارہ جب منافع سے خسارے تک پہنچتا ہے تو پھر اس پر قرض بھی چڑھتے ہیں اور ہر سال قومی بجٹ کا ایک حصہ ان خساروں اور قرضہ جات کو ادا کرنے میں خرچ ہوتا ہے۔ چنانچہ اس پروپیگنڈے کو عوامی سطح پر ایک نظریاتی اور سیاسی حملے کیلئے استعمال کرنا آسان ہو جاتا ہے۔
پاکستان کے تمام خسارے والے ادارے ایک وقت میں بہترین پرفارمنس کے ساتھ منافع بخش تھے۔ پاکستان میں ضیائی آمریت میں پبلک سیکٹر کو تباہ کرنے کی کاوشوں کا آغاز ہوا مگروہ صرف این ایل سی بنا کر ریلوے کی تباہی کا اہتمام کرسکا۔ مگر 1988ء سے سیاسی پارٹیوں کو نجکاری کیلئے نظریاتی طور پر تیار کیا گیا، بے نظیر بھٹو عالمی سامراجیوں کا آسان ہدف بن کر تھیچرائیٹ سکول آف اکنامکس کی پالیساں کو لاگو کرنے کیلئے تیار کی گئیں اور اس طرح پاکستان میں نجکاری کا تعارف کرایا گیا۔ اگلے سالوں میں بے دردی سے اداروں کو اجاڑا گیا، برباد کیا گیا اور ان کو اونے پونے بیچا گیا۔ بہت سے (مسلم کمرشل بینک، پاک سعودی فرٹیلائیزر کمپنی میرپور ماتھیلو، لاڑکانہ شوگرملز، ٹھٹہ سیمنٹ فیکٹری وغیرہ) منافع بخش ادارے تھے، ان کوبھی نہیں بخشا گیا۔ اس تباہ کن پالیسیوں کے حقیقی ہدف بڑے ادارے رہے ہیں۔ انہی اداروں میں ایک ادارہ پاکستان سٹیل ملز تھا جس کو بہت بڑی منصوبہ بندی سے تباہی کے دہانے پر پہنچایا گیا حتیٰ کہ چند سال پہلے یہ اسٹیٹ آف دی آرٹ ادارہ مکمل بندش کا شکا رہوگیا۔ کسی بھی ملک کی صنعتی ترقی کیلئے سٹیل ملز کا کردار صنعتوں کی ماں کی طرح ہوتا ہے۔ صنعتوں کی تعمیر، صنعتی اور غیر صنعتی انفراسٹرکچر میں لوہے کے استعمال کا کلید ی حصہ ہوتا ہے۔ پاکستان کو اپنی ضروریات کیلئے 3.10 ارب ڈالرکا لوہا اور سٹیل درآمد کرنا پڑتا ہے۔ جب کہ اس کی اپنی سٹیل ملز پچھلے کئی سال سے بند کردی گئی ہے۔ یہ سٹیل ملز پاکستان کی ضروریات کا ایک بڑا حصہ پورا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے مگر اجاردہ داریوں کے مقامی ایجنٹوں کی سازشوں سے اپنی پوری صلاحیت پیداوار کے مطابق چل کر منافع دینے والی پاکستان سٹیل ملز کو بندش تک پہنچا دیا گیا ہے۔ یہ پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی منصوبہ تھا۔ معاشی سال 2008ء میں 3 ارب سے زائد منافع کمانے والا ادارہ 2008ء کے بعد ڈرامائی طور پر خسارے کا شکارہونے لگا۔ مشرف دور میں ادارے کو فروخت کرنے کی کوشش کی گئی لیکن حکومتی فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں سیکشن 3-184 کے تحت مقدمہ دائر کر دیاگیا۔ جس پر سپریم کورٹ کے 9 رکنی بنچ نے نجکاری کو کالعدم قرار دے دیا۔
پاکستان سٹیل آج مئی 2020 ء میں ایک مکمل غیر فعال ادارہ بن چکا ہے۔ پیداواری صلاحیت صفر ہوچکی ہے تاہم ٹاؤن شپ شعبہ، آفیسرمیس، پاور ڈسٹریبیوشن نٹ ورک، لا ڈپارٹمنٹ، ایڈمن اینڈ پرسنل، کارپوریٹ سیکٹر، انوائس اینڈ اکاونٹس اور سکیورٹی ڈیپارٹمنٹ جیسے شعبے ابھی فعال ہیں۔ ان شعبوں سے تعلق رکھنے والے تقریبا 1000 ملازمین آج بھی کورونا وبا کے باوجود روزانہ ڈیوٹی پر آرہے ہیں۔ مارچ 2020ء میں چیف جسٹس گلزار احمد نے زردارعباسی پروموشن کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کی عجیب صورتحال ہے’ملز مین‘ ادارے کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ حکومت ادارے کو چلانے میں خود قدم اٹھا سکتی ہے اور یہ اسے کرنا چاہئے۔ چیف جسٹس نے حکومت کو ادارے کے ملازمین کو فارغ کرنے کا حکم دیا۔ انہوں نے کہا کہ سٹیل ملز بہت سارے مسائل پیدا کر رہی ہے۔ لگتا ہے پاکستان کا سارا بجٹ اس میں چلا جائے گا، حکومت پاکستان سٹیل ملز کے ملازمین کو فارغ کرے۔ سیکرٹری صنعت و پیداوار معاملہ کو فوری طور پر دیکھیں۔
سٹیل ملز کے 6 ہزار ریٹائرڈ ملازمین تاحال اپنے جائز واجبات کے لئے دردر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ پاکستان سٹیل کے تربیتی مرکز میٹلرجیکل ٹریننگ سنٹر سے ہر سال4500 ملازمین کو تربیت دی جاتی تھی مگر 2014ء سے یہ مرکز غیر فعال ہو چکا ہے۔ سٹیل ملز کی بحالی کی صورت میں تربیت یافتہ ماہرین موجود نہیں ہونگے جس سے یہ ادارہ ایک بار پھر بحرانی کیفیت کا شکار ہو سکتا ہے۔ صرف آؤٹ سورس ڈیپارٹمنٹ کی بحالی سے ادارہ فعال نہیں ہوگا۔ آؤٹ سورس ڈیپارٹمنٹ میں ایجوکیشن، میڈیکل، ٹرانسپورٹ، اسٹیٹ اور منٹیننس ڈپارٹمنٹ ہیں۔ روسی وفد متعدد بار ادارے کا دورہ کر چکے ہیں اور اس طرف اشارہ کر چکے ہیں کہ وہ ادارے کی بحالی میں دلچسپی رکھتے ہیں لیکن حکومتی پالیسی مبہم اور غیر واضح ہے۔ حکومت روس صرف سرکاری سطح پر مذاکرات میں دلچسپی رکھتی ہے، جبکہ حکومت سٹیل ملز کو فروخت کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ ان دنوں سٹیل ملز کے حاضر ڈیوٹی ’ملز مین‘ کو فارغ کرنے پر زور و شور سے کام ہو رہا ہے۔
پاکستان سٹیل کاافتتاح وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے 30 جون 1973ء کو بہت ساری رکاوٹوں کے بعد کیا۔ اپنی افتتاحی تقریب سے خطاب میں کہا کہ ’میں نے پاکستان سٹیل ملز کی روس کے اشتراک سے بہت ساری اندرونی و بیرونی سازشوں کے بعد بنیاد ڈالی ہے اور پاکستان سٹیل کو بنانے کے مقاصد یہ ہیں کہ یہ ادارہ فولاد سازی کے ذریعے ملک کی انجینئرنگ انڈسٹری کو ترقی دے گا اورملک میں ”ہنرمند مزدور“کے ذریعے بیروزگاری کا خاتمہ کرے گا‘۔ یوں ملک میں پبلک سیکٹر میں چلنے والے بینکوں سے قرضہ لے کر پاکستان سٹیل کو تقریباً 25 ارب کی لاگت سے مکمل کیا گیا۔ پاکستان سٹیل ملز کراچی کی سب سے پرائم لوکیشن یعنی پورٹ قاسم انٹر نیشنل پورٹ، مین نیشنل ہائی وے اور مین نیشنل ریلوے لائن کے بیچ میں موجود ہے۔ بھٹو نے پاکستان سٹیل کیلئے 19 ہزار ایکٹر زمین سندھ حکومت، لوکل سندھ کے قدیمی گوٹھوں کے رھواسی جوکھیو، گبول او رکلمتی قبائل کے لوگوں سے حاصل کی اور پاکستان سٹیل 1980ء میں مکمل ہوکر پیداواری عمل میں داخل ہوگیا۔ پاکستان سٹیل ملز کا منصوبہ 11 لاکھ ٹن سالانہ پر شروع ہوا تھا اور ادارے کے پلانٹ میں یہ گنجائش موجود تھی کہ تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ ادارے کی پیداواری صلاحیت کو اسی پلانٹ نے 33 لاکھ سالانہ تک لے کر جانا تھا۔ جس کیلئے موجود پلانٹ پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کے بلاسٹ فرنس کے ساتھ دیگرفاؤنڈیشن تک فعال کی گئی تھیں۔ منصوبے کے اصل ڈیزائن کے مطابق پیداوار کو اگلے 5 سالوں میں بڑھناتھا لیکن شومئی قسمت کہ ایک طرف ملک کی فولادی ضرورت تقریباً 70 سے 75 لاکھ ٹن سالانہ تک پہنچ چکی ہے لیکن بدقسمتی سے فولاد سازی کا واحد ادارہ ملکی ضرورت کا 8 فیصد فولاد پیدا کرتا ہے۔ اس چلتے ہوئے ادارے کو بھی ملک دشمن حکمرانوں نے سازشوں کے ذریعے 10 جون 2015ء کو گیس روک کر مکمل طور پر پیداواری عمل روک دیا۔ پاکستان سٹیل ملز تب سے اب تک بند ہے۔ کسی نے ان مخفی ہاتھوں سے باز پرس نہیں کی جنہوں نے گیس بند کرکے سٹیل ملز کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکے تھے۔ پاکستان سٹیل کی تعمیر سے تکمیل اور پیداواری عمل تک دو قسم کے لوگوں نے مخالفت کی اول، ابتدا میں تو امریکی سامراج کے اس وقت کی طفیلی بنیاد پرست قوتوں، جماعت اسلامی، جمیعت علما اسلام نے یہ منفی پروپیگنڈا شروع کیا کہ روس کافر ہے اس کے اشتراک سے بننے والا ادارہ حرام ہے اور روس سٹیل ملز بنا کرملک کے گرم پانی کے چشموں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ دوم، امپورٹر مافیا جن کا کہنا تھا کہ یہ ادارہ سفید ہاتھی ہے اور ملک کی معیشت پر بوجھ بنے گا، مافیا کی مخالفت کی بنیادی وجہ تھی کہ یہ سٹیل کی مصنوعات کی آڑ میں کسٹم حکام اور ملک کے کرپٹ افسران سے ساز باز کرکے مختلف اور چیزیں اسمگلنگ کرواتے تھے۔ پاکستان سٹیل ملز کو’روسیوں‘نے ڈیویلپ کیا تو سب سے پہلے ضروری انفراسٹرکچر جس میں 165 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کا تھرمل پاور پلانٹ جس کی خوبی یہ ہے کہ جب ادارہ آپریشن میں ہوتا ہے تو اس کی اپنی بھاری گیسیں جو فرنیس، کوک اوون اور سٹیل پیدا کرنے والے ڈیپارٹمنٹ سے پیدا ہوتی ہیں ان گیسوں کو پاور پلانٹ پر لے جاکر ملک کی سب سے سستی بجلی کی پیداوار کی جاتی ہے اور ادارے کا پیداواری عمل 100 فیصد ہوتا تھا اور 4000 گھروں پر مشتمل ملازمین کی رہائشی کالونی سٹیل ٹاؤن اور 3000 سے زائد گھروں پر مشتمل گلشن حدید فیز 1 کی ضرورت پوری کرنے کے بعد بھی سالہا سال اربوں روپے کی بجلی کے ای ایس سی کو یہ ادارہ دیتا رہا ہے اور پاکستان سٹیل کو 110 ملین گیلن پانی کی ریزروائیر اور فلٹر پلانٹ ہے جس کی سٹیل لیس سٹیل کی 50 کلو میٹر کی پائپ لائن جو ضلع ٹھٹھہ کے کینجھر جھیل سے پاکستان سٹیل کے بلک واٹر سپلائی ڈپارٹمنٹ تک ہے جس سے اپنے ادارے کی رہائشی کالونی کے علاوہ پرائیویٹ ڈاون سٹریم انڈسٹری کو بھی فلٹر واٹر دیا جاتا ہے۔
اس کے ساتھ آکسیجن پلانٹ جو کہ تقریباً 15 سے20 ہزار کیوبک فٹ روزانہ آکسیجن پیدا کرتا رہا ہے ادارے کی ضروریات کے بعد ہزاروں کیوبک فٹ آکسیجن کراچی میں موجود پبلک سیکٹر کی ہسپتالوں کو سلنڈروں کے ذریعے مفت فراہم کرتا رہا ہے اور پاکستان سٹیل ملک کا واحد ادارہ ہے جو لیکوئڈ آکسیجن بھی تیار کرتا ہے۔ پاکستان سٹیل نے تقریباً 4000 ایکٹر زمین مکمل انفراسٹرکچر کے ساتھ نیشنل انڈسٹریل پارک کو دی ہے جس میں نجی شعبے کی سٹیل فیکٹریوں کے ساتھ ملک کا سب سے بڑا کار بنانے کا ادارہ پاک سوزوکی اور یاماہا موٹرز بھی ہیں۔ اس کے ساتھ روڈ اور دیگر انفراسٹرکچر کے ساتھ پاکستان سٹیل کا این ایل سی کے بعد بہت بڑا ٹرانسپورٹ ڈیپارٹمنٹ ہے جس میں تقریباً 850 گاڑیاں اور 200 کے لگ بھگ ہیوی لوڈنگ ڈمپر اور بلڈوزر ہیں اور ان کی رپیئرنگ کیلئے ورکشاپس بمعہ ماہر مکینک اور اپنا ریلوے ڈیپارٹمنٹ ہے جس میں 15 ریلوے انجن موجود ہیں۔ پاکستان سٹیل نے پورٹ قاسم پرخام مال کے باہر سے آنے والے جہازوں کیلئے ایک ’گودی (Jetty)‘ بھی موجود ہے۔ جس سے مختلف ملکوں سے آنے والے بحری جہاز ربغیر کسی ٹرانسپورٹ کے اپنی کنویئر بیلٹ کے ذریعے تقریباً 7 کلومیٹر سفر طے کرکے پاکستان سٹیل کے مختلف ڈپارٹمنٹ میں ان لوڈ ہوتے ہیں۔ پاکستان سٹیل پتھر خام مال سے سٹیل بننے کے عمل میں فضلہ اور بائی پراڈکٹ مختلف انڈسٹریوں کو بیچتا رہا ہے۔ جس سے ادارے نے اربوں روپے کمائے ہیں۔ اس قسم کے اور مختلف بائی پراڈکٹ پاکستان سٹیل کے علاوہ اس ملک میں کہیں بھی دستیاب نہیں ہیں۔ پاکستان سٹیل کی تعمیر سے تکمیل تک کے تمام اخراجات 25 ارب بشمول سود مختلف بینکوں کو نہ صرف ادا کئے بلکہ ٹیکس کی مد میں ملکی خزانے کو سینکڑوں اربوں کا فائدہ پہنچایا۔ پاکستان سٹیل کے میٹالرجیکل ٹریننگ سینٹر نے ابتدا سے مختلف شعبوں میں لاکھوں ہنر مند افراد تیار کئے جو نہ صرف پاکستان سٹیل بلکہ دنیا بھر کی سٹیل ملوں میں اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ 2008ء میں پاکستان سٹیل ملزکے ذمہ کسی قسم کا قرضہ یا ادائیگی نہیں تھی۔ اس کے باوجود تب پرویز مشرف نے 9000 مزدوروں کو برطرف کرکے”خریداروں“کیلئے پرکشش اور منافع بخش بنادیاتھا۔ اس ادارے کے ملازمین کیلئے چار ہزار گھروں پر مشتمل خوبصورت اور جدید انفراسٹرکچر کے ساتھ رہائشی علاقہ سٹیل ٹاؤن ہے جو ملازمین کو مالکانہ حقوق کے ساتھ سستی ترین رہائش فراہم کرتا ہے۔
پاکستان سٹیل ملز کی تباہی کی وجوہات
پاکستان سٹیل ملز نے اپنے جنم سے تکمیل تک اندرونی و بیرونی سازشوں کے باوجود خزانے میں اربوں روپے جمع کرائے جبکہ اس ادارے کی بنیادی دستاویز میں یہ تحریر ہے کہ یہ ادارہ اپنی پیداوار پر ملک کی انجینئرنگ انڈسٹری کو سبسڈائز کرے گا۔ اس کے باوجود ادارے نے منافع کمایا اور یونیورسٹیوں سے ڈگریاں حاصل کرنے والے لاکھوں نوجوان اور ہنر مند بیروزگار افراد کو بالواسطہ اور بلاواسطہ روزگار فراہم کیا اور کبھی خسارے میں نہیں گیا اس ادارے میں امپورٹر مافیا نے وزارت پیداوار اور فنانس کی بیوروکریسی کے ساتھ مل کر ایک پلاننگ کے تحت انتہائی کرپٹ، نا اہل اورسٹیل ٹیکنالوجی سے نابالغ بورڈ آف ڈائریکٹر، چیف ایگزیکٹو، مختلف قسم کے ڈائریکٹر اور جنرل مینیجر بھیجے گئے جنہوں نے مختلف وقتوں میں سیاسی حکومتوں کے ساتھ مل کر ادارے کی لوٹ مار کی یہاں تک کہ پرائم کوالٹی مصنوعات تیار کرکے کاغذوں میں اسکریپ دکھا کر اونے پونے بیچ دیا گیا۔ ادارے کی تباہی کی ایک اور وجہ مختلف سیاسی اور فوجی حکمرانوں کی پاکستان سٹیل سے دشمنی یہ تھی کہ اس کے توسیع کے منصوبے پر عمل نہ کرنے دیا گیا۔ اگراس عمل کو مکمل کیا جاتا تو موجودہ مین پلانٹ اور اسی مین پاور سے ادارے کی پیداواری صلاحیت کو 30 لاکھ ٹن تک پہنچایا جا سکتا تھا جس سے پیداواری لاگت بھی بہت کم ہو جاتی۔
ایک اور وجہ جس کو امپوٹر مافیا مشرف دور میں لاگو کرانے میں کامیاب ہوگیا وہ ایس آر اووز ہیں جو مختلف وقتوں میں جاری ہوئے جن کے ذریعے سٹیل کی مصنوعات کی امپورٹ پر کسٹم ڈیوٹی کو 17 فیصد سے کم کرکے 10 فیصد پر لایا گیا اور امپوٹر کیلئے ادارے کے سی ای او سےاین او سی کی شرط ختم کردی گئی۔ اس سے چین کی زائد پیداوار ہونے اور اوپن مارکیٹ کی وجہ سے پاکستان سٹیل کی سیل پالیسی بہت متاثر ہوئی اور ڈیلرز نے ادارے کی مصنوعات خریدنے سے انکار کر دیا۔ 2008ء سے 2012ء تک کی تیار پیداوار سٹیل یارڈ میں گل سڑ رہی تھی جس کو اس وقت کی مینجمنٹ اور سی بی اے یونین اور ڈیلر مافیا کے گھٹ جوڑ سے مختلف وقتوں میں تیار شدہ 12 ارب کی مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کردی گئی۔ لیکن مارکیٹ میں فولادی مصنوعات سے بننے والی اشیا کے ریٹ بڑھا کر اس تباہی میں موجود ٹریڈ یونین قیادتیں، سی بی اے اور ان کی سیاسی پارٹیاں، جوکہ نظریاتی طور پر دیوالیہ ہوکر سرمایہ داری کاٹولہ بن چکی ہیں برابر کی شریک تھیں۔
اس وقت کراچی سٹیل ملز کی قیمتی زمین، گودی، رہائشی کالونی، سات کلومیٹر کا کنویئر بیلٹ، بنا ہوا سامان اور (2008ء کے مارکیٹ نرخوں کے مطابق)تقریباََ 22ارب روپے کا بکھرا ہوا لوہا موجود ہے، اسکے علاوہ سارا نفراسٹرکچر اورمختلف قسم کے پلانٹس لٹیرے سرمایہ داروں کی رالیں ٹپکارہے ہیں۔ غلط پالیسیوں اوروقت کے ساتھ ساتھ جس تکنیکی تبدیلی اور جدت کیلئے اس کو اپ گریڈ کرنے کی ضرورت تھی وہ نہ کرکے موجودہ سٹیل ملز کو جس طرح تباہ کیا گیاہے اس کو اب عہد حاضر سے مطابقت پیدا کرنے کیلئے ایک اندازے کے مطابق 100 ارب روپے کی سرمایہ کاری درکار ہے۔
یہ سرمایہ کاری موجودہ حکومت اور ریاست کی ترجیحات دیکھتے ہوئے بہت بڑی رقم ہے۔ حالانکہ اس سے بھی زیادہ رقم ہرسال سرکاری خزانے سے نجی شعبے میں چلنے والے انرجی اور شوگر سیکٹر میں پھینک دی جاتی ہے۔ ہر سال تخفیف غربت کے نام پر 140ارب روپے حقیقت میں ضائع کردیئے جاتے ہیں۔ اسی طرح بہت سے شعبہ جات میں مختص رقوم میں معمولی رد و بدل کرکے پاکستان سٹیل ملز کو جدید پیداواری یونٹ بنایا جاسکتاہے۔ پاکستان سٹیل ملز کو بحال کرکے، اس کو وسعت دے کر سالانہ 3.10ارب ڈالر امپورٹ بل کم کرسکتا ہے۔
پاکستان سٹیل ملز کو بحال کرکے چلانا صرف وہاں کام کرنے والے مزدوروں کی ہی ضرورت نہیں بلکہ یہ پاکستانی معیشت کے مفاد میں ہے، گویا یہ پاکستان میں سستا لوہا فراہم کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اس وقت نہ صرف پاکستان کے محنت کش طبقے کا بنیادی فریضہ ہے کہ وہ پاکستان سٹیل ملز اور ساتھ دیگر پبلک سیکٹرز کے اہم اداروں کوبچانے کیلئے جدوجہد کا آغاز کرے بلکہ اس اہم نظریاتی، سیاسی اور معاشی معاملے کو عام لوگوں تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ حکمران طبقے کا یک طرفہ پراپیگنڈا جس میں پبلک سیکٹر کوملکی معیشت کیلئے نقصان دہ ثابت کرنے کیلئے صبح شام نام نہاد”ماہرین“ ذرائع ابلاغ پر بیٹھ کر باشن دیتے پائے جاتے ہیں، کا تدارک کرنا ضروری ہے۔ پاکستان کے غریب عوام کو سستی اشیا اورسستی خدمات صرف پبلک سیکٹر ہی فراہم کرسکتا ہے، ان کا تحفظ، مزدوروں کا ہی نہیں عوام کا بھی فریضہ ہے۔ مگر اس تحریک کا آغاز پاکستان سٹیل ملز کے مزدوروں کو کرنا ہوگا، سابق ملازمین، متاثرین، کراچی بھر کے مزدوروں کی انجمنوں، ایسوسی ایشنز ”پاکستان سٹیل ملز بچاؤ“ مہم کا آغاز کرکے اس کو ملک بھر کے محنت کشوں کے اشتراک سے فتح یابی تک پہنچانا ہوگا۔