گہرے سمندروں میں تہہ آب رہ گئے

ڈاکٹر قیصرعباس روزنامہ جدوجہد کی مجلس ادارت کے رکن ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کے بعد پاکستان میں پی ٹی وی کے نیوزپروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا کے دور میں امریکہ آ ئے اور پی ایچ ڈی کی۔ کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کرچکے ہیں۔ آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ایمبری ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔
گہرے سمندروں میں تہہ آب رہ گئے
”اِفتی نے امریکہ میں اپنے قیام کے دوران تخلیقی سطح پر بھی فکروبیاں کے کئی تجربے کئے۔ ناول، افسانہ، انگریزی نظم اور دیگر اصناف کو بڑی خوبی سے برتااگرچہ اردو غزل، جو افتی کا خاصہ ہے اس کی مہم جو فطرت کی وجہ سے کسی حد تک نظر انداز ہوئی۔“
’چادر اور چار دیواری‘ پاکستان کے بد ترین آمر جنرل ضیا الحق کی بدنام زمانہ پالیسیوں کا جزو تھی جس کا مقصد ملک کی نصف آبادی کو مردوں کے زیر نگیں رکھنا تھا۔
عشرت آفرین اور ان جیسی دوسری شاعرات نے عورت کے دکھوں کو علمی اور دانشورانہ بحث کا حصہ بنا کرسماج میں نسائی حقو ق کا شعور بیدار کرنے میں اپنا کردار بخوبی نبھا یاہے۔ یہی شعور آنے والے دنوں میں صنفی مساوات کے حصول کی منزل بھی بن سکتا ہے کہ وہ مستقبل سے ناامید نہیں
آپ بے وجہ پریشان سی کیوں ہیں مادام
زمانے کی پھٹکار سرمایہ ان کا
پاکستان کی سیاسی تاریخ دیکھیں تو اندازہ ہو گا کہ عام طور پر پاکستان کے ترقی پسند شاعر اور لکھاری سیاستدانوں، جرنیلوں اور نظریہ دانوں سے زیادہ بڑے وژنری ثابت ہوئے۔ جالب نے جو بات مشرقی پاکستان بابت کہی، اب لوگ بلوچستان کے حوالے سے دہرا رہے ہیں۔ تاریخ سے سبق نہ سیکھو تو تاریخ لوٹ کر واپس آتی ہے۔
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
خاک ایسے جینے پر