جینے کا حق سامراج نے چھین لیا

جینے کا حق سامراج نے چھین لیا
پھر پھریرے بن کے میرے تن بدن کی دھجیاں
حجاب بہ چہرہ، خاموش چیخیں
شام کے پیچ و خم ستاروں سے
کس سے ڈرتے ہو کہ سب لوگ تمہاری ہی طرح
اے نظام کہن کے فرزندو
دل میں آگ لیے لہروں کی تڑپ رکھتا ہوں
اک حسیں گاؤں تھا کنار آب
بڑوں کا راج تو صدیوں سے ہے زمانے میں
جب تک چند لٹیرے اس دھرتی کو گھیرے ہیں