21 فروری 2024 کو عظیم انقلابی کامریڈ لال خان کی چوتھی برسی ہے۔جسمانی طور پر ہم سے جدا ہونے کے باجود کامریڈ لال خان اپنے نظریات کی صورت میں آج بھی زندہ ہیں۔دنیا کی اور بالخصوص پاکستانی کی موجودہ سیاسی، معاشی، معاشرتی،ثقافتی اور اخلاقی صورتحال کو سمجھنے کے لیے لال خان کا تجزیہ اور تناظر آج بھی حکمران طبقے کے دانشوروں سے ہزاروں گنا زیادہ رہنمائی فراہم کرتا ہے جو لاکھوں رویے تنخواہ لیتے ہیں اور زندہ ہوتے ہوئے بھی سماج کو سائنسی بنیادوں پر دیکھنے اور سمجھنے سے قاصر ہیں۔لال خان کی تقریریں سن کر اور تحریریں پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ ابھی بھی زندہ ہیں اور اس کیفیت کا تجزیہ کر رہے ہیں۔پاکستان میں حکمران طبقے کی لڑائی کھل کر منظر عام پر آ چکی ہے۔یہ لڑائی نظریات کی بنیاد پر نہیں ہے بلکہ مختلف سامراجی ممالک کے نمائندہ دھڑوں کے درمیان دولت اور طاقت کے حصول کی لڑائی ہے۔یہ کالےدھن پر پلنے والی مافیا کی سیاسی قتدار میں حصہ داری کی لڑائی ہے۔
تاریخ
لال خان: افکار تیرے ہونے کی گواہی دینگے!
سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کی ہر غلاظت کا خاتمے اورایک حقیقی انسانی معاشرے کے قیام کے ذریعے ہی ’ڈاکٹر لال خان‘ کی لازوال جدوجہد کو حقیقی خراج پیش کیا سکتا ہے۔
گرمسیری گلاگ
انڈونیشیا کے جزیرہ بورو پر مقید ایک قیدی آٹھ سال تک ہر رات ظلم، بیماری اور دبے پاؤں آنے والی مخبوط الحواسی سے لڑنے کے لئے اپنے ساتھ قید سیاسی مجرموں کو قصے کہانیاں سناتا۔ یوں ان کے دل میں امید کی شمع روشن رہتی۔ اس کی باتیں سنتے سنتے قیدی لمحہ بھر کو بھول جاتے کہ وہ کہاں ہیں اور کس نے یہ طویل مصیبت ان کے سرمونڈھ دی ہے۔ یہ قصہ گو انڈونیشین بائیں بازو کا معروف دانشور اور شاندار لکھاری پروموئدا آنتا توئر تھا۔ 1965ء میں جکارتہ اندر ہونے والی بغاوت کے بعد توئر نے جزیرہ بورو کے اس جہنم میں بارہ سال گزارے-97 اس جہنم کو آپ سربیائی گلاگ کا خط استوائی نعم البدل قرار دے سکتے ہیں۔ تین ہزار سے زائد راتیں پرام نے یوں کاٹیں کہ وہ اپنے سمیت تمام قیدیوں کو ایک ایسی دنیا بارے سوچنے پر مجبور کرتا جہاں ادب بے درد ہو کر تاریخ سے گھل مل جاتا ہے۔
محفوظ شدہ جزیرہ
بالی ایک لمبے عرصے سے ہندومت کے اثر میں تھا۔ اس کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ آج بھی ہندومت کے زیرِ اثر ہے: مجمع الجزائر میں قرآن کی کشش سے متاثر نہ ہونے والا واحد جزیرہ اور ہاں وہ واحد جزیرہ جہاں ہندوؤں کی غالب اکثریت ہے۔ صدیوں سے بالی جائے پناہ اور ایک قلعے کی صورت اختیار کر چکا تھا۔ قسطنطنیہ پر عثمانی قبضے کے کچھ ہی عرصہ بعد جوگ جکارتہ میں قائم ہندوسلطنت کا خاتمہ ہو گیا تو شاہی خاندان اپنے دربار او ر عملے، برہمن پنڈتوں اور علماء، موسیقاروں اور رقاصوں، شاعروں اور گلوکاروں سمیت بالی فرار ہوگیا۔ ذات پات کے شکار اس جزیرے پر نئے لوگوں کی آمد سے برہمنوں کی تعداد میں اور اضافہ ہوگیا۔ بالی والوں کے بارے میں جو عام تاثر پایا جاتا تھا اس کے برعکس وہ خاصے جفاکش تھے، انہیں مجمع الجزائر کے گو رکھے کہنا مناسب ہوگا۔ جاوا میں بالی سے آئے ہوئے آباد کاروں نے اسلام قبول کیا ہو تو کیا ہو، یہ جزیرہ البتہ اسلام سے بچا رہا۔ کیوں؟ یہ کہنا زیادہ درست دکھائی نہیں دیتا کہ اس جزیرے کی ثقافت اس قدر ترقی کر چکی تھی کہ یہاں کائنات کی کوئی اور تشریح قابل قبول ہی نہ رہی تھی۔
شاہین بمقابلہ ہیر رانجھا: سرگودہا اور بیا نئے کی جنگ
ایسا نہیں کہ سرگودہا میں ائر فورس بیس کے علاوہ کچھ نہیں۔ اس شہر نے کئی بڑے کھلاڑی،شاعر ور ادیب پیدا کئے۔ گو کھلاڑیوں میں اب زیادہ بڑا نام سابق ٹیسٹ کرکٹر پروفیسر حفیظ کو سمجھا جاتاہے لیکن جس ہاکی ٹیم نے آخری بار پاکستان کے لئے اولمپک گولڈ جیتا،اس اسکواڈ میں ریزرو فل بیک زاہد کا تعلق سرگودہا سے تھا۔
نامہ بنام نوجوان مسلم
یاد ہے آپ نومبر 2001ء میں ایک بڑے جنگ مخالف جلسے کے بعد (میرا خیال ہے گلاسگو میں) میرے پاس آئے اور آپ کا سوال تھا آیا کہ میں خدا پر ایمان رکھتا ہوں؟ میں نہ تو آپ کو لگنے والا وہ دھچکا بھولا ہوں جو میرے ‘نہ’ کہنے پر آپ کو لگا تھا نہ ہی آپ کے دوست کا جملہ (ہمارے والدین نے ہمیں آپ کے بارے میں خبردار کیا تھا) اور نہ ہی غصے سے بھرے سوالات کی بوچھاڑ جو آپ دونوں نے مجھ پر کی۔ ان سوالوں نے مجھے سوچنے پر مجبور کیا اور یہ چھوٹی سی کتاب نہ صرف آپ بلکہ آپ ایسے دیگر تمام لوگوں کے سوالوں کا جواب ہے جو یورپ اور شمالی امریکہ میں رہتے ہیں۔ اس میں جابجا تاریخ سے مڈبھیڑ ہوتی ہے تاہم میرے خیال میں یہ کتاب کافی ثابت ہو گی۔ جب آپ سے بات ہوئی تھی تو میں نے آپ سے کہا تھا کہ مذہب اور مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے والوں پر میں لوگوں کے سامنے تنقید کر کے زمانہ شناسی کا مظاہرہ نہیں کرتا ہوں۔ استحصال اور جوڑ توڑ کرنے والوں نے مذہب کے نام پر پارسا بن کر ہمیشہ اپنے خود غرضانہ مقاصد کو پورا کیا ہے۔ سچ ہے کہ بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی۔ یقینا دنیا کے مختلف حصوں میں ایسے مخلص مذہبی لوگ موجود ہیں جنہوں نے غریبوں کے حقوق کے لیے سچ مچ لڑائی لڑی مگر عموماً ان کا منظم مذہب سے تضاد پیدا ہو گیا۔ کیتھولک چرچ نے ایسے مزدور کسان پادریوں کو نشانہ بنایا جنہوں نے جبر کے خلاف مزاحمت کی۔ ایرانی آیت الاؤں نے سماجی ترقی پسندی کی تبلیغ کرنے والے مسلمانوں کے ساتھ آہنی ہاتھ سے نپٹا۔
امریکی سامراج کی تاریخ کا خلاصہ
متحارب نظریات اور سماجی نظاموں سے بھری دنیا میں کسی ایک یا دونوں کے متناسب عیوب پر مباحثہ معمول کی بات تھی۔ سرمایہ داری ، سوشلزم، کمیونزم، سامراج مخالفت اور کمیونزم مخالفت یا تو کسی تسلیم شدہ حقیقت کی مخالفت کا نام تھا یا موافقت کا۔ اس مبارزے کا عالمی سیاست پر بھی غلبہ تھا اور دانشورانہ مباحث پر بھی، نتیجہ یہ نکلا کہ آج جس روٹین ڈس انفارمیشن یا عدم معلومات کا غلبہ ہے اسے کسی ادارے کی شکل دینا ممکن نہیں رہا: جتنا کم آپ کی معلومات اتنا آسان گڑبڑ کرنا۔ ایک نظرئیے کی جیت اور دوسرے کے مکمل انہدام کے باعث بحث اور اختلاف کی گنجائش ڈرامائی طور پر کم ہو کر رہ گئی ہے۔
منٹو اور امریکہ
منٹو کا شمار ان میں ہوتاہے جنہوں نے بہت پہلے، 1950 کی دہائی کے شروع میں ہی، امریکہ کے بہت قریب ہونے کے نقصانات کی نشاندہی کر دی تھی۔ جی ہاں، یہ وہی سعادت حسن منٹو ہیں جن کانام اُردو دُنیامیں سب سے زیادہ مقبول ادب تخلیق کرنے والوں میں شمار ہوتاہے۔ محض 42سال 8 ماہ اور4 دن کی زندگی میں اُنہوں نے ادب کا انتہائی دلچسپ اور سبق آموز خزانہ تخلیق کیا۔ یوں تو اُنہیں عظیم افسانہ نگار کے طور پر یاد کیاجاتاہے مگر اس مضمون میں اُن کی اُن تحریروں پر بات کی جائے گی جو اُنہوں نے”چچاسام کے نام خط“کی شکل میں لکھی تھیں۔ دسمبر 1951 سے اپریل 1954 کے عرصے میں اُنہوں نے”چچاسام“کو کُل 9 خطوط لکھے۔ یہ خطوط، جن میں اُنہوں نے“چچاسام”کو امریکہ کے لئے ایک عُرفی نام کے طور پر استعمال کیا، نہ صرف طنزومزاح کا ایک خوبصورت نمونہ ہیں بلکہ”بھتیجا“پاکستان اور”چچا“امریکہ کے درمیان تعلقات کے بارے میں ایک اہم سیاسی دستاویز بھی ہیں۔
منٹو ترقی پسند ہے…یہ کیا بے ہودگی ہے؟
”سعادت حسن منٹوترقی پسند انسان ہے…یہ کیا بے ہودگی ہے، سعادت حسن منٹو انسان ہے اور ہر انسان کو ترقی پسند ہونا چاہئے، ترقی پسند کہہ کر لوگ میری صفت بیان نہیں کرتے بلکہ اپنی برائی کا ثبوت دیتے ہیں“۔
برکت اللہ: لینن سے متاثر مولانا جو عمر بھر انگریز سامراج سے لڑتے رہے
وہ 8سال تک لندن میں ہی رہے اور جلد ہی وہ ایک سکالر اور سیاسی کارکن کے طورپر مشہور ہو گئے۔ انہیں یہ شہرت زیادہ تر برطانیہ کی ترکی کے حوالے سے پالیسیوں پر تنقید کی وجہ سے حاصل ہوئی تھی۔ وہ اورئینٹل یونیورسٹی آف لیورپول میں عربی کے پروفیسر کے طور پر خدمات سرانجام دیتے رہے۔ اس کے بعد امریکہ منتقل ہو گئے اور 6سال تک بطور استاد وہاں خدمات سرانجام دیتے رہے۔ امریکہ میں بھی انہوں نے ہندوستانی کمیونٹیزاور امریکی عوام سے رابطے جاری رکھے اور برطانوی پالیسیوں کے حوالے سے اپنا موقف دیتے رہے۔