تاریخ

[molongui_author_box]

احمد سلیم: ’ایک لائبریری چھوڑ گئے، ایک ساتھ لے گئے‘

لاہور(جدوجہد رپورٹ) پنجابی اور اردو کے معروف مصنف، محقق، شاعر، مترجم اور انسانی حقوق کے کارکن احمد سلیم پا گئے ہیں۔ ان کی عمر78برس تھی اور وہ کچھ عرصہ سے جگر کے عارضے میں مبتلا تھے، اسلام آباد میں انہوں نے پیر کے روز آخری سانس لی۔ احمد سلیم کی […]

بنجر دانشوارانہ منظر نامے میں ڈاکٹر قیصر عباس جوہر نایاب تھے

میری طرف سے ان کو بھیجی گئی آخری ای میل انتہائی مایوس کن تھی۔ وہ ایسی حالت میں لکھی گئی تھی کہ جہاں بہت سی آن لائن نفرت انگیز مہمات چل رہی تھیں۔ سرائیکی لوگوں اور سرائیکی زبان کے بارے میں بدسلوکی اور گالیوں پر مبنی مہم تھی۔ سرائیکی زبان کو دقیانوسی تصور، غیر انسانی قرار دیا جا رہا تھا۔ سرائیکیوں کو ڈاکو، چور، باہر کے لٹیرے، مجرم، جاہل اور ثقافتی طور پر غیر مہذب اور ایسے لوگ بنا کر پیش کیا جا رہا تھا، جو معاشرے کیلئے خطرہ ہیں۔میں سرائیکیوں کے خلاف بہت زیادہ تعصب، نفرت اور ثقافتی نسل پرستی کی وجہ سے میں مایوس تھا، لیکن ڈاکٹر قیصر عباس نے مجھے امید دلائی۔

برصغیر میں سوشلزم کی بنیاد رکھنے والے مسلمان: امہ متحد کرنے نکلے، سوشلسٹ بن کر لوٹے

امت مسلمہ کے اتحاد اور فتح کی جستجو میں افغانستان سے عرب، ترکی اور یورپ تک کا سفر کرنے والے مسلم علماء اور نوجوان بالشویک انقلاب سے متاثر ہو کر برصغیر کے پہلے مسلم سوشلسٹ بن کر لوٹے۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی بنیاد رکھنے سمیت ابتدائی سرگرمیوں میں ان مسلم نوجوانوں کا اہم کردار رہا ہے۔
سنٹرل ایشیا اور انڈونیشیا کے برعکس برصغیر کے پہلے مسلمان سوشلسٹوں کا تعلق دیوبند مکتبہ فکر سے تھا۔ یہ ایسے لوگ سمجھے جاتے تھے جو ہمیشہ اسلام کا ممکنہ خطرات سے دفاع کرنے اور خلافت کے قیام کی جدوجہد میں مصروف رہے۔ یہ برصغیر پر برطانوی قبضے کے خلاف جدوجہد کیلئے بھی خلافت عثمانیہ، افغانستان سمیت دیگر مسلم علاقوں کی جانب سے مدد کے متلاشی بھی رہے۔ سنٹرل ایشیا میں البتہ صوفی نقشبندی سلسلوں سے تعلق رکھنے والے مسلمان اور انڈونیشیا میں صوفی شیخ سلسلے سے تعلق رکھنے والے مسلمان سوشلزم کیلئے جدوجہد کا زیادہ حصہ بنے۔

احمقوں کی سامراج مخالفت

قبل از اسلام بت پرست عہد کے نئے سال کے موقع پر ہونے والا جشن نو روز پچھلے دو سال سے منایا جا رہا ہے اور اس موقع پر نوجوان مرد اور بے نقاب نوجوان خواتین مذہبی پولیس کو اس کے کالے کارناموں پر لعن طعن کرتے ہیں۔ یہ محض آغاز ہے لیکن اس سے پتہ چلتا ہے کہ لوگ تجربے سے سیکھتے ہیں۔ تجربے امریکی بموں کی نسبت کہیں بہتر استاد ہیں۔ وجہ مختصراً یہ ہے کہ حکومت کے پاس کوئی بہانہ نہیں اور نئی نسل کسی جھوٹ پر یقین کرنے کو تیار نہیں۔ اکثریت ملاؤں اور ان کے مذہب سے غیر معمولی نفرت کرتی ہے۔

حاشیہ ہائے بابِ شکست

1948ء کی نکبۃ کے ہاتھوں فلسطینی قیادت سے محروم ہوگئے اور بکھر کر رہ گئے۔ ان کی زندگیاں صحیح معنوں میں عرب ریاستوں کی کڑی نگرانی میں آگئیں۔ فلسطین محاذ آزادی (پی ایل او) کے قیام پر اتفاق رائے کے لئے عرب لیگ نے پندرہ سال لگا دیئے لیکن پی ایل او کا مطلب یہ تھا کہ فلسطینی دستے بنائے جائیں جو شام، عراق، اردن اور مصر کی فوجوں اندر مد غم ہو جائیں۔ عرب دارالحکومتوں اندر 1956ء کے واقعات اور ان کے نتیجے میں جنم لینے والی پولرائزیشن سے متاثر ہوکر ریڈیکل نظریات رکھنے والی نئی فلسطینی نسل اندر ایک نیا شعور جنم لے رہا تھا۔ یہ ایسے نوجوان مرد و خواتین تھے جو 1948 میں ابھی اپنے پیروں چلنا سیکھ رہے تھے او ر اس دور کی نسلی صفائی کا براہ راست تجربہ انہیں بھول چکا تھا۔ یہ وہ نسل تھی جو بربادیوں کی داستان سنتے ہوئے پلی بڑھی تھی اور انکی یاداشت مشترکہ تھی جو شکست کے براہ راست تجربے کی نسبت زیادہ کار گر ہوتی ہے۔

فیض اور فلسطین

”محترم شاعر اور برادر عزیز فیض احمد فیض! آپ کی شکل میں فلسطینی لوگوں کو ایک ایسا شاعر نصیب ہوا ہے جو ترقی پسند ہے، عالمی شاعر ہے، عالمی امن کے لئے ان تھک جدوجہد کرنے والا کارکن ہے اور آزادی و خوشحالی کے لئے جدوجہد کرنے والے مظلوم عوام کا ساتھی ہے۔ ہم عرب فلسطینیوں کو آپ کی دوستی پر فخر ہے۔ آپ کے گہرے شعور، اہل فلسطین اور ان کی جائز جدوجہد میں آپ کی معاونت کرنے پر ہمیں آپ پر فخر ہے۔ اہل فلسطین خاص کر فلسطینی بچوں اور انقلابیوں کے لئے آپ نے جو دلسوز اور بہترین نظمیں کہیں وہ ہمیشہ برادرانہ اور سچی محبت کی مثال بن کر ہمیشہ زندہ رہیں گی“۔

جب طوفان جھوم کے اٹھے!

لیکن آج بالشویک انقلاب کے 102 سال بعد سوال یہ ہے کہ کیا سرمایہ داری انسانیت کے مسائل حل کر رہی ہے یا انہیں زیادہ گھمبیراور پیچیدہ بنا رہی ہے؟ امارت اور غربت کی خلیج اتنی وسیع پہلے کبھی نہ تھی جتنی آج ہے۔ جہاں سات افراد کے پاس دنیا کی آدھی آبادی سے زائد دولت ہے۔ ایک طرف غربت، بیروزگاری اور محرومی کی نہ ختم ہونے والی ذلتیں ہیں‘ دوسری طرف ماحولیات کی تباہی ساری نسل انسان کے وجود کے لئے ہی خطرہ بن رہی ہے۔ پچھلے سو سال میں بہت کچھ بدل گیا ہو گا لیکن طبقاتی تضاد اور جبر و استحصال کم نہیں بلکہ شدید ہی ہوئے ہیں۔ جس وقت یہ سطور تحریر کی جا رہی ہیں‘ لبنان، ایکواڈور، چلی، فرانس، سپین اور عراق سمیت دنیا کے بیشتر ممالک بڑے پیمانے کے احتجاجی مظاہروں اور عوامی تحریکوں کی زد میں ہیں۔

گلگت بلتستان کی جنگ آزادی میں برٹش ایجنٹ میجر براؤن کا کردار

کوہ ہمالیہ، کوہ ہندوکش اور کوہ قراقرم کے دامن میں واقع گلگت بلتستان کا یہ پہاڈی علاقہ نہ صرف اپنی قدرتی خوبصورتی، بلند بالا پہاڑی چوٹیوں اور معدنیات کی وجہ سے اہمیت کا حامل ہے بلکہ جیو اسٹرٹیجک لوکیشن کی وجہ سے ایشیاء کا مرکز کہلاتا ہے۔
ماضی میں یہ خطہ عالمی طاقتوں کے درمیان گریٹ گیم کا مرکز رہا ہے.John Keay اپنی مشہور کتاب "دی گلگت گیم” میں لکھتے ہیں کہ ” گلگت ریجن کی اہم اسٹریٹیجک لوکیشن کی وجہ سے ہی عالمی طاقتوں نے گریٹ گیم کو گلگت بلتستان کی پہاڑی وادیوں میں لائیں، جہاں انڈیا ،چین، روس، افغانستان اور پاکستان کی طویل سرحدیں ملتی ہیں اور اس خطے کی خصوصیات اس طرح بیان کی گئی ہیں کہ اسے ریڑھ کی ہڈی،محور ، مرکز، تاج کا گھونسلا، فلکرم، اور چائنہ کے لکھاریوں نے اسے ایشیاء کا محور قرار دیا ہے۔“

حرف پائیدار: ’امید سحر کی بات‘

میڈیا سکالر کے طور پر ڈاکٹر قیصر کی اس موضوع پر کتنی گہری گرفت ہے، اس کا اندازہ تو مجھے انہی دنوں ہو گیا تھا جن دنوں میں اپنے مقالے کے سلسلے میں ان سے رہنمائی لیتا تھا لیکن مجھے اس کا حقیقی ادراک اس وقت ہوا جب میں نے ان کے ساتھ مل کر پاکستانی میڈیا پر ایک کتاب مدون کرنا شروع کی۔اکیڈیمک مطبوعات شائع کرنے والے معروف عالمی ادارے ’روٹلیج‘ کے زیر اہتمام، ’فرام ٹیلی ویژن ٹو ٹیرر ازم: ڈائنامکس آف میڈیا، سٹیٹ اینڈ سوسائٹی‘ کے عنوان سے شائع ہونے والی اس کتاب کی تدوین کے دوران مجھے ڈاکٹر قیصر سے بے شمار علمی باتیں سیکھنے کا موقع تو ملا ہی لیکن جس چیز نے مجھے متاثر کیا وہ تھا ڈاکٹر قیصر کا رویہ اور خندہ پیشانی۔