تاریخ

بھٹو کا خون کبھی ہضم ہو گا؟

ٹونی عثمان

ذوالفقار علی بُھٹو کی 45ویں برسی ایسے وقت میں آئی ہے،جب حال ہی میں سپریم کورٹ نے فیصلہ سُنایا ہے کہ بُھٹو کو ان کے خلاف مقدمہ قتل میں فیئر ٹرائل کا حق نہیں دیا گیا تھا۔ ویسے تو یہ سب ہمیشہ سے جانتے تھے مگر اتنے اہم ادارے کی طرف سے ایسا فیصلہ سُنانا خوش آئند اور امید افزاء ہے۔

03 ستمبر 1977 کو بُھٹو کو پہلی دفعہ قتل کی سازش کے مقدمے میں گرفتار کیاگیا،لیکن 10 روز بعدلاہور ہائی کورٹ کے جسٹس خواجہ محمد احمد صمدانی نے ثبوتوں کو متضاد اور نامکمل قرار دیتے ہوئے بُھٹو کو ضمانت پر رہا کر دیا۔ چند روز بعد 17 ستمبر کو اُنہیں اسی قتل کے مقدمے میں پھرگرفتار کر لیاگیا۔ اس بار گرفتاری مارشل لاء قوانین کے تحت کی گئی تاکہ ضمانت پر رہاہونا آسان نہ ہو۔ایک ماہ بعد نچلی عدالت کی بجائے ہائی کورٹ میں ٹرائل شروع ہوا اور یُوں بُھٹو کے لئے انصاف حاصل کرنے کے 3 مواقع میں سے ایک کو ختم کر دیاگیا۔

ہائیکورٹ کے جس 5 رُکنی بینچ نے بُھٹو کے ٹرائل کا آغاز کیا، اس بینچ میں بُھٹو کو ضمانت پر رہا کرنے والے جسٹس صمدانی کو شامل نہیں کیاگیاتھا۔ بینچ کی قیادت کرنے والے جسٹس مولوی مشتاق بُھٹو سے شدید نفرت کرتے تھے کیونکہ بُھٹوحکومت نے انہیں انکی خواہش کے مطابق ہائی کورٹ کا چیف جسٹس مقرر نہیں کیا تھا۔ جنرل ضیاء نے مکار لوُمڑی کی طرح اس ذاتی چپقلش کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے مولوی مُشتاق کو قائم مقام چیف جسٹس مقرر کردیا۔ ٹرائل کے شروع میں عام لوگوں اور میڈیا کو عدالتی کاروائی دیکھنے کی اجازت تھی مگر25 جنوری 1978 کو ٹرائل کو خفیہ قرار دیا گیا۔ بُھٹو نے ہائی کورٹ میں ایک بہت ہی تفصیلی تحریری بیان جمع کروایا۔ بعد ازاں یہ بیان کتاب کی شکل میں ”میرا پاکستان“کے نام سے شائع ہوا۔

ہائی کورٹ نے18 مارچ 1978 کو بُھٹو کو سزائے موت سنادی۔ بُھٹو نے سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی مگر کسی فریادی کی زبان استعمال نہ کی اور نہ ہی التجائیں کیں۔ اسی دوران انہیں کوٹ لکھپت جیل سے راولپنڈی جیل منتقل کر دیا گیا۔ سپریم کورٹ میں اپیل کے دوران انہیں ذاتی حیثیت میں عدالت سے خطاب کرنے کی اجازت مل گئی اور وہ 4 دنوں تک عدالت میں تقریر کرتے رہے۔ اس تقریر میں انہوں نے جیل میں ہونے والی بدسلوکیاں، برصغیر کے سیاسی مسائل، انتخابات منعقد کرانے کی اہمیت اور فوجی حکومت کی منافقت کے متعلق کُھل کر بات کی تھی۔

جنرل ضیاء کا خیال تھا کہ جب تک بُھٹو زندہ رہیں گے وہ اپنے حامیوں کو اُمیدیں دلاتیں رہیں گے اور فوجی حکومت کے لئے عدم استحکام کا باعث بنتے رہیں گے۔ لہٰذا سپریم کورٹ نے فوجی حکومت کی خواہش کے مطابق پھانسی کی سزا کو برقرار رکھا۔مقدمہ میں ناانصافیوں سمیت بُھٹو کے ساتھ جیل میں کیا گیا سلوک اور پھانسی سے پہلے کئے جانے والے تشدد کے متعلق مُختلف باتیں لکھی اور کہی جاچُکی ہیں۔ مگر ان پر غیر جانبدار اور پائیدار تحقیق کی ضرورت ہے،تاکہ تاریخ کے ریکارڈ کو درُست کیا جاسکے۔

راولپنڈی جیل کے اس وقت کے انچارج کرنل رفیع الدین،جنہیں بعد میں جنرل ضیاء نے ترقی دے کربیرون مُلک ملٹری اتاشی بنادیا تھا، کے مطابق حکومت کو خطرہ تھاکہ کوئی کمانڈو کاروائی کے ذریعے بُھٹو کو جیل سے نکال لے گا۔ انہوں نے 2007 میں جیو ٹی وی کے میزبان افتخار احمد کو بتایا کہ بُھٹوکی کوٹھڑی کے فرش کو دوبارہ بنا کر اتنا مضبوط کیا گیا کہ سرنگ نکالنے میں کافی مُشکل ہو، اس کے علاوہ چھت پر لوہے کی چادریں لگائی گئی تھیں۔ کرنل رفیع کی اس بات کو اس وقت کے اے آئی جی میاں شوکت محمود، جو بُھٹو کے لاہور جیل سے راولپنڈی جیل منتقلی کے سفر میں اُن کے ساتھ تھے،کی بات سے تقویت ملتی ہے۔ اُن کے مطابق یہ افواہیں تھیں کہ یاسر عرفات کے کمانڈوز بُھٹو کو جیل سے اغوا کرنے کی کوشش کرسکتے تھے۔ اس لئے جیل میں ہوائی حملے کے پیش نظر ضیاء حکومت نے جیل میں طیارہ شکن بندوقیں نصب کردی تھیں۔

کرنل رفیع، جو کتاب”بُھٹو کے آخری 323 دن“کے مصنف ہیں، کے مطابق کسی ہوائی جہاز کو جیل کے اوپر سے گُزرنے کی اجازت نہیں تھی۔اس لئے ایک بار سیکورٹی کے تحت پی آئی اے کی فلائٹ طیارہ شکن بندوقوں کے نشانے پر تھی۔

یاسر عرفات اور بُھٹو کے درمیان قربت کے متعلق سابق چیف آف آرمی سٹاف اسلم بیگ اپنی سوانح عمری“اقتدارکی مجبوریاں ”میں لکھتے ہیں کہ ”جنرل ضیاء نے مکہ میں مسجد الحرام میں بیٹھ کر شاہ خالد کی موجودگی میں یاسر عرفات سے وعدہ کیا تھا کہ وہ بُھٹو کو پھانسی نہیں دیں گے۔“

کرنل رفیع الدین کے مُطابق انہیں بُھٹو کے ساتھ اکیلے ملنے کی اجازت نہیں تھی اور پھانسی سے 9 دن پہلے انہیں حکم ملا کہ اب وہ بُھٹو کے ساتھ کسی قسم کی مُلاقات نہیں کر سکتے۔ شاید حکام کو شک تھاکہ بُھٹو اور کرنل کے درمیان کوئی کھچڑی پک سکتی ہے، حالانکہ کوٹھری میں خفیہ آلات نصب تھے اور تمام گفتگو خفیہ اداروں کے لوگ سُنتے تھے۔

بُھٹو کے لئے کھانا پکانے کی ذمہ داری ایک قیدی کی تھی۔ ہر10 دن بعد باورچی کا کام کرنے والے قیدی کو تبدیل کر دیا جاتا تھا تاکہ بُھٹو کے لئے اس کی زیادہ ہمدردیاں نہ پیدا ہو جائیں۔ 18 مہینے کی جیل کے دوران مُختلف اذیتوں کے ذریعے بُھٹو کو کمزور کرنے کی کئی کوششیں کی گئیں۔

سلمان تاثیر اپنی کتاب”بچپن سے تختہء دارتک“میں لکھتے ہیں: ”ایک وقت ایسابھی آیا کہ جناب بُھٹو جب ٹائلٹ میں جاتے تو اس وقت ایک گارڈ کو ان کے سامنے کھڑا کر دیا جاتا۔ اس اقدام سے بُھٹو نے اس قدر بے عزتی محسوس کی کہ اُنہوں نے کھانا پینا ہی بند کردیا۔“

پھر اس گارڈ کو ہٹا دیا گیا اور بُھٹو کو ایک پرائیویٹ ٹائلٹ مہیا کر دیاگیا تھا۔ قید تَنہائی میں بھی بُھٹو کی جرأت اور حس مزاح قائم رہی۔ سلمان تاثیر اس واقع کے متعلق لکھتے ہیں کہ جب جیل کی کوٹھری میں دانتوں کے ڈاکٹر ظفر نیازی اُن کے دانتوں کا مُعائنہ کررہے تھے اور ایک قیدی بتی ہاتھ میں پکڑ کر ساتھ کھڑا تھا،تو بُھٹو نے مذاق کرتے ہوئے کہاکہ ”اس کوٹھری میں تو تُم بھی میری طرح بدقسمت ہوگئے ہو، کیونکہ تُمہارے کلینک میں ایک خوبصورت لڑکی تُمہاری معاون ہوتی ہے لیکن یہاں یہ قیدی تُمہاری مدد کر رہاہے۔“

متعدد کتابوں سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ بُھٹو کو جیل میں کوئی بلیڈ یا ریزر نہیں دیاگیا تھا اور کہا یہ گیاتھا کہ حکام کو اندیشہ ہے کہ وہ اس ہتھیار سے خود کشی نہ کرلیں۔ اس لئے اُن کی داڑھی کافی بڑھ چُکی تھی۔ پھانسی کے روز آخری لمحوں میں انہوں نے جیل کے حکام سے کہا کہ وہ داڑھی صاف کرنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ مرنے کے وقت مُلاکی طرح نہیں دکھنا چاہتے۔

جیل دستی میں لکھے گئے قوانین کے مطابق صبح طلوع ہونے سے کُچھ وقت پہلے پھانسی دی جاتی ہے۔ تاہم بُھٹو کو رات کے 2 بج کر 4 منٹ پر پھانسی دی گئی۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ تھی کہ فوجی حکومت چاہتی تھی کہ عوام تک پھانسی کی خبر پہنچنے سے پہلے بُھٹو کو دفنا دیا گیا ہو۔ دوسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ کال کوٹھری میں کئے گئے تشدد کی وجہ سے بُھٹو کی حالت اتنی نازک ہو گئی ہو کہ انہیں رات کو پھانسی دینا ایک مجبوری بن گئی ہو۔

اس وقت کے اسلام آباد میں ڈیلی ٹیلی گراف لندن کے نمائندے نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھاکہ ”اس جُرم،جس کے لئے اُنہیں پھانسی دی جانی تھی، کا تحریری اعتراف لینے کے لئے ان پر تشدد کیا گیا۔ اور جب اُنہیں پھانسی کے تختے پر لے جایا گیا تو وہ پہلے ہی آدھے مُردہ تھے۔“ کُچھ ایسی ہی بات لندن کے ڈیلی ایکسپریس کی اُس تحقیقاتی رپورٹ میں ہے جو پھانسی کے ڈیڈھ مہینہ بعد شائع ہوئی تھی۔ اس میں لکھاگیاتھاکہ”جنرل ضیاء نے فوجی افسران سے کہا کہ وہ بُھٹو سے ہاتھ سے لکھا ہوا اعتراف لیں مگر بُھٹو نے مسلسل انکار کیا اور اس لئے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔“

معروف صحافی حامد میر بتاتے ہیں کہ جن لوگوں نے نوڈیرو میں بُھٹو کی نماز جنازہ میں شرکت کی ان کے مطابق بُھٹو کے گلے پر پھندے کے نشان نہیں تھے۔ جیل دستی کے مطابق پھانسی پانے والے کے رشتہ داروں کو اطلاع دی جاتی ہے کہ وہ اس سے جیل میں آخری مُلاقات کر لیں۔ بُھٹو کی اہلیہ نُصرت اور اُنکی بڑی بیٹی بے نظیر، جو اس وقت سہالہ ریسٹ ہاؤس میں احتیاطی نظر بندی کے قانون کے تحت قید تھیں، سے بُھٹو کی آخری مُلاقات کروائی گئی۔ پھر سہالہ ریسٹ ہاؤس کو باہر کی دُنیا سے کاٹ دیاگیا۔ پولیس نے سارے علاقے کو گھیرے میں لے لیا تھا اور ٹیلی فون کا رابطہ پہلے ہی منقطع کیا جا چکاتھا۔ بُھٹو کے باقی رشتہ داروں کو اُن سے ملنے نہیں دیاگیا،حالانکہ اُن کے کئی رشتہ دار اُس وقت راولپنڈی میں موجود تھے۔ شاید فوجی حکومت بُھٹو کی پھانسی کی خبر کو پوشیدہ رکھنا چاہتی تھی۔

جنرل ضیاء مرے ہوئے بُھٹو سے بھی خوف زدہ تھے۔اس لئے اُنہوں نے راولپنڈی جیل کو مسمار کرنے کا حکم دیا تاکہ بُھٹو کی ٹھوس یاد دہانیاں یعنی موت کی کال کوٹھری اور پھانسی کے تختے وغیرہ کوہمیشہ کے لئے ختم کر دیا جائے۔ اب جیل والی جگہ پر ایک پارک اور مکڈونلڈز ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو کا سب سے بڑا ہتھیار عوام تھے، جن کی عدالت میں وہ گاہے بگاہے پہنچ جاتے تھے۔اسی وجہ سے عوام انہیں دیوانوں کی طرح چاھتے تھے۔ وہ شعلہ بیان، دلکش، اعلیٰ تعلیم یافتہ، انتہائی ذہین، نفیس دانشوراور مکمل طور پر غیر متوقع بھی تھے۔ ایک جاگیردار کے بیٹے ہونے کے باوجود اُن میں پروگریسیو سوچ کا عنصر پایا جاتا تھا۔ جیل میں روشنی ناقص ہونے کی وجہ سے اُن کی آنکھوں کی بینائی خراب ہوگئی تھی، دانتوں میں اکثر درد رہتا تھا اور ان کا وزن بہت کم ہو گیا تھا،مگر اُنہوں نے،اس حقیقت کے باوجود کہ وہ مُنہ میں چاندی کا چمچہ لے کر پیدا ہوئے تھے، ایک بہادر نظریاتی کی طرح

قید گزاری اور جنرل ضیاء کی حکومت کے ساتھ کسی بھی قسم کی کوئی ڈیل نہ کی۔ وہ اپنی تمام ترغلطیوں کے باوجود پاکستان کے سب سے باصلاحیت، ذہین اور قابل سیاست دان تھے۔ اس لئے ان کاعدالتی قتل کرکے اُن کا خون پینے والوں کا ہاضمہ کبھی ٹھیک نہیں ہوگا۔

بقول احمد وحید اختر

اُس کی تو یہ خواہش تھی نہ بھولے اُسے تاریخ
تُم چہروں پہ کالک ہی سجا بیٹھے ہو لوگو

Toni Usman
+ posts

ٹونی عثمان اداکار، ہدایت کار اور ڈرامہ نویس ہیں۔ ’جدوجہد‘ کے پرانے ساتھی ہیں اور’مزدور جدوجہد‘ کے ادارتی بورڈ کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔