نذر مینگل
مزدوروں کے عالمی دن یومِ مئی اس سال بھی دنیا بھر کا محنت کش طبقہ بِلا رنگ و نسل اورقوم و مذہب کے تفریق کے بغیر طبقاتی بنیادوں پر شہدائے شکاگو کو زبردست خراجِ تحسین پیش کریں گے۔138 واں سال کے تقریبات چاہے وہ ترقی یافتہ ممالک ہو یا ترقی پذیر، اس تجدید عہد کے ساتھ منائے جائینگے کہ عالمی سطح پر طبقاتی کشمکش ظلم و ناانصافی نابرابری سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے تک جارہی رہے گی۔
شُہدائے شکاگو نے اس مقصد اور اوقاتِ کار میں کمی کے لئے لازول انمٹ قربانیاں دے کر تاریخ میں مزدورتحریک کو ہمیشہ کے لئے زندہ و جاوید رکھا۔ 138 سال گزرنے کو ہے لیکن آج بھی شہدائے شکاگو کی قربانیاں استحصال ذدہ طبقے کے لئے مشعلِ راہ ہے۔ 1886 سے قبل مزدوروں سے آٹھ گھنٹوں کے بجائے اٹھارہ گھنٹے ڈیوٹی لی جاتی تھی۔ فیکٹریوں کارخانوں میں کام کرنے والے مزدور اٹھارہ گھنٹے ڈیوٹی کرنے سے نِڈھال اور تھکن سے چکنا چُور ہوجاتے۔ مزدوروں کو آرام کرنے اور اپنے گھر کے روزمرہ کے دیگر کام کاج کے لئے بہت قلیل وقت میسر آتا۔ اس ظالمانہ اوقاتِ کار کے خلاف کارخانوں، فیکڑیوں اور کوئلہ کان کنوں نے اپنی آواز بلند کی کہ ہم انسان ہیں مشین نہیں ۔ ہمیں جینے کا بنیادی حق دیا جائے۔
ہم سے اٹھارہ گھنٹوں کے بجائے آٹھ گھنٹے ڈیوٹی لی جائے۔ آٹھ گھنٹے ہمارے بچوں خاندان، عزیز و اقارِب کے غم و خوشی میں شریک ہونے کے لئے اور دیگر گھریلو کام کاج کے لئے ہونے چاہئیے جبکہ آٹھ گھنٹے ہمارے آرام کے لئے مقرر ہونے چاہئیے۔
اس مطالبے کے لئے یکم مئی 1886ء کو مزدور رہنماؤں کی اپیل پر امریکہ کے شہر شکاگو کے فیکڑیوں، کارخانوں میں کام کرنے والے 4 لاکھ مزدور ہڑتال پرنکلے اور مارکیٹ اسکوئر کے مقام پر پُرامن احتجاج کے لئے جمع ہوئے جو سفید جھنڈے و بینر ہاتھوں میں تھامے ہوئے تھے اس دوران ایک سازش کے تحت ریاستی سرپرستی میں ایک شرپسند شخص نے پولیس پر بم پھنکا جس کو جواز بناکر پولیس نے نہتے پُرامن مزدوروں پر اندھا دُھند فائر کھول دی۔ اس شدید فائرنگ میں 38 مزدور شہید اور سینکڑوں کی تعداد میں زخمی ہوئے۔ اس دوران مزدوروں نے اپنے سفید جھنڈوں کو اپنے شہید ساتھی مزدوروں کے خون سے رنگ کر سُرخ کردیا جو تاحال تمام دنیا میں سُرخ ہے۔ اس واقعے کو بنیاد بناکر مزدور رہنماؤں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے 19 اگست 1886 کو پانچ رہنماوں کو سزائے موت سنائی گئی۔ رینبے کو 15 سال قید، شواب اور فیلڈین کو عمر قید کی سزا سنائی گئی جبکہ اینجل اسپائز پارسنز اور فشر کو 11 نومبر 1887 کو پھانسی دی گئی۔ مزدور رہنماؤں نے ایک عظیم مقصد کے لئے پھانسی کے پھندے کو خوشی خوشی چھومتے ہوئے کہا تھا کہ “تم ہمیں قتل کرسکتے ہو پھانسی دے سکتے ہو لیکن ہماری سوچ، نظریات اور آواز کو دبا نہیں سکتے!” مزدور رہنماؤں کی بہادری، جُرات اور قربانیوں نے آگے مزدور تحریک کو مزید تقویت دی اور یہ مزدور رہنما تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تاریخ میں امر ہوگئے۔
یورپ کے تمام ممالک میں مزدوروں کے احتجاجوں ہڑتالوں نے سامراج و سامراجی قوتوں، سرمایہ داروں کو شکست دی آٹھ گھنٹے کے مطالبے کو منوایا جس کی وجہ سے آج تک دنیا بھر میں محنت کش مزدور طبقہ شہدائے شکاگو کی قربانیوں کی بدولت آٹھ گھنٹے ڈیوٹی سرانجام دیتا ہے لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ 138 سال گذر جانے کے باوجود اکیسویں صدی کے تیسرے عشرے اور موجودہ گلوبلائزیشن، نیولبرل عہد میں دنیا کے 99 فیصد آبادی اس جدید سائنسی ٹیکنالوجی، انٹرنیٹ اور آرٹیفیشل انٹلیجنس تکنیک کی ترقی کے دور میں معاشی خوشحالی سے کیوں بے دخل اور محروم ہیں؟ کیا محنت کشوں مزدوروں کے اوقاتِ کار میں کمی آئی ہے؟ کیا موجودہ جدید دور میں ان کے بھوک، افلاس اور غربت میں کمی آئی ہیں؟ بیروزگاری کا خاتمہ ممکن ہوا ہے ؟ غربت و امارات کے درمیان خلیج میں دن بہ دن کیوں اضافہ ہوتاجارہا ہے ؟ کیا طبقاتی کشمکش میں کمی آئی ہے ؟ ظاہر ہے ان تمام سوالات کے جوابات نفی میں ہیں۔
آج منڈی کی معیشت کی زوال پذیری اور عالمی سطح پر سرمایہ داری کی ناکامی نے مزدوروں اور محنت کش طبقے کی زندگی کو بحثیتِ مجموعی اجیرن اور روز بہ روز بگڑتے ہوئے معاشی حالات نے مصائب اور مشکلات کو انتہائی پُرپیچ بناکر رکھ دیا ہے۔ استحصال کٹوتیوں نجکاری معاشی تنگ دستی نے اوقاتِ کار میں مزید اضافہ کردیا ہے لوگ مجبوراً تین تین ڈیوٹیاں کرنے پر مجبور ہے۔چاہئیے تو یہ تھا کہ آج جدید ذرائعِ پیداوار کے عہد میں اوقاتِ کار میں کمی لائی جاتی۔ ذرائع پیداوار میں اتنی صلاحیت موجود ہے کہ موجودہ عہد میں سات ارب انسانوں کے تمام بنیادی اور معاشی ضروریات باآسانی پوری کی جاسکتی ہے
2008 کا بحران سرمایہ دارانہ نظام کا اس صدی میں سب سے بڑا نامیاتی اور مسلسل جارہی رہنے والا بحران ہے۔معیشت نظریات سیاست ماحولیات صحت اور عالمی سطحیں کے بحرانات یکجا ہوکر ایک دوسرے کی شدت میں اضافہ کرتے چلے جارہے ہیں۔ بحران کی بنیادی جڑ شرح منافع میں گراوٹ ہے اس لئے سرمایہ داری کے پاس استحصال جبر اور بربادی میں اضافے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں بچا۔
سرمایہ دارانہ نظام کا ہر بحران اس بات کا واضح ثابت ہے کہ یہ نظام پیداواری قوتوں کو ترقی دینے اور انسانیت و انسانی معاشرے کے آگے بڑھنے کی راہ میں رکاوٹ بن چکا ہے۔ دولت کے دو بنیادی محرک یعنی فطرت اور انسانیت کو آگے بڑھانے کی صلاحیت سے محروم ہوچکا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام تیزی اور شدت کے ساتھ انسانیت اور فطرت کو بربریت اور تباہی کی طرف لے کر جارہا ہے۔
پاکستان میں مزدوروں محنت کشوں اور دہقانوں کی معاشی صورتحال انتہائی تشویش ناک اختیار کرگئی ہے۔ ہر آنے والا دن محنت کشوں کی لئے مصائب اور اذیت کا باعث بن رہا ہے۔ پچھلے 25 سالوں سے آمریت اور جمہوری حکومتیں کسی بھی قسم کی ٹھوس اور پائیدار معاشی منصوبہ بندی کرنے میں مکمل ناکام رہی ہے دوسری جانب عالمی سطح پر سرمایہ داری کی معاشی زوال پذیری نے پاکستانی ریاست کو مزید بحرانات زدہ کردیا ہے اور سامراجی قرضے لینے پر مجبور کیا۔
اس ملک میں توانائی بجلی اور گیس کے بحران نے سرمایہ کاری پر کاری ضرب لگائی۔ کارخانے، گارمنٹس کی فیکڑیاں یا تو مکمل بند ہوچکی ہے یا سرمایہ داروں نے دوسرے ممالک میں منتقل کردی ہیں۔یہی کیفیت زراعت کی زبوں حالی اور تباہی کی ہے جس نے جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کیا ہے۔
پاکستان کی حقیقی معاشی آمدن کا بڑا حصہ جوکہ بظاہر کہیں نظر نہیں آتا بلیک اکانومی ہے۔ آئی ایم ایف ورلڈ بینک سے قرض لینے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہ بچنے کی وجہ سے ملک میں معاشی پولرائزیشن نے خود ریاست اور ریاستی اداروں میں تضادات کو تقویت فراہم کی ہے یہی وجہ ہے کہ ہر طرف کرپشن، مفادپرستی، اور کمیشن خوری کے گھٹ جوڑ کی انفرادی سوچ ابھرکر سامنے آرہی ہے اور سماج کے ہر شعبے میں سرائیت کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔
پاکستان کی معاشی اقتصادی صورتحال کمزور اور نیف ہونے کی وجہ سے پاکستانی بورژوا سیاست سیاست نہیں رہی ہے۔ موجودہ عہد میں جتنی بھی سیاسی پارٹیاں ملکی یا صوبائی سطح کی ہو مذہبی ہو یا قوم پرست پارٹیاں کسی پارٹی کے پاس واضح پروگرام یا منشور نہیں ہیں۔ تمام کی تمام پارٹیاں اسٹیبلشمنٹ کے دم چھلے بنے ہوئے ہیں۔ موروثی سیاست نے تمام پارٹیوں کو ایک بند گلی میں داخل کردیا ہے۔ موجودہ کسی بھی پارٹی کی لیڈر شپ عوامی طاقت اور عوامی جدوجہد سے اجتناب کرتی ہیں بلکہ ان کا عوامی طاقت پر سے یقین ختم ہوگیا ہے۔ جوکہ چور دروازے اور خرید و فروخت سے اقتدار کے ایوانوں میں رسائی کے لئے دوڑ دھوپ کرتے دیکھائی دیتے ہیں۔ حالیہ 8فروری 2024 کا الیکشن ہمارے سامنے ہیں۔ یہاں بسنے والا ہر ذی شعور انسان جانتا ہے کہ یہ الیکشن نہیں بلکہ سلیکشن تھا الیکشن کے نام پر ایک مذاق اور عوام کی آنکھوں میں دُھول جوکھنے کا پرُفریب کھیل تھا۔
الیکشن کمپئین کے دوران ایک طرف تمام پارٹیاں جوکہ ایک دوسرے کے خلاف اخلاقیات کی پست ترین سطح تک گر کر ایک دوسرے کے خلاف زبان درازی کررہی تھیں لیکن دوسری طرف 8 فروری کی شام ہی کو اقتدار کے ہوس کی خاطر خصوصاً پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نواز کا یک دم سے مخلوط حکومت بنانے کا کھیل ایک بار پھر سے شروع ہوا اور الیکشن کمپئین میں جو پروگرام عام عوام کو دیا تھا کہ اقتدار میں آکر مہنگائی میں کمی کرہینگے ۔ تیل پیٹرول کی قیمتوں کو قابو کرہینگے گیس وبجلی کے بِلوں اور ٹیکسوں میں کمی لائینگے۔ 300 یونٹ بجلی فری عوام کو میسر کرہینگے ملازمین ومحنت کش طبقے کی تنخواہوں پنشن اور ان کی مراعات میں اضافہ کرکے ان کی حالت زندگی کو سہل بنائینگے۔سیاست و معیشت کو استحکام دے کر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں گے، سرمایہ کاری کے لئے حالات کو بہتر کے لئے دہشتگردی، مذہبی انتہاپسندی اور ملک میں بڑھتی ہوئی بدامنی،جرائم اور چوری چکاری کے واقِعات کی مکمل بیخ کنی کرکے دم لینگے۔ صوبوں میں سلگتی محرومی اور جبری گمشدگی کا خاتمہ کرکے لاپتہ افراد کی بازیابی کو ممکن بنائینگے۔ ملک میں آٹے کا بحران اور دیگر بحرانات پر قابو پائینگے کسانوں کو کھاد، یوریا بیجوں پر سبسڈی کے ساتھ ساتھ جدید زرعی آلات، مشینری اور ادویات فراہم کرہینگے اسی طرح تمام ٹیوب ویلوں کو سولر سسٹم کے ساتھ منسلگ کرہینگے۔ نوجوانوں کو باعزت روزگار کے مواقع دینے کے لئے فوری اقدامات کرہنگے۔ خواتین کو معاشی ریلیف کے ساتھ جنسی ہراسانی کے خلاف قانون سازی کرکے ان کو تحفظ فراہم کرہنگے اسی طرح اقلیتوں کے حقوق کا دفاع کیا جائے گا اور ان کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا۔ تعلیم اور صحت کے اداروں کو جدید خطوط پر استوار کرکے عام عوام کو بنیادی سہولیات ان کے دہلیز تک پہنچائیں گے۔ طلباء طالبات کو سکالرشپ دیینگے تعلیمی اداروں میں طلبا تنظیموں کو بحال کردہنگے۔ٹریڈ یوینن کی حوصلہ افزائی کرکے تمام کارخانوں فیکٹریوں اور اداروں میں ٹریڈ یونینز بنانے کے لئے رجسٹریشن کراہنگے۔
اب جبکہ موجودہ ارباب اقتدار کے حکمرانی کو دو مہینے ہوگئے ہیں۔ مذکورہ بالا تمام دعوے الیکشن کمپئین پروگرام یا عوام کے ساتھ کیے گئے دعوےاور باتیں قصہِ پارینہ بنتے نظرآرہے ہیں۔
مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی اپنے وعدوں پرعمل کرنے سے یا خاطر خواہ عملی اقدامات اٹھانے سے مکمل طور پر قاصر دکھائی دےرہی ہیں۔ دو مہینوں کے اقتدار کے دوران تیل پیٹرول ،بجلی گیس کے بلوں،اشیائے خوردنوش ادویات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ دیکھنےکو مل رہاہے۔ دونوں پارٹیاں بڑی بےشرمی اور ڈھٹائی سے کہہ رہی ہے کہ ہمیں الیکشن میں بھاری مینڈیٹ نہیں ملا اس لئے مخلوط گورنمنٹ ہونے کی وجہ سے ہم عوام سے کیے گئے وعدے پورے نہیں کرسکتے یہ محنت کش اور غریب عوام کے ساتھ گھناؤنا مذاق کے مترادف ہے اور فریب دھوکہ دہی کے سوا کچھ نہیں۔ خود تو وہ اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں اگر وہ اتنے ہی بےبس اور بے اختیار ہیں تو اسمبلیوں میں کس لئے بیٹھے ہوئے ہیں؟
کچکول اٹھائے آئی ایم ایف ورلڈ بینک سے 6سے8 ارب ڈالر قرض لینے کے خواہشمند ہیں آئی ایم ایف نے پہلے ہی کہہ دیا ہے کہ جب تک ہمارے ساتھ ماضی میں کیے گئے معاہدے پورے نہیں کیے جاتے اور ان شرائط پر عمل پیرا نہیں ہوتے تب تک ہم مزید قرض نہیں دے سکتے۔ ایسے میں ہمارا نیف و کمزور حکمران طبقہ جو ہمیشہ سے سامراج کا کاسہ لیس رہا ہے اس بار بھی یہ شرائط من و عن پورا کرنے کی بھرپور کوشش کریں گا اور آئی ایم ایف کے ان تمام شرائط کا بوجھ غریب عوام محنت کشوں کسانوں دہقانوں پر ڈالا جائے گا اور اس کے ساتھ ملک کے تمام بڑے قومی ادارے عوامی فلاحی کے ادارے، پی آئی اے، ریلوے، واپڈااور صحت کے ادارے کو بیج ڈالیں گے۔
تیل پیٹرول گیس بجلی پانی ادوایات روٹی تعلیم سب کو مہنگا کردیں گے بلکہ یہ بنیادی ضروریاتِ زندگی اکثریتی آبادی سے چھین کر اُنھیں بھوک و افلاس سے مار دیں گے ملک میں انارکی کے حالات حکمران طبقہ جان بوجھ کر پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں جو بدامنی، افراتفری، دہشتگردی اغوا برائے تاؤن چوری چکاری، مذہبی انہتاپسندی، نفسیاتی امراض اور منشیات کے کاروبار میں اضافہ کا سبب بنے گا لیکن یہ بالادست حکمران طبقہ اپنے مفادات پر انچ نہیں آنے دہینگے۔
صوبوں کی حالت، صوبائی حکومتیں بھی اسی طرز سے صوبوں میں اپنا کام جارہی رکھے گی۔ بلوچستان میں فارم 47کی پیداوار دو مہینے کے بعد حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ وزیر اعلیٰ برملا کہتا ہے کہ صوبے میں فنڈز کی کمی ہے اس وقت بلوچستان میں ملازمین کے مختلف اداروں میں یہ حالت ہے کہ 4سے 5 مہینوں کی تنخواہیں ادا نہیں کی جارہی ہے جس میں بلوچستان کے اہم تعلیمی ادارہ یعنی جامعہ بلوچستان کے پروفیسر حضرات ملازمین اور دیگر اسٹاف کو 4 مہینے سے تنخواہیں نہیں دی گئی ہے جس سے تعلیم و تدریس کا عمل مسلسل متاثر ہورہا ہے جس کی وجہ سے یونیورسٹی جوائنٹ ایکشن کمیٹی اپنے جائز مطالبات کے حق کے لئےمسلسل احتجاج کررہی ہے۔
اسی طرح واسا، بی ڈی اے، کیوڈی اے، میونسپل کارپوریشن کے ملازمین کو تنخواہیں اور دیگر الاؤنسسز نہیں دی جارہی ہیں۔
وزیراعلیٰ نے آتے ہی اعلان کیا ہے کہ بی ایم سی، سول ہسپتال کو نجکاری میں دیں اور آنے والے وقت میں مستقل ملازمت نہیں دیں گے بلکہ تمام ملازمین کنٹریکٹ پر رکھیں گے۔
وفاق حکومت بھی پنشن اصلاحات اور پرمینٹ ملازمتوں کا خاتمہ کررہی ہے ملازمین کے بنیادی پنشن کو ختم کرنے کے واضح اقدامات جولائی کے مہینے میں کرنے جارہی ہے۔ حکمرانوں کے عزائم سے یہ نتیجہ باآسانی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ عوام اور محنت کشوں سے تمام بنیادی حقوق اور مراحات چھین کر ہی یہ حکمران طبقہ پھر سُکھ کا سانس لینگے۔
اس کے علاوہ عالمی سطح پر ان بڑھتے ہوئے سامراجی تضادات کا اظہار سفارتی اور تجارتی تناؤ میں اور کئی مسلح تصادموں کی صورت میں ہورہا ہے۔ جوکہیں کُھلی جنگ کی شکل میں اپنا اظہار کررہی ہیں اور کہیں سامراجی مداخلت پر مبنی پراکسی جنگوں اور خانہ جنگیوں کی صورت میں اپنا اظہار کرتیں ہیں۔
فلسطین پر صہیونی ریاست کی یلغار فلسطینوں کی نسل کُشی اس تمام تر کیفیات کی واضح عکاسی ہیں۔
اسی طرح ماحولیاتی تبدیلی کا مسئلہ بھی دن بہ دن سنگین اورگھمبیر ہوتا جارہا ہے حالیہ اپریل کے مہینے میں جو طغیانی اور بے موسم کے شدید بارشیں ژالہ باری اور سیلاب نے تباہی مچادی ہےجس سے کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئی، انفراسٹرکچر مزید برباد اور فصلیں تباہ ہوئیں ہیں۔
یوں آج کی سرمایہ داری سے کسی استحکام خوشحالی اور بہبود کی توقع رکھنا حماقت بلکہ جُرم کے مترادف ہے۔ ٹریڈ یونینز ایسوسی ایشنز کے تمام نمائندوں اور لیڈران کو اس تمام تربین الاقوامی اور ملکی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے سیاست و معیشت کے ان تمام داوپیچ کو سمجھتے ہوئے شعوری طور پر مزدورتحریک کو ملکی سطح پر بلاتفریق رنگ و نسل مذہب و قوم کے، یکجا کرنے کی اشد ضرورت کے تحت عملی اقدامات اٹھانے ہونگے۔ ٹریڈ یونین لیڈران کی موجودہ شعوری کیفیت کو دیکھے تو محنت کشوں مزدوروں ملازمین پر جتنے بھی تابڑ توڑ حملے ہورہے جس کا ہم نے اوپر تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے سے آنکھیں چُرا کر ان حملوں کے خلاف خاطر خواہ عملی جدوجہد سے انحراف کررہے ہیں ۔ پانی سر سے گذر رہا ہے لیکن یہ لیڈران اپنی ذاتی مفادات حکمرانوں بیوروکریسی کے ساتھ تعلقات کو استوار کرکے اب آنے ٹکے کی لڑائی سے بھی گریزاں ہیں جسکی وجہ سے پاکستان میں مزدورتحریک پِیٹ رہی ہے حکمران طبقہ کسی مزاحمت کا سامنے کیے بغیر سامراجی پالیسوں نجکاری، ڈاؤن سائزنگ پنشن اصلاحات مستقل نوکریوں کا خاتمہ کرنے کے جیسے سنگین مزدور کُش اقدامات کے عمل کو تیزی کے ساتھ جارہی رکھے ہوئے ہیں۔ ایسے میں تمام محنت کشوں پر زیادہ ذمہ واری عائد ہوتی ہیں کہ وہ اپنے صفوں سے ان کالی بھیڑوں کو جمہوری بنیادوں پر نکال باہر پھینکے جو استحصالی قوتوں کے مفادات اور اپنی ذاتی مفادات کے خاطر بکاؤ بن گئے ہیں۔ ان حالات میں مزدور طبقے کو ایسے لیڈران کی ضرورت ہے جس طرح 1886 میں شہدائے شکاگو کے رہنماؤں نے مزدوروں کی تحریک یعنی آٹھ گھنٹے کے حصول کے مطالبے کے لئے پھانسی کاپھندا قبول کیا تھا لیکن اپنے مطالبات سے کسی قیمت پر دستبرار نہیں ہوئے اور اپنی ان قربانیوں کی بدولت 18 گھنٹوں سے 8گھنٹے میں اوقاتِ کار کو تبدیل کرکے دکھایا۔
اسی طرح کے باشعور اور جرات رکھنے والے لیڈران کی ضرورت ہے جو اپنے محنت کش طبقے کےحقوق کی خاطرحکمرانوں بیوروکریسی اور سرمایہ داروں کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان کو للکار سکے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم آئی ایم ایف کے ظالمانہ شرائط اور نجکاری کی ہر سطح پر پُرزور مخالفت کریں۔ عوامی فلاحی ادارے، بنیادی مراحات جیسے پنشن اور مستقل نوکریوں کے موقف کا بھرپور دفاع کریں بلکہ اس بڑھ کر سرمایہ دارانہ طبقاتی نظام کے خلاف ایک شعوری جنگ کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ منڈی کی معیشت کو جڑ سے اکھاڑ پھینک دیں۔
اقتدار محنت کشوں مزدوروں اور اب تک ہر طرح کے ظلم و استحصال کا شکار بننے والا اکثریتی طبقے کو سونپ دیں۔ طبقاتی نظام کا خاتمہ کرکے ہی ہمیشہ کے لئے بھوک افلاس بیماری محرومی ناانصافی اور ہر طرح کے استحصال کا خاتمہ ممکن اور اس نجات کاواحد راستہ صرف اور صرف سوشلسٹ نقلاب ہے۔
شہدائے شکاگو کو سُرخ سلام مزدور اتحاد زندہ باد مزدور انقلاب زندباد