زین العابدین
23مارچ1931کو لاہور کی سنٹرل جیل میں پھانسی کے پھندے پر جھولنے کے8دہائیوں سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد بھگت سنگھ اس وقت وجہ تنازعہ بنے، جب سول سوسائٹی کی بعض تنظیموں اور بقول مخالفین کچھ ’لبرل‘ حلقوں کی جانب سے لاہور کے شادمان چوک کانام مشہور انقلابی کے نام پر رکھنے کا اقدام اٹھایا۔
کارکنوں نے ہمیں ان کی سیکولرازم اور آزادی کیلئے جدوجہد کی یاد دلائی اور یہ بتایا کہ کس طرح جناح نے قانون ساز کونسل میں انکا دفاع کیا تھا، جبکہ مذہبی دائیں بازو کی طرف سے چوک کا نام تبدیل کرنے کے خلاف دھمکیاں دی گئیں۔ میڈیا میں ان (مذہبی دائیں بازو)کے زیادہ واضح نظریات رکھنے والوں نے نہ صرف اس اقدام کے خلاف بھگت سنگھ کی شخصیت اور جدوجہد کے خلاف بھی مضامین لکھے۔ ان کے نزدیک وہ ایک ’ہندوستانی‘ دہشت گرد تھے،جنہوں نے ہندو احیاء کیلئے بھی کام کیا، وہ ہم میں سے نہیں تھے اور جناح نے کبھی ان کا دفاع نہیں کیا، بلکہ درحقیقت ان کی جدوجہد کی مذمت کی۔
جب آئیڈیلز کو شکست ہو جاتی ہے اور تحریکیں دم توڑ دیتی ہیں تو سیاسی اور سماجی موقع پرستی کیلئے وراثت، جتنا سیاسی اور سماجی تعصب کیلئے اسے مسخ کرنا۔ بھگت سنگھ اور ان کے نظریات، اگر آج بھی ایک سیاسی خطرہ ہیں، تو ان کی یادگار قائم کرنے کی مہم چلانے والوں اور اس خیال کے خلاف نفرت انگیز مہم چلانے والے دونوں کی طرف سے انہیں برا بھلا کہا جائے گا۔
بھگت کی مرکزی دھارے میں تخصیص کی تازہ ترین لہر کا پتہ2002میں ان پر بنے والی فلموں کی دوڑ سے لگایا جا سکتا ہے، جب انڈیا میں کانگریس اور بی جے پی کی تقسیم کے سیاسی پس منظر میں دونوں پارٹیوں نے انہیں اپنا قرار دیا تھا۔ اس سے پہلے سکھ احیاء پسندوں اور علیحدگی پسندوں نے ان کے ساتھ ایسا ہی کیا تھا۔ بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں پر مضامین کے اس سلسلے کا مقصد بھگت سنگھ، ان کی جدوجہد اور نظریات پر اس یقین کیساتھ روشنی ڈالنا ہے کہ ان کے پاس ابھی بہت کچھ پیش کرنے کیلئے باقی ہے، جس پر دائیں بازواور جو کچھ بھی ’بائیں بازو‘ کی اصطلاح سے چلتا ہے غور کر سکتے ہیں۔اس سیریز کے پہلے دو حصے 2002میں بھگت سنگھ پر بنائی گئی اس سب سے کامیاب بائیوپک پر لکھے گئے تنقیدی مضامین کی ری پروڈکشن ہیں، جس کی وجہ سے بھگت سنگھ میں سیاسی اور سماجی دلچسپی میں اضافہ ہوا۔
بھگت سنگھ کا موازنہ ایک ایسے دمدار ستارے سے کیا گیا جو ہمارے سیاسی آسمان پر بھڑک اٹھا اور بہت جلد غائب ہو گیا۔اس دمدار ستارے کے مختصر سفر کا سینما میں اظہار صرف راج کمار سنتوشی کی ’دی لیجنڈ آف بھگت سنگھ‘کی صورت میں کسی حد تک متعلقہ میرٹ پر اترتا ہے۔
سنتوشی بھگت سنگھ کے انقلابی کیریئر کی اہم اہم اقساط کو دوبارہ تخلیق کرتے ہیں۔ بھگت سنگھ کو 23سال کی عمر میں دو دیگر ساتھیوں کے ہمراہ پھانسی دے دی گئی تھی۔ فلم کا آغاز اس بیان سے ہوتا ہے کہ کس طرح نوجوان انقلابیوں کی لاشوں کو 23مارچ1931کی رات لاہور سینٹرل جیل سے باہر سمگل کیا گیا اور پھر انہیں کاٹ اور جلا کر دریا میں پھینک دیا گیا۔
جلد ہی فلم بھگت سنگھ کے بچپن کے دنوں میں پہنچاتی ہے، جب وہ نوآبادیاتی حکام کو اپنے لوگوں پر ظلم ڈھاتے ہوئے دیکھتا ہے۔ جلیانوالہ باغ کے قتل عام کی انتہائی ذہانت اور ہوشیاری کے ساتھ منظر کشی کی گئی، ننھے بھگت سنگھ کے ذہن میں اس قتل عام کے منظر کو ری کنسٹرکٹ کیا گیا، جو جائے وقوعہ پر غم و غصے میں کھڑا تھا۔
ننھے بھگت سنگھ نے بڑے جذبے کے ساتھ خود کو گاندھی کی تحریک عدم تعاون میں جھونک دیا۔ اسکی آزادی کا خواب اس وقت چکنا چور ہو گیا، جب گاندھی اچانک تحریک سے دستبردار ہو گئے۔ بھگت سنگھ اپنے (آزادی کے) خواب کو اپنے طریقے سے پورا کرنے کیلئے بڑا ہوتا ہے۔ وہ چندر شیکھر آزاد کی سربراہی میں ہندوستان ریپبلکن ایسوسی ایشن میں شامل ہوتا ہے اور اپنے ساتھیوں کو اپنی تنظیم کا نام بدل کر ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن ایسوسی ایشن (ایچ ایس آر اے)رکھنے کی ترغیب دیتا ہے۔ وہ کانگریس کی سخت مخالفت کرتا ہے اور خبردار کرتا ہے کہ اگر کانگریس کے طریقے سے آزادی جیتی گئی تو نام نہاد آزاد ہندوستان میں استحصال کا راج ہوگا اور ایک وقت آئے گا، جب ہندوستان فرقہ وارانہ انتشار کی سرزمین کی صورت میں تنزلی کا شکار ہو جائے گا۔
سائمن کمیشن مخالف مظاہرے پر پولیس نے حملہ کیا اور ایک قد آور سیاستدان لالا لجپت رائے (پولیس کی) بے رحمانہ مارپیٹ کے نتیجے میں ہلاک ہو گئے۔ پورا ملک سکتے میں ہے۔ ایچ ایس آر اے نے سپرنٹنڈنٹ سانڈرز کو قتل کر کے قومی توہین کا بدلہ لیا۔ پھر جب پبلک سیفٹی بل اور ٹریڈ ڈسپیوٹ بل جیسے اقدامات کے ذریعے حکومت محنت کش طبقے کو دبانے کے اقدامات کرتی ہے اور مزدور رہنماؤں کو گرفتار کرتی ہے تو یہ ایک بار پھر ایکشن لیتے ہیں۔
جب بل پاس ہو رہے ہوتے ہیں، اس وقت بھگت اور بی کے دت اسمبلی ہال میں بم پھینکتے ہیں۔ بموں کو اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ ان سے کوئی مارا نہ جائے اور اس طرح پھینکے جائیں کہ کسی کو نقصان بھی نہ پہنچے۔ بھگت اور دت آسانی سے خود کو پولیس کے حوالے کر دیتے ہیں۔ خیال یہ ہے کہ ’بہروں کے سننے کیلئے کافی اونچی آواز میں‘ احتجاج درج کروایا جائے اور ایچ ایس آر اے کی مرکزی دھارے میں عدم مقبولیت کو ختم کرنے کیلئے اس مقدمے کو استعمال کیا جائے۔ اس مقصد کیلئے عدالت میں دیئے گئے بیانات کی پریس میں اشاعت کے ذریعے پارٹی پیغام پہنچانا تھا۔
یہ معاملہ اس وقت ایک تاریک موڑ لے لیتا ہے، جب ایچ ایس آر کے بہت سے کارکنوں کو گرفتار کیا جاتا ہے۔ ان میں سے کئی وعدہ معاف گواہ بن جاتے ہیں اور بھگت سنگھ، سکھ دیو اور راج گرو کو سانڈرز کے قاتلوں کے طور پر شناخت کرتے ہیں۔ اس طرح مشہور لاہور سازش کیس کا آغاز ہوتا ہے، جس میں بھگت سنگھ اور اسکے ساتھی ظالموں کو بے نقاب کرنے کیلئے تضحیک اور طنز کا استعمال کرتے ہیں۔ اس کے بعد نوآبادیاتی حکام کی طرف سے مقامی قیدیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کے خلاف بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کی طرف سے شروع کی گئی تاریخی بھوک ہڑتال کی روح کو ہلا دینے والی قسط آتی ہے۔
یہیں پر فلم بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کے کردار کی شرافت اور ارادوں کی مضبوطی کی انتہائی خوبصورتی سے منظر کشی کا انتظام کرتی ہے، جس نے انہیں امر کر دیا اور ان کو اذیت دینے والوں کو اخلاقی اور ذہنی طور پر مزید پست کر دیا۔ ان کے ایک ساتھی نے63دن کی بھوک ہڑتال کا دعویٰ کیا۔ ان نوجوانوں کیلئے ہندوستان بھر میں ہمدردی اور تعریف کی ایک بہت مقبول لہر تھی۔ اس بات سے خوفزدہ ہو کر کہ بھگت سنگھ کی مقبولیت گاندھی کے مقابلے میں آگئی ہے جو ان کا ’دشمن نما‘ ہے، برطانوی حکومت بھگت کو کسی نہ کسی طریقے سے ختم کرنے کیلئے مقدمے کو ایک مذاق میں بدل دیتی ہے۔ فلم کا اختتام بھگت سنگھ، راج گرو اور سکھ دیو کے جرأت و بہادری کے ساتھ پھانسی کے تختے پر چڑھنے سے ہوتا ہے اور ان کے باقی ساتھیوں کو عمر قید کی سزائیں سنائی جاتی ہیں۔
’دی لیجنڈ‘گاندھی اور کانگریس کی سیاست اور آزادی کے نقطہ نظر کو بھگت کے ساتھ جوڑتی ہے۔ جب ایک نوجوان بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کو نہ بچانے کیلئے گاندھی پر عوام کے سامنے طعنہ زنی کرتا ہے،اور کہتا ہے کہ تاریخ اسے کبھی معاف نہیں کرے گی، گاندھی کے چہرے کا کلوز اپ اس پر سوالیہ نشان لگا دیتا ہے جو فلم کے آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ بڑا ہوتا جاتا ہے۔ لیکن اسکرپٹ پورے ڈرامے کے دوران گاندھی کے شرمناک کردار کو پوری طرح سے بے نقاب نہیں کرتا ہے۔ بھگت کے سوانح نگاروں اور کانگریسی مورخین نے گاندھی اور وائسرائے لارڈ ارون کے درمیان جو کچھ حقیقت میں ہوا، اس پر کافی روشنی ڈالی ہے۔
ہندوستان میں گاندھی واحد آدمی تھے جو اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے اور بھگت اور ان کے ساتھیوں کو سنائی گئی سزائے موت میں تبدیلی کو اس معاہدے کی شرط بنا کر ان نوجوانوں کی جان بچا سکتے تھے،جو انہوں نے لارڈ ارون کے ساتھ کیا تھا اورجس معاہدے کو طے کرنے کیلئے وائسرائے بہت بے چین تھا۔ اس کی بجائے انہوں نے صورتحال کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا، ایک موقع پر وائسرائے پر زور دیا کہ وہ بھگت سنگھ کو پھانسی دے دیں،اور اسے کراچی کانگریس کی میٹنگ سے پہلے ہی پھانسی دی جائے۔ عوامی طور پر انہوں (گاندھی) نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے وائسرائے سے ہر ممکن حد تک التجا کی ہے۔ اس دوران وہ لوگوں کو بھگت سنگھ کے طریقے کی ’غلطی‘دکھانے کے لیے ’اہنسا‘ پر لیکچر بھی دیتے رہے۔
سنتوشی نے گاندھی کے کردار کی تصویر کشی میں پوری طرح سے کام نہیں کیا۔تاہم ان کے یہ تمام اقدام قابل تعریف ہیں، جن سے وہ رائے کو ’باپو‘ سے دوراور بھگت سے قریب کرتے ہیں، جس کی وجہ سے اول الذکرپر شکوک کا ایک لطیف سایہ پڑتا ہے۔
تاہم جو بات اتنی آسانی سے نہیں نظر انداز کی جا سکتی، وہ یہ ہے کہ فلم بھگت سنگھ کے نظریے کو کم کرتی ہے۔ بھگت سنگھ مارکسسٹ تھے۔ انقلابی سوشلزم سے متاثر ہو کر ہی وہ متحرک ہوئے اور ان پر کسی بھی بائیوپک میں اس کی تصویر کشی یمانداری سے ہونی چاہیے۔ اگرچہ یہ ’یہ انقلاب زندہ باد‘ کے ساتھ گونجتی ہے، لیکن فلم اس نعرے کی وضاحت کرنے کیلئے بہت کم کام کرتی ہے، جسے بھگت سنگھ نے بے مثال جوش کے ساتھ لگایا تھا۔ فلم کا سیاسی طورپر سب سے اہم منظر، جب بھگت سنگھ سے عدالت میں پوچھا جاتا ہے کہ انقلاب سے ان کا کیا مطلب ہے، خالی اور جذباتی قوم پرستانہ بیان بازی پر ضائع کیا جاتا ہے، جسے بھگت خود بھی حقیر سمجھتے تھے۔
بھگت سنگھ نے درحقیقت جو جواب دیا اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان کے پاس اپنا آپ ظاہر کرنے کیلئے اس سے بہت زیادہ کچھ موجود تھا، جو سنتوشی ہمیں دکھاتے ہیں۔ بھگت سنگھ نے جو کہا وہ نائن الیون کے بعد کی دنیا میں بہت زیادہ متعلقہ ہے۔ اگر سنتوشی بھگت سنگھ کو اپنی بات کہنے دیتے تو فلم کا یہ حصہ ہمارے زمانے کے ایک طاقتور تبصرے کے طورپر کام کرتا، جو بھگت سنگھ کی زندگی کے عہدسے کم ہنگامہ خیز نہیں ہے۔
(زین العابدین ’دی نیوز‘ کے ادارتی مدیر تھے۔ وہ2021 میں وفات پا گئے۔ ان کا شمار اپنے وقت کے اہم ترین مارکسی دانشوروں میں کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے بھگت سنگھ پر طویل مضمون لکھا جو دی نیوز میں قسط وار شائع ہوا۔ اس کا ایک حصہ یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔ اس کا مقصد بھگت سنگھ کو خراج تحسین پیش کرنے کے علاوہ زین العابدین کی یاد زندہ رکھنا بھی ہے۔ ہماری کوشش ہو گی کہ ہم اپنے مرحوم ساتھی زین العابدین کی مزید تحریریں بھی اردو میں ترجمہ کریں)۔