تاریخ

[molongui_author_box]

مسئلہ فلسطین کی ابتدا: کیا اس سے نکلنے کا کوئی راستہ ہے؟

لارڈ آرتھر بالفور ہی وہ شخص تھا،جو 1917 میں ‘‘بالفور اعلامیے’’ کا معمار ٹھہرا اور یہی اعلامیہ در حقیقت فلسطینی سرزمین پر اسرائیلی ریاست کی بنیاد بنا۔ نسل پرستی سے متعلقہ لارڈ آرتھر کے مندرجہ بالا الفاظ فلسطین کے حوالے سے نہیں بلکہ سیاہ فام افریقیوں کے خلاف کہے گئے تھے۔ لیکن یہ ہمیں مجموعی طور پر سامراجی ذہنیت اور نفسیات جبکہ انفرادی طور پر ایک ایسے شخص کے بارے میں بہت کچھ بتاتے ہیں،جو مشرق وسطی کے قلب میں ایک درد ناک زخم پیدا کرنے کا ذمہ دار ہے۔ اکتوبر 2023 سے پوری دنیا، جدید دور کی تاریخ کے سب سے خوفناک اور وحشیانہ قتل عام کا مشاہدہ کر رہی ہے۔ لہٰذا اس نفسیاتی ذہنیت کی گہرائیوں میں جھانکنا انتہائی اہمیت کا حامل ہے جو دنیا کے نقشے پر اس جہنمی منظر کو پیدا کرنے میں لگی تھی۔

بھٹو کا خون کبھی ہضم ہو گا؟

جنرل ضیاء کا خیال تھا کہ جب تک بُھٹو زندہ رہیں گے وہ اپنے حامیوں کو اُمیدیں دلاتیں رہیں گے اور فوجی حکومت کے لئے عدم استحکام کا باعث بنتے رہیں گے۔ لہٰذا سپریم کورٹ نے فوجی حکومت کی خواہش کے مطابق پھانسی کی سزا کو برقرار رکھا۔مقدمہ میں ناانصافیوں سمیت بُھٹو کے ساتھ جیل میں کیا گیا سلوک اور پھانسی سے پہلے کئے جانے والے تشدد کے متعلق مُختلف باتیں لکھی اور کہی جاچُکی ہیں۔ مگر ان پر غیر جانبدار اور پائیدار تحقیق کی ضرورت ہے،تاکہ تاریخ کے ریکارڈ کو درُست کیا جاسکے۔

بھگت سنگھ: بہروں کو سنانے کے لئے اونچا بولنا پڑتا ہے (دوسرا حصہ)

”بظاہر میں نے ایک دہشت گرد کی طرح کام کیا ہے، لیکن میں دہشت گرد نہیں ہوں۔ میں پوری طاقت کے ساتھ اعلان کرتا ہوں کہ میں دہشت گرد نہیں ہوں اور شاید اپنے انقلابی کیریئر کے آغازکے سوا کبھی تھا بھی نہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ہم ان طریقے سے کچھ حاصل نہیں کر سکتے۔ یہ سوچ سمجھ کر میری رائے ہے کہ بم ہمارے مقصد کو پورا نہیں کر سکتے۔ یہ ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن ایسوسی ایشن کی تاریخ سے ثابت ہے۔ بم پھینکنا نہ صرف بیکار ہے بلکہ نقصان دہ بھی ہے۔ ان کا استعمال صرف بعض مواقع پر کرنا ہے۔ ہمارا بنیادی مقصد محنت کش عوام کو متحرک کرنا ہے۔ فوجی ونگ کو خصوصی مواقع پر استعمال کیلئے جنگ کا مواد اکٹھا کرنا چاہیے۔“

بھگت سنگھ: بہروں کو سنانے کے لئے اونچا بولنا پڑتا ہے

ننھے بھگت سنگھ نے بڑے جذبے کے ساتھ خود کو گاندھی کی تحریک عدم تعاون میں جھونک دیا۔ اسکی آزادی کا خواب اس وقت چکنا چور ہو گیا، جب گاندھی اچانک تحریک سے دستبردار ہو گئے۔ بھگت سنگھ اپنے (آزادی کے) خواب کو اپنے طریقے سے پورا کرنے کیلئے بڑا ہوتا ہے۔ وہ چندر شیکھر آزاد کی سربراہی میں ہندوستان ریپبلکن ایسوسی ایشن میں شامل ہوتا ہے اور اپنے ساتھیوں کو اپنی تنظیم کا نام بدل کر ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن ایسوسی ایشن (ایچ ایس آر اے)رکھنے کی ترغیب دیتا ہے۔ وہ کانگریس کی سخت مخالفت کرتا ہے اور خبردار کرتا ہے کہ اگر کانگریس کے طریقے سے آزادی جیتی گئی تو نام نہاد آزاد ہندوستان میں استحصال کا راج ہوگا اور ایک وقت آئے گا، جب ہندوستان فرقہ وارانہ انتشار کی سرزمین کی صورت میں تنزلی کا شکار ہو جائے گا۔

اسلام سے دوری نہیں، بیرونی قرضوں کی وجہ سے مصر برطانیہ کی کالونی بنا

یہ تاریخ دانی سے مذاق کے سوا کچھ نہیں۔ افریقہ اور ایشیا پر استعماری قبضوں کی وجہ یہ تھی کہ یورپ سر مایہ دارانہ عہد میں داخل ہو چکا تھا۔ سر مایہ داری مسلم علاقوں میں رائج جاگیرداری نما معاشی و سیاسی نظام سے کہیں آگے کی چیز تھی۔نہ صرف سرمایہ دارانہ جدییدیت (تکنیکی، فوجی، جغرافیائی، ابلاغی جدیدیت) نے پس ماندہ جاگیردارانہ سماج کو شکست دی بلکہ نئے معاشی نظام نے بھی یورپ کی حکمرانی قائم کر دی۔ اس معاشی برتری کا ایک بڑا اظہار یہ تھا کہ مسلمان ممالک،بشمول سلطنت عثمانیہ،یورپ کی معاشی غلامی میں چلے گئے۔ استنبول کا بال بال یورپی قرضے میں جکڑا ہوا تھا۔

لال خان تو زندہ ہے انقلاب کے نعروں میں

21 فروری 2024 کو عظیم انقلابی کامریڈ لال خان کی چوتھی برسی ہے۔جسمانی طور پر ہم سے جدا ہونے کے باجود کامریڈ لال خان اپنے نظریات کی صورت میں آج بھی زندہ ہیں۔دنیا کی اور بالخصوص پاکستانی کی موجودہ سیاسی، معاشی، معاشرتی،ثقافتی اور اخلاقی صورتحال کو سمجھنے کے لیے لال خان کا تجزیہ اور تناظر آج بھی حکمران طبقے کے دانشوروں سے ہزاروں گنا زیادہ رہنمائی فراہم کرتا ہے جو لاکھوں رویے تنخواہ لیتے ہیں اور زندہ ہوتے ہوئے بھی سماج کو سائنسی بنیادوں پر دیکھنے اور سمجھنے سے قاصر ہیں۔لال خان کی تقریریں سن کر اور تحریریں پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ ابھی بھی زندہ ہیں اور اس کیفیت کا تجزیہ کر رہے ہیں۔پاکستان میں حکمران طبقے کی لڑائی کھل کر منظر عام پر آ چکی ہے۔یہ لڑائی نظریات کی بنیاد پر نہیں ہے بلکہ مختلف سامراجی ممالک کے نمائندہ دھڑوں کے درمیان دولت اور طاقت کے حصول کی لڑائی ہے۔یہ کالےدھن پر پلنے والی مافیا کی سیاسی قتدار میں حصہ داری کی لڑائی ہے۔

لال خان: افکار تیرے ہونے کی گواہی دینگے!

سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کی ہر غلاظت کا خاتمے اورایک حقیقی انسانی معاشرے کے قیام کے ذریعے ہی ’ڈاکٹر لال خان‘ کی لازوال جدوجہد کو حقیقی خراج پیش کیا سکتا ہے۔

گرمسیری گلاگ 

انڈونیشیا کے جزیرہ بورو پر مقید ایک قیدی آٹھ سال تک ہر رات ظلم، بیماری اور دبے پاؤں آنے والی مخبوط الحواسی سے لڑنے کے لئے اپنے ساتھ قید سیاسی مجرموں کو قصے کہانیاں سناتا۔ یوں ان کے دل میں امید کی شمع روشن رہتی۔ اس کی باتیں سنتے سنتے قیدی لمحہ بھر کو بھول جاتے کہ وہ کہاں ہیں اور کس نے یہ طویل مصیبت ان کے سرمونڈھ دی ہے۔ یہ قصہ گو انڈونیشین بائیں بازو کا معروف دانشور اور شاندار لکھاری پروموئدا آنتا توئر تھا۔ 1965ء میں جکارتہ اندر ہونے والی بغاوت کے بعد توئر نے جزیرہ بورو کے اس جہنم میں بارہ سال گزارے-97 اس جہنم کو آپ سربیائی گلاگ کا خط استوائی نعم البدل قرار دے سکتے ہیں۔ تین ہزار سے زائد راتیں پرام نے یوں کاٹیں کہ وہ اپنے سمیت تمام قیدیوں کو ایک ایسی دنیا بارے سوچنے پر مجبور کرتا جہاں ادب بے درد ہو کر تاریخ سے گھل مل جاتا ہے۔

محفوظ شدہ جزیرہ

بالی ایک لمبے عرصے سے ہندومت کے اثر میں تھا۔ اس کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ آج بھی ہندومت کے زیرِ اثر ہے: مجمع الجزائر میں قرآن کی کشش سے متاثر نہ ہونے والا واحد جزیرہ اور ہاں وہ واحد جزیرہ جہاں ہندوؤں کی غالب اکثریت ہے۔ صدیوں سے بالی جائے پناہ اور ایک قلعے کی صورت اختیار کر چکا تھا۔ قسطنطنیہ پر عثمانی قبضے کے کچھ ہی عرصہ بعد جوگ جکارتہ میں قائم ہندوسلطنت کا خاتمہ ہو گیا تو شاہی خاندان اپنے دربار او ر عملے، برہمن پنڈتوں اور علماء، موسیقاروں اور رقاصوں، شاعروں اور گلوکاروں سمیت بالی فرار ہوگیا۔ ذات پات کے شکار اس جزیرے پر نئے لوگوں کی آمد سے برہمنوں کی تعداد میں اور اضافہ ہوگیا۔ بالی والوں کے بارے میں جو عام تاثر پایا جاتا تھا اس کے برعکس وہ خاصے جفاکش تھے، انہیں مجمع الجزائر کے گو رکھے کہنا مناسب ہوگا۔ جاوا میں بالی سے آئے ہوئے آباد کاروں نے اسلام قبول کیا ہو تو کیا ہو، یہ جزیرہ البتہ اسلام سے بچا رہا۔ کیوں؟ یہ کہنا زیادہ درست دکھائی نہیں دیتا کہ اس جزیرے کی ثقافت اس قدر ترقی کر چکی تھی کہ یہاں کائنات کی کوئی اور تشریح قابل قبول ہی نہ رہی تھی۔