مسلم لیگ کی انتخابی مہم میں مریم نواز کی جانب سے پنجابی شاونزم کو بنیاد بنا کر بھی نون لیگ کی انتخابی مہم کو شکست ہوئی۔ وہ چیزیں سستی ہونے کی نوید سناتی رہیں مگر پٹرول کو انتخابات سے تین دن پہلے صرف 18 روپے کم کر کے عوام کے زخموں پر نمک ہی چھڑکا گیا۔ ادہر، مفتاح اسمٰعیل بجلی گیس کی قیمتوں میں اضافے کی نوید عوام کو دیتے رہے۔ وہ لوگوں کو یقین دلاتے رہے کہ ابھی اور مہنگائی ہو گی۔
پاکستان
طالبان کو خوش کرنے سے کبھی امن نہیں ہو گا
ایک بار پھر پاکستان تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ ’امن مذاکرات‘ دوبارہ شروع کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ اسلام آباد نے اس سایہ افگن گروہ کو ڈیڑھ دہائی کے تشدد کا ذمہ دار ٹھہرایا،جس میں 70,000 سے زیادہ شہری اور فوجی ہلاک ہوئے۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے وزیر، محسود اور داوڑ قبائل کے مقامی عمائدین کو جرگوں کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ وہ ٹی ٹی پی اور دیگر طالبان گروپوں کو افغانستان میں مذاکرات کے لیے شامل کر سکیں، جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ انہیں حقانی نیٹ ورک نے سہولت فراہم کی تھی۔
تنویر الیاس قوم پرستوں کیلئے تہاڑ جیلیں، صحافیوں کو صحافت سکھائیں گے
جب تک مسائل موجود ہیں، تب تک ان کے خلاف جدوجہد بھی موجود رہے گی۔ کسی مخصوص خطے یا علاقہ میں موجود سیاسی تحرک کو مصنوعی قومی شاؤنزم، ریاستی جبر اور سکیورٹی سلوشن کے ذریعے دباتے ہوئے حب الوطنی پیدا کرنے کی کوششیں کامیاب ہونے کی بجائے الٹا پڑنے کے خدشات اور امکانات زیادہ موجود رہتے ہیں۔ اس خطے سے ابھرنے والی بغاوتیں اور تحریکیں اس ریاستی ڈھانچے کو چیلنج کرنے کے ساتھ ساتھ اس نظام کو چیلنج کرنے کی صلاحیت حاصل کرتے دیر نہیں لگائیں گی۔
مولانا ہدایت: ریاستی جبر پر احتجاج مگر جمعیت کے تشدد کی حمایت
موجودہ سیاسی رجحانات کی بنیاد پر یہ واضح ہے کہ مولانا ہدایت اگلا الیکشن اسی صورت میں جیت سکتے ہیں، جب وہ جماعت اسلامی اور اس کے نظریے سے خود کو دور کر لیں۔ اگر وہ اپنے قدامت پسند ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہیں، جس میں مخلوط تعلیم کی مخالفت بھی شامل ہے، تو انہیں نسبتاً ترقی پسند بلوچ معاشرے میں سیاسی حمایت کبھی نہیں ملے گی۔ مولانا ہدایت کو مذہبی قدامت پرستی کے بارے میں اپنے موقف کے بارے میں واضح طور پر سامنے آنا ہو گا۔ اس معاملے پر ان کی خاموشی سخت مذہبی سیاست سے ان کی وفاداری کا اعتراف قرار پائے گی۔ اگر وہ اس مسئلے سے نمٹنے میں کامیاب ہو گئے توآنے والے سال مولانا ایک منصفانہ اور آزادانہ انتخابات میں جیت سکتے ہیں۔
ایاز امیر کو خواہش ہٹلر کی ہے، نام چے گویرا کا لے رہے ہیں
ایاز امیر ایک چھوٹا سا جنرل مشرف ہیں۔ کپتان کی سطح کا جنرل مشرف۔ پینا پلانا ٹھیک ہے۔ ناچ گانا، بغل میں کتا اٹھا کر تصویر کھنچوانا اور کبھی کبھی فیض کی شاعری…یہ سب ہونا چاہئے لیکن جمہوریت، سوشلزم، برابری، سیکولرزم، اکبر بگٹی وغیرہ کو زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ فی الحال کوئی جنرل مشرف دستیاب نہیں تو اب آخری امید عمران خان کو قرار دیا جا رہا ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی میں یونین اچھی بات: پاکستان میں طلبہ یونین پر پابندی
’تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے احمد نواز کو آکسفورڈ یونین کا صدر منتخب ہونے پر مبارکباد دی ہے۔ پاکستان کو نوجوان قیادت کی ضرورت ہے لیکن پاکستان میں طالب علم طلبہ یونین کے حق سے محروم ہیں۔ ہماری حکومتیں اس حق سے پاکستانی نوجوانوں کو محروم رکھنا چاہتی ہیں۔‘
حکمران طبقے اور افسر شاہی کی مراعات کیسے ختم ہونگی؟
آج محنت کش مٹھی بھر سرمایہ داروں کی دولت میں اضافے کے لیے کام کرتے ہیں اور اس نظام کو چلا رہے ہیں۔ یہی محنت کش سرمایہ داروں کے بغیر اپنے لیے بھی سماج کو چلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لینن نے کہا تھا ”ہر قیمت پر ہمیں ان پرانے، نامعقول، وحشی اور گھٹیا تعصبات کو نیست و نابود کرنا ہے کہ صرف نام نہاد اشرافیہ، امیر طبقے یا امیروں کے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے ہی ریاست کو چلا سکتے ہیں۔“
ہاؤسنگ سوسائٹیاں قومی خزانے کو اربوں کا نقصان پہنچا رہی ہیں (تیسرا حصہ)
پاکستان کے رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں دولت کی ریل پیل اور سٹے بازی کا آغاز تب ہوا، جب راولپنڈی میں ایک پرائیویٹ ڈویلپر نے ڈی ایچ اے کی طرز پر ایک نئی بستی بسانے کا اعلان کیا۔ اس بستی کا نام اس ڈویلپر نے بری فوج کے پراجیکٹ ڈی ایچ اے کی طرح، پاکستان نیوی کی اجازت سے بحریہ ٹاؤن رکھا۔
راجہ پرویز اسد قیصر اشرف
تین دن قبل علی وزیر نے جب جناح ہسپتال میں بھوک ہڑتال کر دی تو زمین پر براجمان علی وزیر کی تصویر وائرل ہو گئی۔ یہ ممکن نہیں کہ وزیر اعظم شہباز شریف تک یہ تصویر نہ پہنچی ہو۔ وہ بہادر ٹرک ڈرائیور کی وائرل ویڈیو کا نوٹس لے سکتے ہیں تو جناح ہسپتال میں ہونے والی بھوک ہڑتال سے غفلت ممکن نہیں۔ اس کے باوجود کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔ اتنا سا وعدہ بھی نہیں کیا گیا جتنا بلوچوں سے کیا گیا تھا: ”لا پتہ افراد بارے متعلقہ محکمے سے بات کروں گا“۔
جموں کشمیر: 2300 میگا واٹ سستی بجلی کے بدلے 400 میگا واٹ مہنگی بجلی بھی نہیں ملتی!
1990ء کی دہائی میں بے نظیر کی حکومت کے دوران مارگریٹ تھیچر کے فارمولہ کو استعمال کرتے ہوئے نیو لبرل اکونومی کو پاکستان میں رائج کرنے کے حوالہ سے عملی اقدامات کا آغاز کیا گیا جو آج تک جاری ہے۔ اسی سلسلہ میں پاکستان کے پاور سیکٹر کی نجکاری کا آغاز کیا گیا۔ اس نجکاری کو اس کے بعد آنے والی تمام نام نہاد جمہوری حکومتوں اور فوجی آمریتوں نے جاری رکھا۔