پاکستان

ہاؤسنگ سوسائٹیاں قومی خزانے کو اربوں کا نقصان پہنچا رہی ہیں (تیسرا حصہ)

رانا سیف

پہلا اور دوسرا حصہ

پاکستان کے رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں دولت کی ریل پیل اور سٹے بازی کا آغاز تب ہوا، جب راولپنڈی میں ایک پرائیویٹ ڈویلپر نے ڈی ایچ اے کی طرز پر ایک نئی بستی بسانے کا اعلان کیا۔ اس بستی کا نام اس ڈویلپر نے بری فوج کے پراجیکٹ ڈی ایچ اے کی طرح، پاکستان نیوی کی اجازت سے بحریہ ٹاؤن رکھا۔ بحریہ ٹاؤن جیسے نام کی وجہ سے مارکیٹ میں ہر خاص و عام میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ بحریہ ٹاؤن پاکستان نیوی کا، یعنی سرکاری، پراجیکٹ ہے۔ اس غلط فہمی کو جنم دے کے اس پرائیویٹ ڈویلپر نے کیا کیا فائدے اٹھائے، ان پر بعد میں کسی وقت بات ہو گی۔

آج ہمارا موضوع صرف ’پاکستان میں رئیل اسٹیٹ سیکٹر کا ہر قسم کے صنعتی و تجارتی کاروبار سے کہیں زیادہ پھیلاؤ اور اس کاروبار میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری کیونکر ممکن ہوئی‘تک محدود ہے۔

90ء کی دہائی سے قبل رئیل اسٹیٹ سیکٹر لاہور، کراچی اور اسلام آباد میں محدود پیمانے پر کام کر رہا تھا۔ اس وقت رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں کام کرایہ پر لین دین، پلازوں کی تعمیر اور چھوٹی موٹی کالونیوں تک محدود تھا۔ حکومتی سرپرستی میں رہائشی منصوبہ جات کے لئے کام کرنے والے ادارے مثلا ایل ڈی اے، سی ڈی اے، آر ڈی اے، ایف ڈی اے وغیرہ جعلسازیوں، لوٹ کھسوٹ، پلاٹوں اور گھروں پر قبضوں، ایک ایک پلاٹ کی بیس بیس فائلیں فروخت کرنے جیسے اقدامات کی وجہ سے بدنامی کی انتہاؤں پر تھے۔

اس دور میں سب سے بڑا نام پاک آرمی کے تحت چلنے والا پراجیکٹ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی تھا۔ چادر اور چار دیواری کا تحفظ، بلا تعطل بجلی کی فراہمی، صاف ستھرے کھلے سبزہ زار اور کھیلنے کے میدان، چوبیس گھنٹے سکیورٹی، صفائی ستھرائی، ماحولیاتی آلودگی سے پاک، کمرشل پلازوں اور دکانوں کے سامنے گاڑیاں کھڑی کرنے کے لئے جگہ، گھنے سایہ دار درخت، برقی قمقموں سے روشن شاہرات اور گلیاں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہر قسم کی سروسز کی نگرانی کے لئے عملہ کی موجودگی نے ڈی ایچ اے کو رئیل اسٹیٹ کی دنیا کا بے تاج بادشاہ بنا دیا۔

سرکاری ادادروں کی بدانتظامی اور لوٹ مارسے تنگ لوگوں کے جذبات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بحریہ ٹاؤن نے ڈی ایچ اے کی طرز پر راولپنڈی اسلام آباد میں ایک بڑے رہائشی منصوبہ کا آغاز کیا، تو اس نے تعمیراتی کام کے لئے ملک کی سب سے بڑی انجینئرنگ کمپنی حبیب رفیق پرائیویٹ لمیٹڈ (HRL) کا انتخاب کیا۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب ہم لاہور سے راولپنڈی اسلام آباد جاتے تو ایکسپریس وے پر بحریہ ٹاؤن کے بڑے بڑے تشہیری بورڈز جا بجا لگے نظر آتے اور ان پر بحریہ ٹاؤن سے بڑا نام (HRL) لکھا خریداروں کو بتاتا کہ یہ تو ڈی ایچ اے سے بھی بڑا منصوبہ ہے کیونکہ اس نے اتنی بڑی انجینئرنگ کمپنی کو تعمیراتی کام کا ٹھیکہ دیا ہے۔

بحریہ ٹاؤن نے قوم کے سامنے اپنا بحری فوج سے تعلق ظاہر کرنے کے لئے بہت سے بے روزگار ریٹائرڈ فوجی و سول افسران کو ملازمت دی۔ ایک بظاہر سرکاری لیکن نجی سکیم میں ڈی ایچ اے سے بڑھ کر نظم و ضبط اور اوپر سے اخبارات میں بھرپور تشہیری مہم نے پہلی بار رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں گلیمر کو جنم دیا۔ اس گلیمر کے پیدا ہونے کے بعد پہلی بار دیار غیر میں آباد پاکستانیوں نے بھی کھل کر وطن میں پلاٹ والی سرمایہ کاری کا بھرپور آغاز کیا۔

اس طرح حساس اداروں اور سول ریٹائرڈ افسران کی مدد سے ملک ریاض نے راتوں رات اعلیٰ پیمانے پر ذاتی تعلقات قائم کئے۔ یوں انتہائی مختصر وقت میں ملک ریاض پاکستان کی کاروباری دنیا کے منظر پر چھاتے چلے گئے۔ لوگ دیوانہ وار بحریہ ٹاؤن میں پلاٹ خریدنے لگے۔ پاکستان کے طاقت کے مرکز دارالخلافہ اسلام آباد میں بحریہ ٹاؤن نے بارسوخ اور طاقتور لوگوں کو براہ راست نوازا۔ سیاسی، انتظامی، میڈیا، کاروباری اور سب سے بڑھ کر حساس ادارے کے ریٹائرڈ افسران نے اس ہاؤسنگ پراجیکٹ کو جو شہرت اور عزت بخشی، اس کا فائدہ اس کے مالک نے تو براہ راست اس طرح اٹھایا کہ عام آدمی پوش کالونی میں گھر بنانے کی خواہش لے کرنقد رقم ہاتھ میں لئے لائنوں میں لگا پلاٹ خریدنے لگا۔

اس سیکٹرمیں اس بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری اور ملکی سطح پر طاقتور لوگوں کے ساتھ تعلقات استوار ہوتے دیکھ کر وطن عزیز کی دوسری بڑی کاروباری شخصیات نے بھی رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں پیسہ جھونکنا شروع کر دیا۔ یوں ملکی پیسہ مختلف چھوٹے بڑے کاروباری شعبہ جات سے نکل رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں منتقل ہونا شروع ہوا۔ اسی دوران ملک کے طول و عرض میں سینکڑوں بلکہ ہزاروں چھوٹے بڑے ہاؤسنگ منصوبوں کا راتوں رات آغاز ہوتا چلا گیا اور آج یہ سب سے بڑی کاروباری حقیقت ہے۔ اس دوران بحریہ ٹاؤن کی پیروی میں فراڈ، جھوٹ اور دو نمبریوں کے بھی بھرپور سلسلہ کا آغاز ہوا۔

میرے نزدیک اس صدی کے اوائل میں رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں جنم لینے والے اس منفی رجحان نے پاکستان میں صنعتی ترقی کو جمود کا شکار بنا دیا۔ عملی طور پر اگر بغور مشاہدہ کیا جائے، تو پتہ چلتا ہے کہ رئیل اسٹیٹ سیکٹر نے بھی ملک میں مزدور دشمن ماحول اور بے روزگاری کو جنم دیا جبکہ دولت کا ارتکاز بھی چند طاقتور لوگوں کے ہاں ہو گیا۔ کسی بھی حکومت نے اس سیکٹر کے تیزی سے ہوتے پھیلاؤ سے سماجی، معاشی اور ماحولیاتی حوالوں سے پیدا شدہ منفی اثرات کا ازالہ کرنے کی بجائے اس سیکٹر کو خوامخواہ بہت سی مراعات اور سہولیات دیں۔ منشیات فروشی، منی لانڈرنگ، کالا دھن اور بدعنوانی سے کمایا پیسہ اس سیکٹر میں پہنچ کر سفید ہوا۔ اسی طرح عام آدمی کی سالوں کی محنت سے کمائی دولت اور بچت بھی بینکوں اور مختلف اقسام کے چھوٹے چھوٹے کاروباروں سے نکل کر رئیل اسٹیٹ کے دھنوانوں کے ہتھے چڑھ گئی۔

مزیدظلم یہ کہ ٹیکس چوری کے لئے بھی یہ سیکٹر بہترین پناہ گاہ ثابت ہوا۔ آج اس قومی غفلت کا خمیازہ پوری قوم بھگت رہی ہے۔

جاری ہے

Saif Ur Rehman Rana
+ posts

سیف الرحمن رانا لاہور میں مقیم سینئیر صحافی ہیں۔ وہ لاہور کے مختلف اردو اخباروں سے وابستہ رہ چکے ہیں۔ ان دنوں وہ یوٹیوب چینل ’دیکھو‘ سے وابستہ ہیں۔