حارث قدیر
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں حال ہی میں اپنی ہی جماعت کے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرتے ہوئے وزیراعظم بننے والے معروف کاروباری تنویر الیاس ایک مرتبہ پھر خبروں اور تبصروں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔
وزیراعظم بننے کے بعد انہیں وزیراعظم ہاؤس کی سکیورٹی میں کوتاہی کے خدشہ نے شہ سرخیوں میں رکھا، بعد ازاں وزیراعظم کی بیماریوں کے چرچے بھی زبان زد عام رہے۔جاگنے اور سونے کی بیماریوں کے باعث حکومتی اجلاس رات کے 2بجے کے بعد منعقد کئے جانے کو معمول قرار دیا جاتا رہا۔
تاہم وزیراعظم نے بدھ کے روز دارالحکومت مظفرآباد میں ایوان صحافت(پریس کلب) کی عمارت کی افتتاحی تقریب میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔ مقامی صحافیوں کے بقول انتہائی مشکوک طریقے سے وزیراعظم کی آمد نے صحافیوں کو بھی اس وقت مشکل میں ڈال دیا، جب ایوان صحافت کے صدر دروازے پر پہنچ کر وزیراعظم 22منٹ تک گاڑی سے باہر نہیں نکلے۔
جب تقریر شروع ہوئی تو سب سے پہلے صحافیوں کو صحافت پر ایک لیکچر دیا گیا، اور یہ باور کروانے کی کوشش کی گئی کہ صحافت کے ماہر صرف وزیراعظم ہی ہیں۔ یہاں یہ یاد رہے کہ وزیراعظم چونکہ تحریک انصاف کی مقامی شاخ کے صدر بھی ہیں، اس لئے قائد تحریک انصاف عمران خان کی طرح کوئی بھی شعبہ ایسا نہیں ہے، جس میں انکی صلاحیتیں اپنے قائد سے کسی طور کم ہوں۔۔۔ لہٰذا وزیراعظم نے صحافیوں کیلئے صحافت سیکھنے کے سرکاری بندوبست کا اعلان کیا، جہاں بیوروکریٹ اور پارلیمنٹیرین انہیں صحافت سکھائیں گے۔۔۔البتہ وزیراعظم نے اپنے کاروباری قد کاٹھ کے مطابق صحافتی تنظیموں وغیرہ کیلئے بھاری رقوم کے اعلانات بھی کئے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ صحافت پر لیکچر کو موجود صحافیوں کی طرف سے کچھ زیادہ برا محسوس نہیں کیا۔
کچھ روز سے وزیراعظم کے آبائی حلقہ، انتخابی حلقہ سمیت پونچھ ڈویژن بھر میں بجلی کی غیر اعلانیہ اور طویل ترین لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاج کا ایک تسلسل چل رہا تھا۔ وزیراعظم کے آبائی بازار میں بھی مرکزی شاہراہ کو دھرنا دے کر بند کیا گیا تھا، اسی طرح کئی مرکزی سڑکیں مظاہرین نے بند کر رکھی تھیں۔ انتظامیہ کی بھرپور کوششوں کے باوجود متعدد سڑکیں بند ہوے کی وجہ سے احتجاج ختم نہیں کروایا جا سکا۔ شاید یہ بات وزیراعظم نے خاصی دل پر لے لی۔
مشیروں نے یہ باور کروانے میں بھی کوئی قصر نہ چھوڑی کہ یہ احتجاج عوامی مسائل کے لئے نہیں بلکہ قوم پرستوں کی جانب سے منعقد کئے گئے ہیں اور انہیں بھارتی خفیہ ادارے کی جانب سے بھاری رقوم دی جا رہی ہیں۔
یہاں یہ یاد رہے کہ وزیراعظم کے ہمراہ طاقتوروں نے ایسے ترجمان مقرر کر رکھے ہیں، جنہیں حب الوطنی منصوبہ کے سیاسی و سائبر محاذوں پر مبینہ طور پر وزیراعظم ہی کی دولت کے بل بوتے اورسمگلنگ کی جرائم پیشہ معیشت سے فیض یاب کرتے ہوئے مقررکیا گیا ہے۔ اس سائبر فوج نے پہلے پہل تو منظم طریقے سے سوشل میڈیا پر مظاہرین اور عوام کے مابین تفاوت بڑھانے کی سرتوڑ کوشش کی۔ اس عمل کیلئے محکمہ اطلاعات کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو بھی بھرپور طریقے سے استعمال کیا گیا۔ تاہم ناکامی کے بعد ترجمانوں نے سارا ملبہ بھارتی خفیہ ادارے کی فنڈنگ پر ڈال دیا۔
وزیراعظم اس معاملے پر کافی طیش میں دیکھے گئے، صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے تند و تیز جملوں کا استعمال کیا۔ یہاں ان کے اپنے الفاظ ہی شامل کئے جانا زیادہ اہم ہوگا، جس سے قارئین وزیراعظم کی عالمگیر صلاحیتوں اور معلومات کے ذخیرے سے براہ راست فیض یاب ہو سکیں۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ”یہ جو نیشنلسٹ ملک کو چیلنج کرنے چلے ہیں، میں ایک ہی بات کرتا ہوں کہ پاکستان مشیعت الٰہی ہے۔ یہ آپ کے اور میرے لئے نہیں، مسلم امہ کیلئے نہیں، دنیا کے ہر مظلوم طبقے کیلئے توجہ کر مرکز ہے۔ ہم اس ملک کی طرف دیکھنے والی آنکھ نکالیں گے۔ یہ ملک ہمارے آباؤ اجداد کے خون کے ساتھ غسلا کر، یہ ریاست خون کے ساتھ غسلا کر۔ یہ سب نیشنلسٹ اپنے بزرگوں کے ذرا لے آئیں نہ شجرے، شجرے نکال لے کر آئیں، تاریخ نکال کے لائیں، کون کون سے قلعوں میں شہید ہوئے۔ جن کے بزرگوں نے شہادتیں دیں، ان کا ایمان اور یقین اسی ملک کے ساتھ ہے، ان کی نسلیں اسی ملک کے ساتھ کمیٹڈ ہیں۔“
انکا کہنا تھا کہ ”پورے آزادکشمیر کے اندر شہادتیں ہوئیں، ان جگہوں کو خون کے ساتھ غسلایا گیا۔ یہ وہ لوگ نہیں ہیں، کبھی آپ ان کا انٹرویو کریں نا ’تہواڈے والد صاحب کہہ کردے سن، دادا جی کہہ کردے سن، ایتھے کوئی جہاد ہویا سی، کرنل خان صاحب باہر نکلے سن، غازی ملت نے کہار ہوئی سی قرار داد، مجاہد اول آئے سن، تساں کتھے سو‘۔ بات یہ ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو آج راء سے پیسے لیکر اس ریاست کو چیلنج کرنے چلے ہیں، اس ملک کو چیلنج کرنے چلے ہیں۔“
انہوں نے صحافیوں کو کہا کہ ”میں یہ کہتا ہوں کہ اس میں بھی آپ کو ننگی تلوار بننا ہو گا اور ان کو انکی اوقات یاد دلانی ہوگی۔ اور اگر وہ کسی زعم میں ہیں، بنیادی طور پر یہ مامے چاچے لگے ہوئے ہیں ریاستوں کے؟ کوئی بات ہی نہیں، کیا ایجنڈا ہے؟“
انہوں نے آخر میں یہ کہا کہ ”ہم نے انتظامیہ کو یہ کہا ہوا ہے کہ سمجھائیں، نہ سمجھے تو حکومتوں کو سمجھانے کا طریقہ حکومتوں کو آتا ہے۔ پھر ایسا سمجھائیں کہ یہاں بھی تہاڑ جیلیں کوئی دور کی بات نہیں، کسی جیل کا کوئی نام رکھ دیں نا، پونچھ توں ڈاڈی جگہ کہیڑی ہے۔“
وزیراعظم کے ان الفاظ پر سوشل میڈیا پر ان کے خلاف شدید ردعمل دیکھا جا رہا ہے۔ اس رد عمل کو روکنے کیلئے انتظامیہ اور پولیس کو خصوصی ٹاسک دیئے گئے ہیں۔ کمشنر پونچھ، مظفرآباد کے علاوہ ڈپٹی کمشنر پونچھ نے سوشل میڈیا پر آواز اٹھانے والوں کے خلاف سختی سے نمٹے کے پیغامات جاری کئے۔ اس کے علاوہ پولیس کی ایک ٹاسک فورس تشکیل دیکر سوشل میڈیا صارفین کو ٹارگٹ کرنے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا گیا ہے۔
پولیس کی جانب سے صحافیوں کو بھی وزیراعظم کے اس بیان پر کسی قسم کے تبصرے سے روکنے کی گزارشات کے علاوہ عام صارفین کو ڈرانے اور دھمکانے کا سلسلہ بھی شروع ہے۔ امکان ہے کہ کچھ لوگوں کی گرفتاری اور پوچھ گچھ کا سلسلہ بھی شروع کیا جائے۔ تاہم سوشل میڈیا پر رد عمل تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔
قوم پرست تنظیموں کے قائدین کی طرف سے وزیراعظم سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ معافی نہ مانگے جانے کی صورت احتجاج کی دھمکی بھی دی گئی ہے۔
نوآبادیاتی خطوں کو ہمیشہ ایک تجربہ گاہ کے طورپر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ حکمران اشرافیہ کی تعیناتی کیلئے واحد قابلیت وفاداری میں کسی حد تک بھی جانے کے علاوہ مال و دولت کا طریقہ کار بھی اپنایا جاتا رہا ہے۔ ماضی میں برطانوی سامراج کے برصغیر میں داخلے کے طریقہ کار کو بھی دیکھا جائے تو جہاں جہاں شخصی ریاستوں کی حکومتوں کو گرا کر سہولت کاروں کو اقتدار سونپا گیا، اس کے عوض ان ریاستوں اور رجواڑوں سے بھاری مقدار میں مال و دولت کو اپنے قبضے میں لیا گیا، وسائل پر قبضہ کر کے انہیں لوٹنے کی راہ ہموار کی گئی۔
جدید عہد میں نوآبادیاتی تسلط کا طریقہ کار اور طرز ضرور تبدیل ہو کر زیادہ جمہوری لبادے میں لپیٹ لی گئی ہے، تاہم اس کی اساس میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب لوگ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر سے پیدا ہونے والی 3ہزار میگاواٹ بجلی سے محض 300میگاواٹ بجلی کی مانگ پر احتجاج کر رہے تھے، تب وزیراعظم یہ بیانات جاری کر رہے تھے کہ پاکستان کو روشن کرنے کیلئے ہم تاریکی میں زندگی بسر کرنے کو ترجیح دینگے۔
جو ں جوں معاشی اور سیاسی بحران گہرا ہوتا جا رہا ہے۔توں توں حکمران طبقات اور ریاستی دھڑوں میں تصادم کی کیفیات اور نوعیت گھمبیر ہوتی جارہی ہے۔سیاسی اقدار اور روایات پست ہوتی جا رہی ہیں، ساتھ ہی ساتھ نوآبادیاتی علاقوں پر کنٹرول کی طرزبھی زیادہ بھونڈی اور سطحی ہو کر زیادہ کھل کر عام عوام کے سامنے آرہی ہے۔
بحران کے عہد میں جب ریاست معاشی، سیاسی اور انتظامی طور پر کمزور ہوتی ہے تو پھر حکمرانی کو چلانے کیلئے انتقام، تشدد، دباؤ اور ریاستی دھونس کا استعمال بھی تیز ہوتا جاتا ہے۔ اس عمل میں ریاستی ادارے اور حکمران اشرافیہ کے غلیظ چہرے زیادہ کھل کر عوام کے سامنے آتے ہیں۔ ہر مسئلے کے حل کو جعلی قومی شاؤنزم، مذہبی عقائد، قبیلائی اور علاقائی تعصبات کے ساتھ جوڑتے ہوئے سکیورٹی نقطہ نظر سے دیکھنا اور ٹریٹ کرنا معمول بن جاتا ہے۔ یہی صورتحال موجودہ وقت پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں بھی اپنائی جا رہی ہے۔
جب تک مسائل موجود ہیں، تب تک ان کے خلاف جدوجہد بھی موجود رہے گی۔ کسی مخصوص خطے یا علاقہ میں موجود سیاسی تحرک کو مصنوعی قومی شاؤنزم، ریاستی جبر اور سکیورٹی سلوشن کے ذریعے دباتے ہوئے حب الوطنی پیدا کرنے کی کوششیں کامیاب ہونے کی بجائے الٹا پڑنے کے خدشات اور امکانات زیادہ موجود رہتے ہیں۔ اس خطے سے ابھرنے والی بغاوتیں اور تحریکیں اس ریاستی ڈھانچے کو چیلنج کرنے کے ساتھ ساتھ اس نظام کو چیلنج کرنے کی صلاحیت حاصل کرتے دیر نہیں لگائیں گی۔