فاروق طارق
صوبائی اسمبلی کی 20 سیٹوں پر ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کو ایک لینڈ سلائیڈ فتح ملی ہے۔
مسلم لیگ کی انتخابی مہم میں مریم نواز کی جانب سے پنجابی شاونزم کو بنیاد بنا کر بھی نون لیگ کی انتخابی مہم کو شکست ہوئی۔ وہ چیزیں سستی ہونے کی نوید سناتی رہیں مگر پٹرول کو انتخابات سے تین دن پہلے صرف 18 روپے کم کر کے عوام کے زخموں پر نمک ہی چھڑکا گیا۔ ادہر، مفتاح اسمٰعیل بجلی گیس کی قیمتوں میں اضافے کی نوید عوام کو دیتے رہے۔ وہ لوگوں کو یقین دلاتے رہے کہ ابھی اور مہنگائی ہو گی۔
’مشکل فیصلہ‘ کے نام پر جو مہنگائی کی گئی وہ تاریخی تھی اور تاریخی شکست ہی عوام نے مسلم لیگ کے حوالے کی ہے۔ یہ آئی ایم ایف کی شرائط پر اندھا دھند عمل کرنے کا منفی سیاسی نتیجہ ہے۔ جس نے بھی آئی ایم ایف کو سیاسی گرو مانا، اسے سیاسی شکستوں کا سامنا کرنا پڑا۔
عمران خان کا یہ بیانیہ کہ انہوں نے ائی ایم ایف کی بات نہیں مانی اور پٹرول مہنگا نہیں کیا، بھی عوام میں تسلیم ہوا۔
یہ پرو اسٹیبلشمنٹ اور پرو سامراجی ایجنڈا کی شکست ہوئی ہے۔ ایک رائیٹ ونگ جماعت دوسرے رائیٹ ونگ اتحاد کو شکست دینے میں کامیاب ہوئی ہے۔ مسلم لیگ ن کا بڑا سیاسی نقصان ہوا ہے۔ وہ انتخابی مہم میں ایک مغرورانہ رویہ اختیار کئے ہوئے تھے مگر عمران مخالف تقریروں اور پنجابی شاونزم کو فروغ دینے کے سوا ان کے پلے کچھ نہ تھا۔ نواز لیگ آنکھیں بند کر کے عوام کو مذید مشکل فیصلے سنانے کی نوید دیتی رہی۔ جو مفتاح اسمعیل کررہے تھے، اس کے سیاسی نتائج بارے کوئی منصوبہ بندی نہ کی گئی اور سوچ سمجھ لیا گیا کہ پنجاب ان کی جیب میں ہے۔
میاں شہباز شریف بھی سوائے اس کے کہ انہوں اپنے دل پر پتھر رکھ کر پٹرول کی قیمت بڑھائی کچھ نہ کہہ سکے، اب یہ سیاسی پتھر انہیں بہت بھاری پڑا ہے۔
پنجاب میں حکومت کی تبدیلی اب صاف نظر آ رہی ہے۔ مریم نواز نے بھی سیاسی شکست تسلیم کر لی ہے۔ اب حمزہ شہباز کے پاس استعفیٰ دینے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ مرکز میں بھی اب اس اتحاد کی حکومت خطرے میں ہے۔
الیکشن کرانے کا مطالبہ زور پکڑے گا اور اس سیاسی بحران میں آئی ایم ایف سے جو معاہدہ ہوا اس پر بھی شائد اب عمل نہ ہو۔ اب نئی سیاسی صف بندیاں ہوں گی، نئے اتحاد بنیں گے۔مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کا اتحاد بھی جلد ختم ہو سکتا ہے۔ ایک انتہائی ڈرامائی سیاسی صورتحال سامنے آ رہی ہے۔ تیزی سے تبدیلیاں ہوں گی۔ مسلم لیگ نواز کے اندر بھی سیاسی گروہ بندیاں سامنے آئیں گی۔ ان کے اپنے ممبران اسمبلی بھی سوچ رہے ہوں گے کہ ان کا کیا بنے گا۔ شہباز شریف بھی وزیر اعظم کے طور پر مستعفی ہو سکتے ہیں اور نئے سیاسی اتحاد عبوری حکومت کا حصہ بن سکتے ہیں۔
سرمایہ درانہ معاشی بحران مزید تیز ہو سکتا ہے۔ اس کے زیر اثر اب ایک نئی عبوری حکومت بھی بن سکتی ہے اور مزید آمرانہ معاشی اور سیاسی اقدامات بھی غیر متوقع نہیں ہیں۔ ایسی نئی عبوری حکومت اسی طرح کلیدی معاشی فیصلے کر سکتی ہے جس طرح ماضی میں معین قریشی کی حکومت نے کئے۔ اس وقت مقصد یہ تھا کہ سخت فیصلے عبوری حکومت کر لے تا کہ آنے والی حکومت کو عوام کی مذید نفرت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
تحریک انصاف جیتی تو ہے مگر جو وہ اب تک انٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ دیتی رہی وہ اس سے اب مکمل طور پر یو ٹرن لیں گے اور عمران خان نے تو انتخاب سے ایک دن پہلے ہی یو ٹرن کو ایک بار پھر اچھا قرار دیا۔
عمران خان اب اسٹیبلشمنٹ کو یقین دلائیں گے کہ وہ ان کے ساتھ پہلے سے بہتر کام کریں گے۔ وہ اینٹی امریکہ بیان بازی سے بھی پیچھے ہٹیں گے۔ وہ پہلے والا عمران خان ہی بنیں گے۔ یہ آزادی اور غلامی کی بات کرنا بھول ضائیں گے۔ یہ اب سرمایہ دار سیاست دانوں کا وطیرہ ہے کہ جب اپوزیشن میں ہوں تو کھل کر اینٹی اسٹیبلشمنٹ بات کریں کیونکہ یہ عوام میں مقبول بات ہے۔ اور جب اقتدار مل جائے یا اقتدار ملنے کی امید ہو تو اپنے بیانیہ سے پیچھے ہٹ جائیں۔
یہی کچھ اس دفعہ مسلم لیگ ن نے کیا اور اس کا خمیازہ بھگتا۔ یہ سیاسی چالبازیاں سرمایہ دار سیاست دانوں کی روائیت بن گئی ہے۔ اس ساری صورتحال کا سبق یہ ہے کہ کسی سرمایہ دار سیاست دان کی بات پر یقین کئے بغیر اپنا متبادل محنت کش عوام دوست بیانیہ تعمیر کیا جائے۔ اپنی آزاد سیاست کو منظم کیا جائے اور عوامی سطح پر جدجہد کرنے کے تمام راستے اختیار کئے جائیں۔