پاکستان


بحریہ ماہانہ 7 ارب ناجائز ذرائع سے ہتھیاتا ہے: فائلوں کو لگے پہیوں کی کہانی

صرف لاہور، اسلام آباد اور راولپنڈی میں ملک ریاض کی نجی ہاؤسنگ سکیم بحریہ ٹاؤن میں مفاد عامہ کے لئے گورنمنٹ کے نام منتقل شدہ جگہ پر متعدد عمارات قائم ہیں، جن کا تمام تر کمرشل فائدہ سرکاری اہلکاروں کی ملی بھگت سے کروڑوں روپے ماہانہ کمایا جا رہا ہے۔ یہی عالم ان تمام سوسائٹیوں کا ہے، جن کے مالکان بے پناہ سیاسی، سماجی اور معاشی اثر و رسوخ کے حامل ہیں۔

آئی ایم ایف سے ہٹ کر معاشی بحالی کیلئے 7 اقدامات

(۱) چھوٹے کسانوں کے لئے نئی ٹیکنالوجی تا کہ وہ ہل چلا سکیں اور ڈرپ ٹیکنالوجی تا کہ فصلوں کو پانی کی فراہمی کو جدید بنایا جا سکے (۲) ٹنل فارمنگ تا کہ کنٹرولڈ ماحول میں آف سیزن اعلیٰ درجے کی سبزیاں بھی پیدا کی جا سکیں (۳) ایسی کھادیں جو متعلقہ زمین کے لئے سود مند ہوں (۴) انفا رمیشن ٹیکنالوجی کی بنیاد پر ایسے پلیٹ فارم بنائے جائیں جہاں یہ معلومات دستیاب ہوں کہ بر آمدات کے لئے کونسی مصنوعات دستیاب ہیں، اسی طرح ہر کسان بارے یہ معلومات دستیاب ہوں کہ وہ جو فصل پیدا کرتا ہے یا اس کی پیکنگ اور سٹوریج کا معیار عالمی ضابطوں کے مطابق ہے۔

ایک نہیں دو پاکستان: علی وزیر کیلئے بات دو قومی نظریہ سے بھی آگے نکل گئی

دوسری طرف سابق حکمران جماعت تحریک انصاف کی سرکردہ رہنما شیریں مزاری ہیں۔ جنہیں بظاہر غریب مزارعوں کی ہزاروں ایکڑ اراضی ہڑپ کرنے کے ایک خاندانی کرپشن کے مقدمہ میں اسلام آباد پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ ناقدین اس گرفتاری کو فوج کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنائے جانے کا رد عمل قرار دے رہے تھے۔ تاہم ان کیلئے رات گئے عدالت العالیہ کے نہ صرف دروازے کھولے گئے بلکہ انکی حفاظتی ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم بھی دیا گیا۔ انہوں نے رہائی کے بعد گرفتاری کا الزام شہباز شریف حکومت پر دھرا، تاہم ان کی وکیل اور بیٹی ایمان مزاری نے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کو مورد الزام ٹھہرایا اور ان کا ایک دھواں دار ویڈیو بیان چند ہی لمحوں میں سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا۔

لانگ مارچ ناکام مگر حکومت کی ناکامیاں جاری

اس قدر شدید بحران 1971ء کے بعد پہلی دفعہ درپیش ہے جو پچھلی سات دہائیوں کی عوام دشمن پالیسیوں کا مجموعہ ہے۔ بحران جس قدر شدید ہے، بحران کا حل بھی اتنے ہی ریڈیکل متبادل کا تقاضہ کرتا ہے۔ یہ متبادل ایک سوشلسٹ پلیٹ فارم کی شکل میں ہی سامنے آ سکتا ہے۔ یہ متبادل اس وقت عوامی شعور کا حصہ نہیں مگر بن ضرور سکتا ہے۔ سوشلسٹ قوتوں کو اس وقت سرگرمی دکھانا ہو گی۔ کوئی نیاتنظیمی ڈھانچہ تشکیل دینا ہو گا جو ملکی سطح پر موجود ہو۔ امکانات موجود ہیں۔ امکانات کو حقیقت کی شکل دینا ہی اس وقت بائیں بازو کا بھی اصل امتحان ہے۔

جموں کشمیر: مرد تو ہجرت کر جاتے ہیں، تعلیم یافتہ خواتین کہاں جائیں؟

جموں کشمیر کے نوجوانوں اور محنت کشوں کو سامراجی قبضے سے نجات کی جدوجہد کو طبقاتی بنیادوں پر استوار کرتے ہوئے اس نظام کے خاتمے کی علاقائی اور عالمی جدوجہد کے ساتھ جوڑنا ہو گا۔ اب نسل انسانی کیلئے سوشلزم ہی راہ نجات ہے۔

ریاست پاکستان کی بنیادیں لرز رہی ہیں

ایک کٹھن وقت ہمارا منتظر ہے۔ سمندری طوفان کے دوران چٹان کے قریب بحری جہاز کا ہونا خوفناک ہوتا ہے۔ اور بھی خطرے کی بات ہے کہ جہاز کا عملہ جہاز کو بچانے کی بجائے باہم دست و گریباں ہے۔ اس سے بھی بڑا خطرہ یہ ہے کہ منزل کا ہی پتہ نہیں۔ پاکستان کو اپنی منزل کا از سر نو تعین کرنا ہو گا۔ جب تک ہم ملٹری ازم، آبادی اور تعلیم کے مندرجہ بالا خوفناک مسائل حل نہیں کرتے، ہمیں مستقبل سے پرُامید ہونے کاحق نہیں ہے۔

لانگ مارچ عمران خان کی سیاسی پسپائی کا موجب بن سکتا ہے

ہم کسی بھی صورت ریاستی جبر کی حمایت نہیں کر سکتے، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم عمران خان کے حامی ہو گئے ہیں۔ ہماری سیاست انقلابی اصولوں سے وابسطہ ہے، جس میں جمہوری دفاع بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ گرفتار سیاسی کارکنوں کو رہا کیا جائے، راستوں سے رکاوٹیں ہٹائی جائیں۔ پرامن جدوجہد کے راستہ میں رکاوٹیں نہ ڈالی جائیں۔ اگر عمران خان کے بیانیہ کو اکثریت ملتی ہے تو ملے، اسے بندوقوں سے نہ روکا جائے۔

شیریں مزاری اور علی وزیر: ’دو قومی نظریہ‘

’اگر اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر شیریں مزاری کو رہا کیا جا سکتا ہے تو سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ کے حکم پر علی وزیر کو رہا کیوں نہیں کیا گیا؟ ان کے خلاف نت نئے مقدمے کون بنا رہا ہے؟ مراد علی شاہ صاحب کچھ تو بولئے!‘