ڈاکٹر اکمل حسین
اگر متواتر تجارتی خسارے کے رجحان کا مشاہدہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ خسارہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ اس بار تو کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ اس قدر بڑھ گیا ہے کہ معاشی دیوالیہ پن کی باتیں ہو رہی ہیں۔ مایوسی میں حکومت ایک مرتبہ پھر آئی ایم ایف کے در پر دستک دے رہی ہے۔
اس موقع پر دو سوال ابھرتے ہیں۔ اؤل، قطع نظر اس کے کہ آئی ایم ایف کے محترم مشل کامدیدس نے (معاشی بحالی کے لئے) جنگی پیمانے کی سرجری بارے کیا کہا تھا، اہم بات یہ ہے کہ اس بحالی کے دوران عام لوگوں کے کندھوں پر بوجھ نہ ڈالا جائے اور یہ کیسے ممکن ہے؟ دوم، موجودہ بحران سے ہٹ کر بھی یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ایسی کون سی حکمت عملی اپنائی جائے کہ تجارتی خسارے کا مستقل بنیادوں پر حل تلاش کیا جائے، معاشی ترقی ہوتی رہے اور عدم مساوات بھی پیدا نہ ہو؟
اس مضمون میں ان دونوں سوالات کا جواب دینے کی کوشش کی جائے گی۔
جیسا کہ میں نے اپنے گذشتہ مضمون میں کہا تھا قلیل المدتی بحران سے نپٹنے کے سلسلے میں اصل چیلنج یہ ہے کہ مہنگائی، بجٹ اخراجات میں کٹوتیاں اور اضافی ٹیکسوں کا بوجھ غریب پر نہیں، امیروں پر ڈالا جائے۔ مثال کے طور پر تیل کی قیمت بڑھنے سے ظاہر سی بات ہے کہ مہنگائی بڑھتی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہر غریب گھرانے کے پاس ضروری روشن دستیاب ہو۔ اشرافیہ کو 1.3 ارب ڈالر کی سبسڈی ختم کی جائے اور امیر ترین افراد پر ٹیکس بڑھایا جائے۔ اس طرح حاصل ہونے والے ٹیکس سے غریبوں کی سہولیات میں اضافہ کیا جائے۔ اسی طرح، اگر تیل کی قیمتیں بڑھانا ناگزیر ہی ہے تو کم از کم مختلف طرح کی سبسڈی دے کر پبلک ٹرانسپورٹ یا ٹیوب ویل کے لئے سستے داموں پیٹرول دستیاب ہونا چاہئے۔
معاشی دیوالیہ پن کی جو آگ اس وقت بڑھک رہی ہے، اسے بجھاتے ہوئے ضروری ہے کہ وسط المدتی اقدامات اٹھائے جائیں جن کے نتیجے میں معیشیت ترقی کرنے لگے۔ ہمیں ان ساختی رکاوٹوں کو دور کرنا ہو گا جو ایک ایسی پائیدار معاشی نمو کے راستے میں رکاوٹ ہیں جس کا محور عام لوگوں کی بھلائی ہو۔ اس سلسلے میں ایک نئی طرح کے معاشی تناظر کی ضرورت ہے جس کے سات اہم نقاط ہیں۔
اؤل، وسط المدتی معاشی ترقی حاصل کرنے کے لئے ترتیب دی جانے والی حکمت عملی کا مرکزی خیال مندرجہ ذیل ہونا چاہئے: معاشی نقشہ کچھ اس طرح سے ترتیب دیا جائے کہ معیشت کو از سر نو ترتیب دیتے ہوئے عام لوگوں کی صلاحیتوں کو جلا بخش کر معاشی نمو کی بنیاد رکھی جائے۔
دوم، مندرجہ بالا مقصد کے لئے حکومت کو فوراً یہ یقین دہانی کرانی ہو گی کہ ہر شہری کو اعلیٰ درجے کی تعلیم اور صحت کی سہولت دستیاب ہو گی۔ تازہ تحقیق کے مطابق شہریوں پراس طرح کی سرمایہ کاری بہت سود مند معاشی نتائج کی حامل ہوتی ہے۔ ظاہر سی بات ہے صحتمند، تعلیم یافتہ اور ہنرمند آبادی معاشی لحاظ سے زیادہ پیداوارانہ صلاحیت دکھائے گی اور اس میں تخلیقی صلاحیت بھی زیادہ ہو گی۔ جیسا کہ ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر آگیون کی تحقیق بھی ثابت کرتی ہے جس قدر نئی نئی چیزیں تخلیق کی جائیں گی، اسی قدر دیر پا بنیادوں پرمعیشت کا حجم بڑھے گا۔
سوم، خوراک کو بنیادی انسانی حق قرار دیا جائے۔ مہنگائی کی وجہ سے ظاہر سی بات ہے کہ روٹی غریب کے بس سے باہر ہو جاتی ہے۔ ان چالیس فیصد لوگوں کو کم از کم خوراک (آٹا،دال سبزی، گھی) نصف قیمت پر ملنی چاہئے جو اس وقت خوراک کے معاملے میں عدم تحفظ کا شکار ہیں۔
چہارم، موجودہ حالات میں تجارتی خسارے کو کم کرنے کے لئے جو پابندیاں لگائی گئی ہیں، فوری طور پر تو ان کی ضرروت تھی مگر لمبے عرصے کے لئے ایسی پابندیاں مسئلے کا حل نہیں۔ دیرپا حل یہ ہے کہ برآمدات میں اضافہ کیا جائے۔ پاکستانی کی برآمدات اس قدر ہونی چاہئیں کہ وہ ان درآمدی اخراجات کا بوجھ برداشت کر سکے جو معاشی نمو کے لئے ضروری ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ ایک ایسا نالج انفراسٹرکچر بنایا جائے جس کے نتیجے میں ہماری برآمدات میں تنوع آ سکے، ہم ایسی جدید مشینی اور تکنیکی مصنوعات بر آمد کر سکیں یا خدمات فراہم کر سکیں جن پر بھاری منافع ملتا ہے۔ روایتی طرز کی برآمدات یا خدمات کے مقابلے پر،عالمی سطح پر ایسی مصنوعات یا خدمات کی مانگ ہے جن کی بنیاد جدید ٹیکنالوجی پر ہو۔
پنجم، چھوٹے پیمانے پر ایسے ہائی ٹیک الیکٹرانک، میٹلرجیکل اور متبادل توانائی کے کاروباری منصوبے شروع کرنے میں مدد دی جائے جس کے نتیجے میں ایک طرف تو ہمارے درآمدی اخراجات کم ہوں، دوسری جانب معاشی ترقی بھی ہو۔ چھوٹا زمیندارہ (پچیس ایکڑ سے کم) کل کاشت کاری کا 60 فیصد ہے جبکہ 94 فیصد کسان اس طرح کے کم رقبے پر کاشت کاری کر رہے ہیں۔ اس شعبے میں پاکستان کے پاس بے شمار مواقع ہیں کہ وہ دودوھ، دودھ کی مصنوعات اور گوشت بر آمد کر کے زر مبادلہ کما سکے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے سمال فارمر ڈویلپمنٹ کارپوریشن (ایس ایف ڈی سی) بنانے کی ضرورت ہے (اس ضمن میں یو این ڈی پی کے لئے لکھی گئی ہماری رپورٹ ملاحظہ کیجئے جس کا عنوان ہے: Inclusive and Sustainable Development)۔
ایسے چھوٹے چھوٹے سماجی منصوبے چھوٹے کسان چلا سکتے ہیں، اگر حکومت انہیں آسان شرائط پر قرضے دے اور ان منصوبوں کی نگرانی پر ایسے ماہرین مقرر ہوں جو دل سے ان کیا کامیابی پر یقین رکھتے ہوں۔ ایسے منصوبے چلانے والے کسانوں کو مندرجی ذیل سہولتیں فراہم کی جا سکتی ہیں۔ (۱) فریزر والی ویگنوں میں کسان کے گھر سے دودوھ وصول کیا جائے، اس کے علاوہ ریفریجریشن، پیکنگ اور اور برآمدات کی سہولت فراہم کی جائے (۲) برآمدات کے لئے دودھ کی مصنوعات کی پیداوار میں مدد دینا بھی شامل ہو (۳) لائیو سٹاک کو ترقی دینے کے لئے جدید طریقوں کی حوصلہ افزائی کی جائے، ساتھ ہی ساتھ گوشت کی پیکنگ اور برآمد کی سہولت بھی مہیا ہوں۔
چھوٹے کاشت کار کی جانب سے زیادہ قیمت والے پھل، سبزی اورپھول کی برآمدات کے لئے موجود بڑے امکان سے ایس ایف ڈی سی بھی فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ مندرجہ بالا پس منظر میں چھوٹے کاشت کاروں کے یہ منصوبے،جن کی سرپرستی ماہرین کر رہے ہوں، اپنے کلائنٹس کو مندرجہ ذیل سہولتیں فراہم کر سکتے ہیں: (۱) چھوٹے کسانوں کے لئے نئی ٹیکنالوجی تا کہ وہ ہل چلا سکیں اور ڈرپ ٹیکنالوجی تا کہ فصلوں کو پانی کی فراہمی کو جدید بنایا جا سکے (۲) ٹنل فارمنگ تا کہ کنٹرولڈ ماحول میں آف سیزن اعلیٰ درجے کی سبزیاں بھی پیدا کی جا سکیں (۳) ایسی کھادیں جو متعلقہ زمین کے لئے سود مند ہوں (۴) انفا رمیشن ٹیکنالوجی کی بنیاد پر ایسے پلیٹ فارم بنائے جائیں جہاں یہ معلومات دستیاب ہوں کہ بر آمدات کے لئے کونسی مصنوعات دستیاب ہیں، اسی طرح ہر کسان بارے یہ معلومات دستیاب ہوں کہ وہ جو فصل پیدا کرتا ہے یا اس کی پیکنگ اور سٹوریج کا معیار عالمی ضابطوں کے مطابق ہے۔
آخر میں ہم یہی رائے دیتے ہیں کہ اس طرح کے وسط مدتی اقدامات اٹھاتے ہوئے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ان اقدامات کا بوجھ عام انسان پر نہ پڑے جو پہلے سے پسا ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ترقی اور معاشی نمو کا ایسا راستہ اختیار کرنا ہو گا جس میں تمام لوگوں کی صلاحیت سے فائدہ اٹھایا جائے نہ کہ محدودے چند لوگوں کی صلاحیت کو ہی بروئے کار لایا جائے۔ یہ معاشی دیوالیہ پن معیشت کی ترقی کے ایک نئے سفر کا آغاز بھی بن سکتا ہے۔ ایک ایسی معیشت جو لوگوں کی معیشت ہو، لوگوں کے لئے ہو۔
بشکریہ: دی نیوز۔ ترجمہ: فاروق سلہریا