پاکستان


اسلام آباد میں حکومت ٹوٹتے ہی مظفر آباد سرکار کی کانپیں ٹانگ جاتی ہیں

پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں ’بظاہر‘جمہوری اور غیر جمہوری طریقوں سے حکومتیں تبدیل کئے جانے کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ ابتدائی حکومت کے قیام سے ہی حکومت پاکستان کی مداخلت اور مقامی اقتدار کو قابو میں رکھنے کیلئے اس طرح کی حکمت عملی ترتیب دی جاتی رہی ہے کہ مارشل لا کے ایک 10 سالہ دور کے علاوہ کوئی حکومت بھی اپنے آپ کو مکمل بااختیار قرار دے کر اپنی مدت مکمل نہیں کر سکی۔ کئی حکومتیں اپنی مدت پوری کرنے سے پہلے ہی گرا دی گئیں، یا پھر انہیں مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا جاتا رہا ہے۔

عمران حکومت کا خاتمہ : ایک مختلف نقطہ نظر

قبل از وقت انتخابات کا عمرانی مطالبہ اپنی جگہ مگر اس وقت ملکی حکمران طبقات کی اپنی ضرورت بنتی ہے کہ جنرل الیکشن جلدی ہو جائیں اس لیے غالب امکان ہے کہ جون کے مہینے یعنی بجٹ کے بعد الیکشن کی صورت بن سکتی ہے۔

نئے پاکستان سے پرانے پاکستان تک

طاقتور اداروں کی درمیانی پرتوں میں بھی عمران خان کی اچھی خاصی حمایت موجود ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ برسراقتدار دھڑا ابھی تک عمران خان کو نسبتاً فری ہینڈدینے پہ مجبور ہو رہا ہے۔ شاید وہ ایک بتدریج انداز میں عمران خان کو کارنر کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اس سارے عمل میں بھی یہ اہم ہے کہ نئی حکومت لوگوں کو کس حد تک ریلیف دے پاتی ہے۔ جس کا ان پر شدید دباؤ ہے۔ لیکن ان کے پاس آپشن بہت ہی محدود ہیں۔ ایک طرف عمران خان ہے جو اپنی زبان درازی میں ہر حد تک جا رہا ہے اور ان کے ہر عوام دشمن اقدام کو بھرپور کیش کروائے گا۔ دوسری طرف آئی ایم ایف ہے۔ نیچے سے عوام کا بھی دباؤ ہے۔

’زر خریدوں‘ کے جھرمٹ سے باہر جھانکا تو سوالات نے سیخ پا کر دیا

ترقی پسند رجحانات اور بالخصوص طالبعلموں اور نوجوانوں کو انتہا پسندانہ رجحانات کا راستہ روکنے کے ساتھ ساتھ حکومت کی فسطائیت پر مبنی پالیسیوں کا راستہ روکنے کیلئے عملی سیاست میں کردار ادا کرنا ہو گا۔

’مارچ میں بھی 77 افراد لاپتہ ہوئے‘

لاپتہ افراد کے حوالے سے قائم انکوائری کمیشن کی رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کے بعد دفن ہو گئی تھی۔ اب جب وہ سامنے آئی ہے تو اس کے وہ صفحات ہی صاف ہیں جن پر حل تجویز کیا گیا تھا۔ 2010ء میں یہ رپورٹ لکھنے کے بعد دل کا دورہ پڑنے سے جسٹس کمال منصور عالم کی موت ہو گئی تھی۔ ہمارا عدالت سے مطالبہ ہے کہ اس رپورٹ کا خفیہ حصہ پبلک کیا جائے۔

مولانا فضل الرحمان محسن داوڑ سے خوفزدہ کیوں؟

مولانا فضل الرحمان کی سیاست مذہب، پدر شاہی، قدامت پرستی اورطالبان کے سرعام حمایت پر مبنی ہے۔ دوسری طرف محسن داوڑ سیکولر سیاست کی نمائندگی کرتے ہیں۔ وہ باچا خان کی سیاست، انسان دوست روایات کی کھلم کھلا حمایت کرتے ہیں اور طالبان کے انتہائی مخالف اور ناقد ہیں۔

پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کا تعارف اور جدوجہد

اس وقت پاکستان کسان رابطہ کمیٹی بے زمین کسانوں، مزارعین، کھیت مزدوروں، ہاریوں، چھوٹے پیمانے کے کاشتکاروں اور زراعت سے متعلقہ دیگر افراد اور طبقات کا ملک گیر سطح پر نمائندہ پلیٹ فارم ہے۔ 2003ء میں چشتیاں کسان کانفرنس کے موقع پر رابطہ کمیٹی کاباقاعدہ قیام عمل میں لایا گیا۔ ”جہیڑا واوے اوہی کھاوے“ اور اپنی مدد آپ کے نعروں کے تحت ملک کے تمام استحصال زدہ کسانوں کے ہر قسم کے معاشی، سماجی اور سیاسی حقوق کے تحفظ کے لیے ملکی اور عالمی سطح پر آواز بلند کرنے کے ساتھ ساتھ پرامن جمہوری اور آئینی و قانونی جدوجہد کا طریقہ کار مسلسل اختیار کیا گیا۔ کمیٹی ارکان میں کسان ذاتی، علاقائی یامقامی تنظیموں اور کوآپریٹو سوسائٹی کی صورت میں موجود ہیں۔ تمام فیصلے ارکان کی باہمی مشاورت کے بعد اتفاقِ رائے یا کثرت رائے کی بنیاد پر کئے جاتے ہیں۔