پاکستان

ایک نہیں دو پاکستان: علی وزیر کیلئے بات دو قومی نظریہ سے بھی آگے نکل گئی

حارث قدیر

شیریں مزاری کے بعد ان کی بیٹی ایمان مزاری کی عبوری ضمانت بھی ایک ہزار روپے کے مچلکوں پر منظور کر لی گئی ہے۔ تاہم رکن قومی اسمبلی علی وزیر کیلئے انصاف کے مندروں میں انصاف فراہم کرنے کی سہولت تاحال میسر نہیں ہو سکی ہے۔

پاکستان میں حالیہ عرصہ میں رونما ہونے والے مختلف واقعات جہاں طبقاتی تضاد کو واضح کر رہے ہیں، وہیں طاقتور اور کمزور کیلئے قانون کی حرکت اور انصاف کی فراہمی کا فرق بھی واضح ہو رہا ہے۔ اس فرق کو دیکھنے کیلئے ایک مرتبہ پھر سابق فاٹا کے علاقے جنوبی وزیرستان سے منتخب ہونے والے رکن قومی اسمبلی علی وزیر کے حالات کو زیر بحث لانا ہو گا۔

علی وزیر کو ڈیڑھ سال قبل دسمبر 2020ء میں پشاور سے گرفتار کر کے کراچی منتقل کیا گیا تھا۔ ان پر کراچی میں ایک مقدمہ قائم کیا گیا تھا، جس میں ان پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے ایک جلسہ کے دوران تقریر کرتے ہوئے قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف اشتعال انگیز ی پھیلائی، غداری اور بغاوت کے مرتکب ہوئے۔ تاہم ابھی تک ان کی تقریر کا پشتو سے اردو میں ترجمہ مکمل نہیں ہو سکا اور اس الزام کی صحت سے متعلق کوئی فیصلہ بھی نہیں ہو سکا۔

علی وزیر کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا اور کراچی کی سنٹرل جیل میں قید کر دیا گیا۔ انسداد دہشت گردی عدالت سے درخواست ضمانت مسترد ہونے کے بعد علی وزیر کے وکلا نے سندھ ہائی کورٹ میں ضمانت کی درخواست دائر کی۔ کئی ماہ کی تاخیر کے بعد جب سماعت کا عمل مکمل ہوا تھا سندھ ہائی کورٹ کے معزز جج صاحبان نے فیصلہ سنانے میں پورے 3 ماہ کی تاخیر کی اور پھر درخواست ضمانت مسترد کر دی۔

یہاں یہ یاد رہے کہ 3 ماہ سے زیادہ کی تاخیر اس لئے نہیں کی جا سکی کیونکہ آخری حد 3 ماہ ہی مقرر تھی۔ یوں جتنا معزز عدالت العالیہ صوبہ سندھ کے بس میں تھا اتنا عرصہ علی وزیر کو جیل میں قید رکھنے اور سزا دیئے رکھنے کے احکامات پر عملدرآمد کیا گیا۔ بات یہی نہیں رکی، بلکہ جب سپریم کورٹ میں درخواست ضمانت دائر ہوئی تو پہلے بنچ تشکیل دیئے جانے کا کٹھن مرحلہ عبور کیا جانا تھا۔ جب بنچ تشکیل ہوا تو بنچ ٹوٹ گیا، پھر نیا بنچ تشکیل دیا گیا، پھر پرانے ہی بنچ نے سماعت شروع کر دی۔ تاہم سوشل میڈیا پر انصاف کا ایک تماشہ لگ جانے کے بعد عدالت عظمیٰ نے اپنا بھرم قائم رکھنے کیلئے علی وزیر کی درخواست ضمانت نومبر 2021ء کو منظور کی اور 4 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کروانے پر انہیں رہا کرنے کا حکم دیا گیا۔

تاہم رہائی پھر بھی ممکن نہ ہو سکی، کیونکہ سندھ حکومت نے ایک نئے مقدمہ میں گرفتاری ظاہر کر دی۔ اس کے بعد ایک نیا مقدمہ پھر ایک اور مقدمہ کھول کر علی وزیر کو 4 مقدمات میں ٹرائل پر رکھ دیا گیا۔ یوں علی وزیر کے جیل سے باہر نکلنے اور پارلیمان میں اپنے حلقہ اور اپنے طبقہ کے لوگوں کی نمائندگی کے حق سے محروم رکھنے کیلئے پورا ماحول بنا دیا گیا۔

دوسری طرف سابق حکمران جماعت تحریک انصاف کی سرکردہ رہنما شیریں مزاری ہیں۔ جنہیں بظاہر غریب مزارعوں کی ہزاروں ایکڑ اراضی ہڑپ کرنے کے ایک خاندانی کرپشن کے مقدمہ میں اسلام آباد پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ ناقدین اس گرفتاری کو فوج کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنائے جانے کا رد عمل قرار دے رہے تھے۔ تاہم ان کیلئے رات گئے عدالت العالیہ کے نہ صرف دروازے کھولے گئے بلکہ انکی حفاظتی ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم بھی دیا گیا۔ انہوں نے رہائی کے بعد گرفتاری کا الزام شہباز شریف حکومت پر دھرا، تاہم ان کی وکیل اور بیٹی ایمان مزاری نے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کو مورد الزام ٹھہرایا اور ان کا ایک دھواں دار ویڈیو بیان چند ہی لمحوں میں سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا۔

پاک فوج کی جانب سے ایمان مزاری کے خلاف بھی ایک مقدمہ درج کروایا گیا۔ جس میں فوج اور آرمی چیف کے خلاف تضحیک آمیز بیان کا ہی الزام عائد کیا گیا تھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ہی ایک ہزار روپے کے مچلکہ پر انکی عبوری ضمانت منظور کرتے ہوئے 9 جون تک سماعت ملتوی کر دی۔

یوں فوج کی قیادت کے خلاف مسلسل سوشل میڈیا پر بیان بازی کرنے والی شیریں مزاری کو بھی انصاف بصورت ضمانت میسر آ گیا۔ ویڈیو بیان میں اپنی ماں کی گرفتاری کا الزام آرمی چیف اور فوج پر عائد کرنے والی شیریں مزاری کی صاحبزادی ایمان مزاری کو بھی ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ تاہم انہیں خوفزدہ کرنے کیلئے گزشتہ رات بھی پولیس نفری ان کے گھر پر تعینات کئے جانے کی اطلاعات گردش کرتی رہی ہیں، امید ہے عدالت العالیہ اس بات کا بھی جلد نوٹس لے ہی لے گی۔ البتہ علی وزیر، جن کی ابھی تک تقریر کا ترجمہ بھی مکمل نہیں ہو سکا، ضمانت حاصل کرنے کیلئے ڈیڑھ سال سے انصاف کے مندروں کی راہ دیکھ رہے ہیں۔

انصاف کے دوہرے معیار، دو قومی نظریے پر کاربند رہنے اور مکڑے کے جالے کی مانند ہونے کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ شیریں مزاری نے رہا ہونے کے فوری بعد اپنے آپ کو بلوچ قرار دیا۔ نام سے بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ ان کا تعلق بلوچ قبیلے سے ہی ہے۔ تاہم جو سہولت شیریں مزاری اور ان کی بیٹی کو انصاف کی صورت میں میسر ہے وہ بلوچستان کے ہزاروں کی تعداد میں لاپتہ ہونے والے نوجوانوں کو میسر نہیں ہے۔ غریب بلوچ خاتون شاعرہ ہو، یا ایم فل سکالر طالبعلم، جبری گمشدگی کا شکار ہونا یا مسخ شدہ لاش کی صورت اپنے گھر لوٹنا انکا مقدر بنا دیا گیا ہے۔ انصاف کی فراہمی کی یہ سہولت مگر انہیں بھی میسر نہیں ہے۔

لاپتہ افراد کیس کی سماعتوں کا سلسلہ چل رہا ہے، لاپتہ افراد کیلئے ایک کمیشن بھی سماعتیں کر کر کے تھک چکا ہے۔ ملک کے تمام ہی بڑے شہروں میں کسی نہ کسی بلوچ طالبعلم مرد یا خاتون کی بازیابی کیلئے ہر روز کوئی نہ کوئی احتجاجی کیمپ، مارچ اور بھوک ہڑتال کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔ تاہم انصاف کی سہولت انہیں اس لئے میسر نہیں کیونکہ وہ اور شیریں مزاری ایک ہی قوم سے تعلق رکھنے کے باوجود دو الگ الگ قوموں کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ اسی طرح انصاف کی فراہمی علی وزیر کو بھی اس لئے میسر نہیں ہو سکتی کیونکہ علی وزیر اور شیریں مزاری بھی ایک ہی ریاست کے باشندے ہونے کے باوجود دو الگ الگ طبقات کے نمائندے ہیں۔

محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کو انصاف، روزگار، زندگی اور شناخت کے حصول کیلئے اپنے طبقاتی کردار اور شناخت کی بنیاد پریکجا ہو کر اس طبقاتی تفریق اور عدم مساوات پر مبنی نظام کا خاتمہ کرنے کیلئے آگے بڑھنا ہو گا۔ یہی وہ طریقہ کار ہے جس کے ذریعے نہ صرف قومی شناخت اور حق خود ارادیت کا حصول ممکن ہے بلکہ طبقاتی تفریق اور عدم مساوات کا خاتمہ کرتے ہوئے ہر سطح پر انصاف، روزگار دیگر سہولیات سے مزئین حقیقی زندگی کی تعمیر کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔