پاکستان

جموں کشمیر: مرد تو ہجرت کر جاتے ہیں، تعلیم یافتہ خواتین کہاں جائیں؟

حارث قدیر

پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں روزگار کا سب سے بڑا ذریعہ بیرون ملک ہجرتوں پر مبنی ہے۔ ہر نوجوان، خواہ تعلیم یافتہ ہو، یا نہ ہو، پاسپورٹ بن جانے کی عمر میں پہنچتے ہی بیرون ملک جانے کے راستے تلاش کرنا شروع کر دیتا ہے۔ روزگار کیلئے بیرون ملک جانے کا یہ سلسلہ اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کیلئے زندگی کا ایک قیمتی حصہ تیاگنا پڑتا ہے۔ یہ عمل اپنے خاندان کے چند افراد کی ضروریات کی تکمیل کیلئے کسی بھی نوعیت کی خودکشی سے کسی طور کم نہیں ہوتا۔ فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ ایک گوشت پوست کاسانسیں لیتا پتلا خاندان سے کہیں دور کسی صحرا میں پل پل مر رہا ہوتا ہے۔

دنیا بھر میں مسلمہ انسانی حقوق میں انسان کے خاندان کیساتھ رہنے کا حق بھی اسی طرح سے مسلمہ ہے، جیسے اسکے زندہ رہنے کا حق ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں سرمایہ دارانہ نظام کے اندر بھی ان حقوق کا کسی حد تک تحفظ موجود ہے۔ تاہم ترقی پذیر خطوں کے باسیوں کو اس حق کو حاصل کرنے کیلئے دہائیوں تک روح اور احساس کو شکستہ کرنا پڑتا ہے۔

بیرون ملک بسلسلہ روزگار ہجرت میں گلف ممالک سب سے آسان ہدف ہوتے ہیں۔ تاہم وہاں بیرون ملک سے جانے والا محنت کش اپنی تمام تر جوانی سرمایہ داروں کے منافعوں کی ہوس کیلئے جھونکنے کے باوجود اپنی رہائش کیلئے ایک باعزت کمرہ، خوراک کیلئے صحت بخش حالات اور یہاں تک کہ غسل خانے اور پاخانے کے استعمال کیلئے انسانی حالات حاصل کرنے کے عوض اپنے دیس میں موجود اپنے خاندان کی سانسیں قربان کرنا ناگزیر ٹھہرتا ہے۔ یہ حالات محنت کشوں کو تین تین منزلہ چارپائیوں پرمشتمل سیکڑوں کی رہائش کیلئے قائم غیرانسانی حالات سے مزئین رہائشی کیمپوں میں رہنے پر مجبور کرتے ہیں۔ جہاں اجتماعی ہانڈی (مشترکہ کچن)، چند غسل خانوں میں اپنی باری کے انتظار کیلئے صبح 4 بجے اٹھ کر قطار میں لگنے سمیت اپنی ذاتی زندگی و پرائیویسی اور سکون قربان کرنا پڑتا ہے۔ رات کی نیند حرام کرنا پڑتی ہے اور دو وقت کے کھانے پر انحصار کرتے ہوئے دن بھر پیٹ پر پتھر باندھنا پڑتے ہیں، کیونکہ کام کے دوران کیمپ میں کھانا تیار کرنے کیلئے رہائشی کیمپ جانے کی اجازت میسر نہیں ہوتی۔ ان تمام تر مشکلات کا شکار رہ کر اس قدر رقم بچائی جا سکتی ہے، جس سے ہزاروں میل دور اپنے خاندان کی خوراک، رہائش، تعلیم و صحت کیلئے خرچہ بھیجا جا سکے۔

یہی وجہ ہے کہ گلف کے ان غیر انسانی حالات کو روزگار کیلئے قبول کرنے کی بجائے نوجوان یورپ اور امریکہ پہنچنے کی کوشش اولین ترجیح پر کرتے ہیں۔ اس سلسلہ میں تعلیمی یا سیاحتی ویزہ حاصل کرنے کی کوششوں سے لیکر غیر قانونی طریقوں سے یورپ یا امریکہ پہنچنے کیلئے اپنی خاندان کی تمام تر جمع پونجی جھونک دی جاتی ہے۔ براہ راست ویزہ لگنے کی صورت میں وہاں کئی سال کی ذلالت کے بعد کسی حد تک انسانی زندگی کے حصول میں کامیابی حاصل ہو جاتی ہے۔ تاہم غیر قانونی سفر کا طریقہ اختیار کرنے پر کئی ملکوں کی سرحدیں پار کرتے ہوئے ان دیکھی گولیوں کا شکار بننے، سمندری، پہاڑی، برفانی اور صحرائی راستوں میں بھوک، پیاس، حادثات وغیرہ میں جان گنوا دینے جیسے خطرات سے گزر کے کئی کئی ماہ مختلف ملکوں کی جیلوں میں قید رہتے ہوئے انسانی بنیادوں پر ریلیف حاصل کرنے کے مقدمات میں مہینوں سے سالوں تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔ خاندان سے دوبارہ ملنے کیلئے قسمت اچھی ہونے پر کم از کم ایک دہائی کا انتظار یہاں بھی کرنا پڑتا ہے۔

40 سے 50 لاکھ کے درمیان آبادی والے اس خطے سے بیرون ملک روزگارکیلئے ہجرت کرنے والے یہی 15 لاکھ کے لگ بھگ پیر و جوان غیر ملکی زرمبادلہ کی ایک بڑی تعداد بھیجتے ہیں جو درآمدی معیشت میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ تاہم اس زرمبادلہ کااس خطے کی سماجی ترقی میں کوئی کردار وضح کرنے کیلئے اقدامات بھی نہیں کئے جا سکے ہیں۔ اس زرمبادلہ کی وجہ سے ایک صارفین کی معیشت چلتی ہے، جس پر بالواسطہ ٹیکسیشن کا ایک بھاری بھرکم بوجھ عائد کر کے مقامی حکمران اشرافیہ کی عیاشیوں کا سامان کیا جاتا ہے۔

141 ارب روپے کے سالانہ بجٹ کے حامل اس خطے میں ترقیاتی بجٹ محض 28 ارب روپے ہونے کے باوجود یہ خطہ محض 86 ہزار افراد کو سرکاری محکمہ جات میں روزگار فراہم کرنے کے علاوہ روزگار کی فراہمی، سماجی و معاشی ترقی کیلئے کوئی بھی فریضہ سرانجام دینے سے قاصر ہے۔ نو آبادیاتی طرز پر انتخابات میں مرکزی حکومت کی مداخلت سے کامیاب ہونے والے ممبران اسمبلی خود سے محض اتنی قانون سازی کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں، جس میں انکی اپنی تنخواہوں و مراعات میں اضافے کا عنصر شامل ہو۔ حالیہ قانون ساز اسمبلی اجلاس میں ایک مرتبہ پھر ممبران اسمبلی، وزرا حکومت اور صدر، وزیر اعظم کی تنخواہوں اور مراعات میں 2 سے 3 سو فیصد تک کے اضافے کے بل پیش کیا گیا ہے۔

فرینکلن اینڈ مارشل کالج امریکہ میں اکنامکس کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر دانش نے اپنی ایک ساتھی کے ہمراہ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں 1997ء سے 2018ء کی مدت کے دوران عوامی شعبے میں حکومتی اخراجات کا ایک تنقیدی جائزہ پیش کیا ہے۔ جس کے مطابق پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں لیبر فورس میں شرکت کی شرح 22.9 فیصد ہے، جو پاکستان کی قومی اوسط سے تقریباً نصف ہے۔ پاکستان میں خواتین کی لیبر فورس میں شرکت کی شرح پورے جنوب ایشیا میں سب سے کم ہے، لیکن پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیرمیں یہ شرح تشویشناک حد تک پاکستان کی اوسط 23 فیصد کے مقابلے میں صرف 7.9 فیصد ہے۔

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں خواتین کی تعلیم کی شرح پورے پاکستان میں سب سے بلند ہے اور اعلیٰ تعلیم میں اس خطہ کی خواتین مردوں سے بہت زیادہ آگے ہیں۔ تاہم حکومت خواتین کے روزگار کے حوالے سے کوئی منصوبہ بندی کرنے میں دلچسپی لینے سے ہی گریزاں ہے۔ مرد نوجوان بیرون ملک ہجرت اختیار کرتے ہیں، لیکن خواتین کیلئے یہ سہولت بھی میسر نہیں ہے۔

اسی طرح اس خطے میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بیروزگاری کی شرح 11 فیصد ظاہر کی گئی ہے، جو پاکستان کی قومی اوسط سے دوگنا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار ہی کے مطابق خواتین میں بیروزگاری کی شرح 23 فیصد ہے۔ 15 سے 29 سال کی عمر کے نوجوانوں میں بیروزگاری کی یہ شرح 27 فیصد ہے۔

زراعت (بشمول جنگل اور ماہی گیری) کے شعبہ کا کل روزگار میں سب سے زیادہ حصہ ہے، یہ شعبہ اس خطہ میں کل روزگار کا 19.42 فیصد پیدا کرتا ہے۔ تعمیرات کا شعبہ دوسرے نمبر پر 19.1 فیصد روزگار پیدا کرتا ہے، تھوک و پرچون تجارت سے 19.35 فیصد، مینوفیکچرنگ سے 8.16 فیصد، ٹرانسپورٹ، سٹوریج، فوڈ سروس سے 6.75 فیصد، فنانشل انشورنس سے 1 فیصد جبکہ دیگر متفرق شعبوں سے 2 فیصد روزگار پیدا ہوتا ہے۔

زراعت کا شعبہ سب سے زیادہ روزگار پیدا کررہا ہے لیکن اس شعبہ کی ترقی کیلئے کسی طرح کی ریاستی یا نجی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔ حالانکہ باغبانی، چاول، مکئی، گندم سمیت مختلف زرعی اجناس کی پیداوار کیلئے اس خطے میں بہت زیادہ صلاحیت موجود ہے۔ سپلائی چین کا موثر نیٹ ورک، سٹوریج کی سہولیات کی عدم موجودگی بھی اس شعبہ کی ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ تاہم سرکاری اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو 1997ء سے 2018ء کے دوران دیہی ترقیاتی بجٹ کے حصہ میں مسلسل کمی ہوئی ہے اور یہ کل بجٹ کا محض 2.6 فیصد ہے۔

ایک لمبے عرصہ سے سیاحت کے شعبہ کو روزگار اور ترقی کیلئے حکمرانوں کی بیان بازی میں خاصی اہمیت حاصل ہے۔ اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ اس خطے میں سیاحت کے شعبہ کو ترقی دینے کیلئے بہت بڑی صلاحیت موجود ہے۔ تاہم گزشتہ 20 سالوں کے دوران بجٹ میں سیاحت کی ترقی کیلئے مختص رقم حکمرانوں کے دعوؤں اور عمل میں فرق کو واضح کر رہی ہے۔ گزشتہ 20 سال کے دوران سیاحت کے شعبہ کیلئے بجٹ کا صرف 0.27 فیصد ہی مختص کیا گیا ہے۔ یوں سیاحت کے ذریعے سے اس خطے کی تقدیر تبدیل کرنے کے حکمرانوں کے دعوے بھی کشمیر کی آزادی کیلئے آخری سانس تک لڑنے والے دعوؤں کی طرح مکمل طور پر کھوکھلے ہی ہیں۔

عالمی سطح پر معاشی و سیاسی بحران، سپلائی چین کے متاثر ہونے اور افراط زر میں مسلسل اضافے کے ساتھ روزگار کے مواقع بھی ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔ 2008ء کے بحران اور بعد ازاں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ سے اس بحران میں آنے والی شدت کی وجہ سے عرب ممالک کی معیشتیں بھی بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ ان خطوں میں روزگار کے مواقع بتدریج ختم ہو رہے ہیں۔ گزشتہ 4 سالوں کے دوران جہاں ہجرتوں میں بہت زیادہ تیزی دیکھنے میں آئی ہے، وہیں ایک بہت بڑی تعداد روزگار ختم ہونے کی وجہ سے واپس گھروں کو بھی لوٹی ہے۔ بیرون ملک جانے والوں کے اعداد و شمار تو سرکاری سطح پر فخر سے بتائے جاتے ہیں، لیکن روزگار سے محروم ہو کر واپس آنے والوں کا ذکر کسی اعداد و شمار میں نہیں کیا جاتا ہے۔ اس کیفیت میں بیرون ملک روزگار پر انحصار مستقبل میں ناممکن ہوتا نظر آ رہا ہے۔

حکمران طبقات اس خطے میں روزگار، تعلیم، علاج اور انفراسٹرکچر کی تعمیر کیلئے منصوبہ بندی کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ نہ ہی اس نظام میں اب وہ گنجائش باقی رہ گئی ہے کہ مقامی سطح پر روزگار کے حوالے سے جامع منصوبہ بندی کی جا سکے۔ اس نظام کے اندر رہتے ہوئے بیرونی سرمایہ کاری کو ہی معاشی ترقی کا واحد نسخہ کیمیا گردانا جاتا ہے۔ تاہم اس خطے کی متنازعہ حیثیت اور نوآبادیاتی اقتدار اعلیٰ بیرونی سرمایہ کاری کے کردار کو مزید تباہ کن بنادیتا ہے۔ ہائیڈل پاور منصوبوں پر ہونے والی بیرونی سرمایہ کاری سے اس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر دانش نے تین سطحی معاشی حکمت عملی کو اشد ضروری قرار دیا ہے۔ زراعت اور چھوٹی گھریلو صنعتوں پر عوامی اخراجات، سیاحت کیلئے انفراسٹرکچر کی تعمیر اور ماحولیاتی آلودگی سے بچنے کیلئے مارکیٹ کی قوتوں پر سیاحت کے انحصار کی بجائے ریاستی کنٹرول میں رکھتے ہوئے ترقی دینے کی تجویز پیش کی ہے۔ تاہم اصل مسئلہ ہی اس ساری سرمایہ کاری کیلئے درکار سرمائے کا حصول ہے۔ مقامی اقتدار حکمران اشرافیہ اور نوکر شاہی کو لوٹ مارکی سہولت فراہم کرنے کیلئے ہی ڈیزائن کیا گیا ہے۔ جب تک اس خطے کی نوآبادیاتی حیثیت کو ختم اور سرمایہ دارانہ پیداواری رشتوں کا خاتمہ نہیں کیا جاتا، تب تک عوامی فلاح کیلئے اخراجات کی منصوبہ بندی کرنا ممکن نہیں ہے۔

جموں کشمیر کے نوجوانوں اور محنت کشوں کو سامراجی قبضے سے نجات کی جدوجہد کو طبقاتی بنیادوں پر استوار کرتے ہوئے اس نظام کے خاتمے کی علاقائی اور عالمی جدوجہد کے ساتھ جوڑنا ہو گا۔ اب نسل انسانی کیلئے سوشلزم ہی راہ نجات ہے۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔