دنیا میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے امریکہ سمیت تمام سپرپاورز نے ’لابنگ‘ پر بے پناہ اخرات کر کے اپنے ہمدرد پیدا کیے۔ اس ضمن میں چینی قیادت نے پیشگی ہی مشہور زمانہ اعلان کر رکھا ہے کہ وہ کسی کو مچھلی نہیں دیتے البتہ مچھلی پکڑنے کا ہنر ضرور سیکھا سکتے ہیں۔چین کا حسن زن ہے یا اسے شاید پتہ ہی نہیں کہ صرف ہمارے پاکستانی بھائی مچھلی پکڑنے کے 101 ہنر پہلے سے ہی جانتے ہیں۔
دنیا
کیا طالبان سد ھر گئے ہیں؟
بدلے ہوئے طالبان یہ تاثر دے رہے ہیں کہ اس بار امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی توجیہہ و تشریح اتنی سخت نہیں ہو گی۔ کیا عام طالبان بھی اس سے متفق ہوں گے؟ ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ہاں البتہ اس جنگجو طالبان کے رہنما، جو دہائیوں سے غیر ملکی امداد اور بھتوں پر گزارا کر رہے تھے، خوب سمجھتے ہیں کہ معاشی ضرورتیں تبدیلی کا تقاضہ کر رہی ہیں۔
افغانستان کا بیڑا کس نے غرق کیا؟
اگر افغانستان کو کبھی ایک جدید ملک بننا ہے تو اس پر ایک ایسے آئین کے تحت حکمرانی ہونی چاہیے جس میں اسلامی بنیادی اقدار کے ساتھ اظہار رائے، انتخابات، طاقت کی تقسیم اور انسانی حقوق کی آزادی ہو۔ جن وحشی لوگوں نے زبردستی اقتدار پر قبضہ کیا ہے وہ ملک کو ایک تباہی سے دوسری تباہی کی طرف لے جائیں گے۔ دسمبر 2014 ء میں آرمی پبلک سکول میں بچوں کو ذبح کرنے والے پاکستانی طالبان اور افغان طالبان نظریاتی بھائی ہیں۔ ایک کابل پر قبضہ کرنا چاہتا ہے (اور ممکنہ طور پر کر بھی لے گا) جبکہ دوسرا اسلام آباد پر نظریں جمائے بیٹھا ہے مگر ان کی دہشت گردانہ کارروائیاں بھی جاری رہیں گی۔ طالبان کے کابل پر دوبارہ قبضے کی بجائے افغانستان میں آئین پر مبنی جمہوریت ہی پاکستان کے طویل مدتی مفادات کیلئے مفید ثابت ہو گی۔
قیام امن کیلئے افغانستان کو 10 سال تک اقوام متحدہ کے حوالے کیا جائے
روس اور چین جو افغانستان سے امریکہ کا انخلا چاہتے تھے، ہرگز نہ چاہیں گے کہ کابل میں ایک ایسی حکومت قائم ہو جو چین میں ایغور اور چیچنیا میں علیحدگی پسند مسلمان قوتوں کے ساتھ ہمدردی رکھتی ہو (افغانستان کے وسط ایشیائی ہمسائے بھی اپنے بارڈر پر امن کے خواہاں ہیں مگر وہ روس اور چین کی مرضی کے خلاف کوئی کردار ادا نہیں کریں گے اور عقلمند ریاستوں کی طرح انہوں نے افغانستان میں مداخلت سے گریز ہی کیا ہے)۔
سیٹھی صاحب! باقی افغانوں کے پاس بھی وقت ہے گھڑیاں نہیں
خانہ جنگی کتنی طویل ہو گی، اس کا نتیجہ کیا نکلے گا، ابھی سے کچھ کہنا ممکن نہیں۔
افغانستان میں ایک نیا المیہ جنم لے رہا ہے: اشرف غنی
افغان حکومت نے بھی تصدیق کی ہے کہ انہوں نے جنگی حکمت عملی کے تحت کچھ علاقوں سے سکورٹی فورس کو واپس بلا لیا ہے لیکن صورت حال کی تفصیلات ابھی تک سامنے نہیں آئی ہیں۔
خدا حافظ بیبی: ”نیتن یاہو کی کامیابیاں اسرائیل کا خسارہ تھیں“
اگرچہ یہ سیاسی جماعتیں مختلف انداز فکر کی حامل ہیں، اسرائیل کوآمرانہ جمہوریت کی سیاست سے نکال کر ایک نئے دور میں داخل کرنا ان کے اتحاد کا مرکزی نکتہ ہے۔ ملک میں پہلی بار ایک عرب پارٹی کی اقتدا رمیں شمولیت بھی ایک اہم پیش رفت ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ یہ اتحاد کہاں تک کامیاب رہتا ہے۔
فلسطین پر اسرائیل کا خوفناک قبضہ
فلسطینیوں کو طویل عرصے سے کہا جا رہا ہے کہ اگر امریکی حکومت کے حمایت یافتہ اسرائیلی زندگی کو ناقابل رہائش بنانے میں کامیاب ہو جائیں تو مزید کچھ دہائیوں میں فلسطین کی یاد اور فلسطین کی خواہش ختم ہو جائے گی، لیکن معاملہ ایسا نہیں ہے۔ مظاہروں میں نکلے ہوئے نوجوانوں اور خواتین کو دیکھ کر یہ بات واضح ہے کہ 1948ء کے ’نقبہ‘ کے بعد یہ چوتھی نسل سڑکوں پر آ گئی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ مزاحمت نہ کرنے کی وجہ سے ان کے وجود کو خطرہ ہے۔
اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق ہے تو فلسطین کو کیوں نہیں؟
اگر امریکہ عالمی سطح پر انسانی حقوق کے بارے میں ایک قابل اعتماد آواز بننے جارہا ہے تو، ہمیں انسانی حقوق کے بین الاقوامی معیار کو مستقل طور پر برقرار رکھنا چاہئے، حتیٰ کہ جب یہ سیاسی طور پر مشکل ہی کیوں نہ ہو۔
عمران خان کا دورہ سعودی عرب، معاہدہ ابراہیم اور کشمیر
کشمیر کے تنازع کے حل کے لیے دونوں ملکوں کو درمیانی راستہ اپنانا ہو گا۔