دنیا


یکساں قومی نصاب والو: افغانستان سے کچھ سیکھو!

پاکستان کے رہنماؤں (بالخصوص وزیر اعظم اور ان کے وزیر تعلیم) کو پاکستان کے تعلیمی نظام کو مزید تباہ کرنے سے پہلے افغانستان کے ماڈل کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ یکساں قومی نصاب کے نام پر آنے والی تبدیلی سے تعلیمی عدم مساوات تو برقرار ر ہے گی مگر معیارِ تعلیم مزید گر جائے گا۔ جدید دنیا میں پاکستان کی شراکت ختم ہو جائے گی لیکن ہمارے قومی رہنما صرف احکامات دیتے ہیں۔ وہ سوچتے، سنتے یا پڑھتے نہیں۔ بیس سال بعد پاکستانی پوچھیں گے: ان لوگوں نے کیا میراث چھوڑی ہے؟

سوشلسٹ صیہونیت کے خلاف کیوں ہیں؟

ہم سمجھتے ہیں کہ اسرائیلی اور علاقائی سرمایہ داری سے جڑے سیاسی صیہونیت کے جبر اور نسل پرستی کے ریاستی ڈھانچے کو توڑنے کے لیے ایک سوشلسٹ تبدیلی کی ضرورت ہوگی جو کہ عرب فلسطینیوں، یہودی اسرائیلیوں اور اقلیتی برادریوں کے لیے ظلم سے نجات اور تاریخی فلسطین میں قومی مساوات، جمہوریت اور آزادی کا ضامن ہو گی۔ ہم ایسا کوئی تفصیلی خاکہ یا ”بلیو پرنٹ“ پیش نہیں کرتے جو یہ بتائے کہ لوگ آزادانہ طور پر اپنا مستقبل کیسے بنائیں گے۔

فحاشی کی روک تھام کیلئے طالبان افغان نان اور کباب پر بھی پابندی لگا رہے ہیں

طالبان کا بنیادی مقصد افغان خواتین کو نشانہ بنانا ہے، وہ خواتین کیخلاف سخت قوانین متعارف کروا رہے ہیں، وہ انہیں معاشرے سے پوشیدہ کرنا چاہتے ہیں، انہیں بے رنگ کرنا چاہتے ہیں، وہ خواتین کو سماجی، تعلیمی اور معاشی طور پر سزا دے رہے ہیں لیکن افغان خواتین ان قرون وسطیٰ کی طاقتوں کے خلاف سخت طریقے سے لڑ رہی ہیں اور ان کے غیر انسانی حالات کے سامنے نہیں جھکیں گی۔

افغانستان سے امریکی انخلا: کیا جموں کشمیر پھر سے اکھاڑا بننے جا رہا ہے؟

جموں کشمیر پر فوجی قبضے اور جبر کے سائے تلے پلنے والی غربت، لا علاجی، جہالت اور معاشی و سماجی عدم استحکام کے خلاف جدوجہد کے راستے میں اپنا سب کچھ کھو دینے والے کشمیریوں کی نئی نسل جوان ہو رہی ہے۔ ماضی کے تجربات سے سبق بھی سیکھ رہی ہے اور ترقی پسند نظریات سے روشناس بھی ہو رہی ہے۔ انقلابی نظریات کی ماضی کی تاریخ پھر سے دہرائے جانے کا وقت قریب تر ہے۔ تمام تر نفرت اور حقارت کو مرتکز کرتے ہوئے انقلابی نظریات کا دامن تھامنے والے نوجوانوں کی پکار پورے برصغیر کے نوجوانوں اور محنت کشوں کو جھنجھوڑنے کی صلاحیت اور اہلیت کی حامل ہو گی۔ محنت کش طبقے کی اجتماعی طاقت کی بنیاد پر اس خطے سے سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ اور سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ایک رضاکارانہ فیڈریشن کا قیام ہی خطے کی محکوم قومیتوں اور محروم طبقات کی معاشی، سیاسی اور سماجی آزادیوں کا ضامن ہو گا۔

خواتین کیلئے افغان کمیونسٹوں کا دور کہیں بہتر تھا: امریکہ مگرمچھ کے آنسو نہ بہائے

افغانستان میں طالبان کے دوبارہ اقتدار پر قبضہ کے بعد سے امریکہ کی پوری سیاسی اشرافیہ افغان خواتین کے تاریک مستقبل کے غم میں رنج والم کی تصویر بنی بیٹھی دکھائی دیتی ہے۔ یہ نظارہ آج سے بیس برس قبل کی صورتحال سے بڑی مماثلت رکھتا ہے جب گیارہ ستمبر کو القاعدہ کی جانب سے ہونے والے حملوں کے جواب میں امریکہ نے القاعدہ کو فوری ختم کرنے اور افغان خواتین کو طالبان کے ظلم و اِستبداد سے آزاد کرانے کے مقاصد کو افغانستان پر لشکر کشی کے دو کلیدی محرکات کے طور پر پیش کیا تھا۔

انڈیا: سامراج کی نظر میں، شکاری یا شکار؟

آج کل دنیا اور خاص طور پر پاکستان میں یہ تاثر خاصا مضبوط ہے کہ انڈیا اور سامراج یعنی امریکہ باہم بہت زیادہ شیر و شکرہیں۔ انڈین سیاسی قیادت نے تو اندرون ملک اپنے عوام کو کامیابی سے اسطرح کا تاثر دے رکھا ہے کہ امریکہ اپنے ملکی اور عالمی اہم فیصلے بھی انڈین قیادت سے پوچھ کر کرتا ہے۔

طالبان قبضے کا پہلا مہینہ: ’افغان تنہائی کے سو سال‘

افغان آبادی کو ملک کے مختلف حصوں میں اپنے گھروں سے زبردستی بے دخلی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور کابل میں اندرونی طور پر بے گھر افراد اور خواتین اپنے تقریباً تمام ہی حقوق سے محروم ہو تی جا رہی ہیں، افغانستان اب شہ سرخیوں میں بھی نہیں رہا۔ ایک مہینے میں ہی افغانوں کو ان کے دکھوں کے لیے تنہا چھوڑ دیا گیا ہے۔

ناروے: الیکشن میں بائیں بازو کی زبردست کامیابی، 8 کمیونسٹ بھی کامیاب

پیر کو ہونے والے انتخابات میں بائیں بازو کے اتحاد نے زبردست کامیابی حاصل کر کے دائیں بازو کی آٹھ سالہ حکومت کا خاتمہ کر دیا ہے۔ عنقریب جرمنی میں بھی انتخابات ہونے والے ہیں۔ وہاں بھی توقع کی جا رہی ہے کہ لیفٹ گرین جماعتیں کامیابی حاصل کر سکتی ہیں۔ ان انتخابات کی وجہ سے یورپ میں یہ بحث جنم لے چکی ہے کہ کیا یورپ بائیں طرف مڑ رہا ہے۔ اس کا جواب تو وقت ہی دے گا فی الحال بات ناروے تک محدود رکھتے ہیں جہاں بائیں بازو کے اتحاد: لیبر پارٹی (یعنی سوشل ڈیموکریٹس)، لیفٹ سوشلسٹ پارٹی اور سنٹر پارٹی نے 89 نشستیں جیت کر سادہ اکثریت ہی حاصل نہیں کی بلکہ چند سال قبل بننے والی کیمونسٹ جماعت ’ریڈ‘ (سرخ) نے بھی 8 نشستیں حاصل کی ہیں۔

افغانستان کو ’امپائرز کا قبرستان‘ کہنا امریکی شکست کا بوجھ افغان عوام پر لادنا ہے

یہ ضروری ہے کہ ایک آسان جواب تلاش کرنے کی کوشش سے بچا جائے اور یہ جا نا جائے کہ آخر ہم اس انجام تک کیسے پہنچے اور ساتھ ہی اسکے ذمہ داروں کا محاسبہ کرنا چاہیے۔ افغانستان میں امریکی ناکامی کی یقینا وجوہات ہیں اوراس بات پر بھی کوئی شبہ نہیں کہ آنے والے برسوں تک ان وجوہات پر بحث کا سلسلہ جاری رہے گا۔ تاہم، جیسا کہ تاریخ واضح کرتی ہے، افغانستان ”سلطنتوں کا قبرستان“ کسی بھی طور پر ان وجوہات میں شامل نہیں ہے۔