ناصر اقبال
یہ غالباً 1987/88ء کی بات ہو گی ابھی سوویت یونین کے تابوت میں ایک آدھ کیل ہی کی گنجائش باقی تھی، افغان جہاد اختتام پذیر تھا، سوویت امریکہ سرد جنگ تقریباً ختم ہونے کو تھی، بینظیر بھٹو پاکستان تشریف لا چکی تھیں، ضیا حکومت ڈگمگا رہی تھی، امریکہ افغانستان جہاد میں فتح کے شادیانے بجا کر نیو ورلڈ آرڈر کی تیاریوں میں مصروف تھا۔ دنیا میں بڑی بڑی سیاسی تبدیلیاں متوقع تھیں۔
اس عالمی کش مکش کے دوران ہی پاکستان اور شاید دنیا بھر میں سرد جنگ سے مستفید افراد اور ممالک نے مستقبل میں امریکہ اور چین کے درمیان برپا ہونے والی سرد جنگ کے خواب دیکھنا شروع کر دیئے۔ خواہش اور نیت شاید یہی ہو گی کہ کولڈ وار چونکہ ڈالر وں میں دیہاڑیوں کا سبب بنتی ہے اس لیے اگلی جنگ بھی یقینا باعث ’برکت‘ رہے گی۔
حالانکہ اس سمے چین کے متعلق اسطرح کی بات سوچی بھی نہیں جاسکتی تھی جس وقت چین کی کل برآمدات محض کپڑے سینے والی سوئی، تالے، سائیکل اور غیرضروری بالوں کی صفائی کے لیے استعمال ہونے والی سیفٹی پر مشتمل تھیں۔ اس میں کوئی شک والی بات نہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ چین نے ہر شعبہ ہائے زندگی میں بے پناہ ترقی کی۔ زرعی اور صنعتی ترقی سے 30 کروڑ چینی باشندوں کو خط غربت سے نکالنے، اپنی سرحدوں میں وسعت، فوجی قوت میں اضافے کے ساتھ ساتھ اپنے عالمی تجارتی اثر و نفوس میں اضافہ کرنے کے اقدامات میں بھی مصروف عمل ہے، چونکہ پاکستان پاک چین اقتصادی راہداری جیسے عظیم منصوبے کاحصہ ہے اس لیے ملکی میڈیا میں چین خاصا زیادہ خبروں میں رہتا ہے۔
حالیہ چینی پیش قدمی اور سقوط کابل کے پیش نظر ناصرف سر د جنگ کے ’مستفیدین‘ کو اپنا ڈالروں بھرا خواب سچ ہوتا نظر آ رہا ہے بلکہ ہمارے کچھ کامریڈز نے بھی دیکھا دیکھی میں چین کو سوویت یونین کے متبادل کے طور پر دیکھنا شروع کر دیا ہے۔ ہماری ملکی میڈیا نے خیرسگالی کے طور پر چین کے ’بلندی مقامات‘ کے باقاعدہ گیت شاید مفت ہی میں گانے شروع کر دیے ہیں۔ جماعت اسلامی سے متاثرہ میڈیا اینکرز بار ہا امریکہ اور چین کے مابین ناصرف کولڈ وار کا آغاز کرا چکے ہیں بلکہ چینی سمندروں میں امریکہ چین کے درمیان ہونے والی فوجی جھڑپیں بھی رپورٹ کر چکے ہیں۔ یاد رہے کہ دنیا میں کوہ ہمالیہ سے بلند، بحیرۂ عرب یا بحر ہند سے گہری اور شہد سے میٹھی کوئی چیز ہوا ہی نہیں کرتی۔
یہاں دو سوال ابھرتے ہیں ایک یہ کہ چین سپر پاور بن چکا ہے یا بننے جا رہا ہے اور دوسرا امریکہ سے جنگ یا سرد جنگ کے کیا امکانات ہیں۔ اس کے لیے ہم پہلے تایخ کی مختلف سپر پاورز کا عمومی جائزہ اور پھر ماضی قریب کی سپر پاور یعنی سوویت یونین اور حالیہ سپرپاور امریکہ کے مثبت پہلوؤں یا وسائل کا ذرا تفصیلی و تقابلی جائزہ لے کر بعد میں مشترکہ نتائج کا چین کے حالیہ وسائل سے تقابل کر کے نتائج اخذ کرنے کی کوشش کرینگے۔
انسانی تاریخ کی تمام سپر پاورز قدیم مصر، یونان، روم، میسو پوٹیمیا، ایران، عرب، منگول، ترکی، برطانیہ، سوویت یونین اور امریکہ کے عمومی جائزے میں چند حقائق بڑے واضع ہیں۔ یہ کبھی کسی دوسری قوم یا ملک کے غلام یا کالونی نہیں رہے۔ حکمران طبقات کے توسیع پسندانہ عزائم اور عمل درآمد، یہ اصول بھی مسلمہ رہا کہ ان کے ہمسائے ملک کبھی چین کی نیند نہ سو سکیں، تہذیبی غلبہ، حکمران طبقات کے بلندو باغ دعوئے اور نعرے اور سب سے اہم بات یہ کہ ان کے پاس کم از کم ایک ایسی خصوصیت یا صلاحیت مثلاً منفرد انقلابی علم و فن یااچھوتی ایجاد کی برتری جس کی بدولت وہ دوسری اقوام کو زیر کر لیتے تھے۔
قدیم مصر، یونان، روم، میسوپوٹیمیا اپنے تہذیبی غلبے یا برتری کی وجہ سے دنیا پرچھا گئے۔ ان کے حکمران اپنے آپ کو دیوتا یا دیوتاؤں کی اولاد کہلواتے تھے۔ ایران زمانہ قدیم سے خام یا مٹی کے تیل کے دہندے سے مال کماتا اور تکڑی فوج بناتا۔ عرب انقلابی نظریات یعنی اسلام لے کر اٹھے اور دنیا کے ایک بڑے حصے پر قابض ہوئے۔ منگولوں نے جدید طرز کے مہلک تیر کمان تیار کیے اور گھڑ سواری کے دوران تیر چلانے میں ان کوئی ثانی نہ تھا۔ ترکی یا خلافت عثمانیہ رومن یا بازنطینی سلطنت اور عرب جنگجوازم کی پیوندکاری تھا۔ برطانیہ اپنے صنعتی انقلاب کی بدولت دنیا میں غازی ہوا۔
ویسے جاپان اور جرمنی بھی سپر پاور بننے کا پختہ ارادہ اور سوچ رکھتے تھے مگر شاید کوئی آنچ دھیمی رہ جانے کی وجہ سے قبل از وقت ہی دانت تڑوا بیٹھے۔ آج کا انڈیا بھی سپر پاور بننے سے کم کا ارادہ نہیں رکھتامگر اس کے پلے سوائے مودی جی، جنرل جی ڈی بخشی اور چند عدد اداکاروں یا فلموں کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ایسی صورتحال میں انڈیا کے لیے صرف دعائے خیر و ہدایت ہی کی جاسکتی ہے آخر ہمارا ہمسائیہ بھی تو ہے۔
سوویت یونین قدرتی وسائل سے بھر پور وسیع و عریض ملک، رقبے کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک اور آبادی صرف 26 کروڑ، ٹیکنالوجی اور علم و فن میں خود کفیل، زاروں کے زمانے کا روس بھی ایک طاقتور ملک تھا اور توسیع پسندانہ سوچ رکھتا تھا پھر بالشویک انقلاب کے بعد گویا اس کی ہر اٹھان کو پر لگ گئے۔ اپنی جدید ہتھیاروں سے لیس بڑی فوج اور سوشلسٹ نظریات کے سبب آدھی دنیا پر سوویت راج یا ا ثرو رسوخ قائم ہو گیا۔
یورپی طالع آزماؤں نے قدیم امریکی تہذیبوں کو ملیا میٹ کر کے آج والے امریکہ کی بنیاد رکھی۔ زراعت اور معدنی وسائل سے بھر پور وسیع و عریض رقبہ اور آبادی حالیہ شمار کے مطابق 33 کروڑ، زیادہ تر ٹیکنالوجی اپنی تیار کردہ یا ضرورت پڑنے پر سویڈن، اسرائیل اور جرمنی سے خرید کر استعمال میں لائی جاتی ہے۔ سرمایہ کے عالمی جال اور جدید فوج کے بل پر امریکہ نے پہلے آدھی دنیا پھر زوال روس کے بعد پوری دنیا میں اپنا اثر و رسوخ مضبوط کر لیا۔
سپر پاورز کے عروج و زوال کا سبب کچھ اندرونی اور بیرونی عوامل یا تضادات ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر آج تک کی سپر پاورز کا عروج ان کی صرف اور صرف اپنی خوبیوں، خصوصیات یا زور بازو پر ہوا، ان کو ہم اندرونی عوامل کہہ سکتے ہیں۔
ہر پاور کو ہمیشہ بیرونی مخالفت یا رد عمل کا سامنا بھی رہا لیکن ان کے زوال میں اندرونی عوامل اور تضادات نے ہی فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ سوویت یونین نے جب پر پرزے دنیا میں پھیلانے کی کوشش کی تو آدھی دنیا بشمول امریکہ و پاکستان روس کے خلاف صف آرا ہو گئے اور معاشی، سماجی اور سیاسی طور پر اس کا حقہ پانی بند کر دیا۔ اس کے باوجود یونین کو توڑنے کا فیصلہ ماسکو والوں نے خود ہی نے کیا تھا۔ برطانیہ اور یونان کی بے پناہ مخالفت کے باوجود ’مرد بیمار‘ کا جنازہ آخر کار انقرہ میں مصطفےٰ اتا ترک نے اٹھایا۔ انڈیا سمیت اپنی تمام نو آبادیوں سے گلو خلاصی کا فیصلہ بر طانیہ نے بذات خود اپنے دستخطوں سے کیا تھا۔ ان مثالوں سے واضح ہو جاتا ہے کہ سپر پاور کے اندرونی عوامل ہی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں بیرونی دنیا تو ہمیشہ مخالف ہی ہوتی ہے۔ یاد رہے ’سپر پاور‘ جیسے خطابات و القابات پلیٹ میں رکھ کر نہیں ملا کرتے۔
جہاں تک سوال ہے چین کے سپر پاور بننے کا تو اس میں حب علی سے زیادہ بغض معاویہ والا معاملہ لگتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ لوگ امریکہ سے بہت تنگ ہیں۔ لوگ چاہتے ہیں ایک آدھ سپر پاور کا اور اضافہ ہو جائے تاکہ دنیا میں مسابقت کی صورتحال بنے اور امریکہ کو دوہنا آسان ہو جائے۔ دشمن کی توپوں میں کیڑے پڑنے سے نہیں جنگیں اپنی تیاری اور ارادے سے جیتی جاتیں ہیں۔
اب ہم چین کے مثبت، منفی، اندرونی و بیرونی عوامل کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔ چین زراعت اور دوسرے زمینی وسائل سے مالا مال وسیع ملک ہے۔ اچھے انجینئر، کاریگر اور محنتی مزدور پیدا کرنے کی استعداد رکھتاہے۔ یہی کاریگر اب دنیا میں سڑکوں، بندرگاہوں اور پلوں کے جال بنا رہے ہیں تا کہ چین کی تجارت سستی ہو کر دنیا کو زیادہ قابل قبول ہو جائے۔ ثقافتی ورثے کے طور پر دیوار چین اور تن من اسکوائر کے قریب چند قدیم محلات بھی رکھتا ہے۔ تاریخ میں چین سکہ بند تہذیب کے طور پردنیا میں مانا جاتا رہا ہے۔ چینی ماہرین غیر ملکی ٹیکنالوجی اور مشینری کی نقل میں بہترین ہیں۔ یہاں یاد رہے کہ ٹیکنالوجی مشینیں پیدا کرتی ہے اور مشین اشیاء پیدا کرتی ہے۔ چین کے پاس ایک تکڑی اور جدید فوج بھی موجود ہے۔
چینی قیادت اپنے بیانیے میں سپر پاور بننے اور توسیع پسندانہ خواہشات کا بالکل اظہار نہیں کرتی ہاں البتہ اپنے ایجنڈے کو صر ف تجارتی مقاصد تک ہی محدود کرتی نظر آتی ہے لیکن تبت، تائیوان، سکم، لداخ، ارونا چل پردیش، نیپال اور بھوٹان وغیرہ کے معاملات کو دیکھیں تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ چینی قیادت ’اندر خانے‘ توسیع پسندانہ عزائم رکھتی ہے۔ اپنے ملک میں کرپشن کے خلاف ہے اور دوسری طرف چینی کمپنیوں کو دوسرے ملکوں میں کرپشن کرنے اور پھیلانے کی کھلی چھوٹ ہے۔
کمیونسٹ پارٹی کی سو یں سالگرہ کے موقع پر ہنری کسنجر (سابق امریکی وزیر خارجہ)کو مہمان خصوصی کے طور بلایا گیا۔ ہنری کسنجر کی شفقت اور محبت کو ذرادیکھیں کہ وہ اس بزرگی کے عالم میں اور کرونا کی وبا کے دوران اپنے سارے کام چھوڑ کرخطاب کے لیے چین جا پہنچے۔ چین اپنے محسنوں کو نہیں بھولتا جو کہ اچھی بات ہے۔
مزدور کسان حقوق، انسانی حقوق، میڈیا کی آزادی، جمہوریت جیسی رائج وقت اقدار جو کہ عالمی مقبولیت کا باعث بنتی ہیں یا بن سکتی ہیں مگر بدقسمتی سے ان تمام معاملات میں چین کا ریکارڈ خاصا خراب ہے۔ ایک غیر چینی شہری کو چین کی اپنی معاشی ترقی یا فوجی پریڈ سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے یا ہونی چاہیے۔
سپر پاورز کے ا رتقا میں ٹیکنالوجی اور خاص طور پر ’منفرد ٹیکنالوجی‘ نے ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس لحاظ سے چین سائنسی ایجادات، تعلیم اور ریسرچ اور بعد میں ٹیکنالوجی کے استعمال اور کارکردگی میں ترقی یافتہ ممالک سے خاصا پیچھے ہے۔ اس بات کااندازہ صرف اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج تک صرف 12 چینی باشندے نوبل انعام حاصل کر پائے ہیں جن میں دلائی لامہ بھی شامل ہیں۔ فزکس، کیمسٹری اور میڈیسن ریسرچ کی مد میں عوامی جمہوریہ چین کے حصے 6 نوبل ہی ڈالے جا سکتے ہیں۔ جبکہ امریکہ 375 برطانیہ 131، جرمنی 108، فرانس 69، سویڈن 32، روس 31 اور جاپان 27 نوبل انعام اپنے حصے کروا چکے ہیں۔
چین خرید کردہ اور چوری چکاری سے حاصل شدہ فرسودہ ٹیکنالوجی سے ہی کام چلا رہا ہے۔ ہمارے ایک نہایت تعلیم یافتہ دوست کی ریسرچ کے مطابق ”چین کو بحیثیت قوم ایک انجینئر قوم تو قرار دیا جاسکتا ہے مگر اسے سائنس دان قوم کا درجہ نہیں دیا جا سکتا“۔ ٹیکنالوجی کے معاملے میں چین دوسرے ممالک یا اقوام کا مرہون منت یا دست نگر ہے۔
چین کی سب سے بڑی خوبی یہی بیان کی جاتی کہ اس کی برآمدات زیادہ ہیں جو شایدایک عام ملک کے لیے تو بہت اچھی بات ہو سکتی ہے لیکن سپر پاور کی دوڑ میں یہ پاؤں کی زنجیر بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ چین اپنی کل برآمدات کا تقریباً 20 فیصد امریکہ کو 60 فیصد امریکی اتحادیوں کو برآمد کرتا ہے۔ اسے ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں چین کی معیشت اور معاشی ترقی کا بڑا حصہ ڈالر اور یورو ہی کا مرہون منت ہے۔
عالمی مسابقت کی کسی بھی صورت میں چین کو غیر معمولی حالات کا سامنا کر سکتا ہے۔ چین کے کندھوں پر پہلے ہی ایک بڑی آبادی کا بوجھ ہے اس لیے چین شاید ایک ہلکے سے معاشی جھٹکے کو بھی برداشت نہ کر پائے۔ کسی فرد یا ریاست کی محض معاشی خوشحالی و ترقی کو سیاسی یا سماجی برتری کے مترادف خیال کرنا شاید درست نہیں ہو گا۔
تاریخی تناظر میں تمام سپر پاورز نظریاتی طور پر ایک ہی کشتی میں سوار نظر آتی ہیں۔ امریکہ سرمایہ داری کا نظریہ لے کر چلتاہے، سوویت یونین سوشل ازم کے نظریے کا پرچارک تھا۔ چین دنیا کا شاید وہ واحد ملک ہے جو نظریاتی طور پر ’دو کشتیوں‘ کا سوار ہے۔ سرمایہ داری پر بھی یقین ہے اور سوشلسٹ ہونے کا دعویٰ داربھی، ایک طرف عالمی تجارت کے فروغ کوششوں میں مصروف ہے تو دوسری طرف ایک بڑی فوج کھڑی کرنے کے بھی منصوبے بھی رکھتا ہے۔ آج کی دنیا میں امریکہ اور سوویت یونین جیسی سپر پاورز افغانستان جیسے چھوٹے ملک پر فوجی قبضہ برقرار نہ رکھ سکیں تو چین کی فوج بھلا کتنی دنیا کو کو کنٹرول کر پائے گی۔
دنیا میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے امریکہ سمیت تمام سپرپاورز نے ’لابنگ‘ پر بے پناہ اخرات کر کے اپنے ہمدرد پیدا کیے۔ اس ضمن میں چینی قیادت نے پیشگی ہی مشہور زمانہ اعلان کر رکھا ہے کہ وہ کسی کو مچھلی نہیں دیتے البتہ مچھلی پکڑنے کا ہنر ضرور سیکھا سکتے ہیں۔چین کا حسن زن ہے یا اسے شاید پتہ ہی نہیں کہ صرف ہمارے پاکستانی بھائی مچھلی پکڑنے کے 101 ہنر پہلے سے ہی جانتے ہیں۔
چین کے اندرونی اور بیرونی تضادات و عوامل پر ایک کتاب بھی لکھی جا سکتی ہے او ر وہ بھی شاید کم پڑ جائے ہم نے اس مختصرکالم میں نمونے یاا عشارے کے طور پر صرف چند کا ہی تعارف یا نشاندہی کرواسکتے ہیں۔ مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں سیاست کے طالب علم نے طور ہم یہی نتیجہ اخذ کر پائے ہیں کہ عوامی جمہوریہ چین کا موازاٰنہ قازقستان، برازیل، انڈیا، جنوبی افریقہ جیسے ممالک سے تو کیا جا سکتا ہے۔ رہی سپر پاور والی بات تو ”ایں خواب است و خیال است و محال است و جنوں“۔
پنجابی کہاوت ہے کہ جون کے مہینے میں جس سورج نے قیامت برپا کرنی ہو وہ فجر کے وقت ہی خبر دار کر دیتا ہے۔ چڑھتے وقت ٹھنڈے سورج نصف نہار پر بھی ٹھنڈے ہی رہتے ہیں۔
جہاں تک سوال ہے ’سرد جنگ‘ کا تو عرض ہے کہ سرد جنگ بعد کی بات ہے اس سے پہلے کسی دوسری سپر پاور کا جنم ضروری ہے جو فل وقت یا مستقبل قریب میں بھی ممکن نظر نہیں آتا۔