وجے پرشاد، عروہ ابو حشاش
کوئی بھی فلسطین کے واقعات کو نظر انداز نہیں کر سکتا، کوئی بھی ان سب کی ہولناکی سے اختلاف نہیں کرتا ہے۔ غزہ میں اسرائیلی بمباری اور فلسطینیوں کی ہلاکتوں کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں اور مقبوضہ فلسطینی علاقے اور اسرائیلی سرحدوں کے اندر فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی ریاست اور صہیونی آبادکاروں کی طرف سے بڑھتے ہوئے تشدد کی طرف توجہ مبذول ہوئی۔ یہ سب بدصورت ہے۔
زخمی ہونے یا ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد کے بارے میں محض اعداد و شمار کی فراہمی سے یہ بنیادی حقیقت ہٹ جائے گی کہ کھو جانے والی ہر زندگی کی اہمیت ہے اور غمزدہ فلسطینی خاندانوں میں سے ہر ایک کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہئے لیکن یہ صرف نقصان کی کہانی نہیں ہے۔ یہ مزاحمت کی داستان بھی ہے۔ اس تباہی کے مصنف، خوفناک قبضے کے باوجود، فلسطینیوں نے ہتھیار نہیں ڈالے۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کے لئے آزادی کا حصول ناممکن نہیں ہے۔
غزہ میں قتل عام
ایک دن بیدار ہونے اور یہ معلوم کرنے کا تصور کریں کہ آپ کا پورا کنبہ ختم ہو گیا ہے۔ اس خوفناک خواب کا تجربہ محمد ابو حداب اور محمد الحدیدی نے کیا، جنہوں نے ایک بم دھماکے کے دوران اپنی بیویوں اور بچوں کو اسوقت کھو دیا جب وہ 15 مئی کو عید الفطر منانے کے لئے گھر پر جمع ہوئے تھے۔ حملے میں صرف حدیدی کا نوزائیدہ بیٹا بچ گیا تھا۔ اسرائیلی جنگی طیاروں نے الشاتی پناہ گزین کیمپ میں تین منزلہ عمارت کو نشانہ بنایا جہاں 2 خواتین اور ان کے 8 بچے سو رہے تھے۔ غزہ شہر میں الشفا ہسپتال کے باہر کھڑے محمد الحدیدی نے کہا کہ بچے گھر میں محفوظ تھے، انکے پاس نہ کوئی اسلحہ تھا اور نہ ہی کوئی راکٹ۔ وہ ابھی بھی عید منانے کیلئے اپنے کپڑے پہنے ہوئے تھے جب اسرائیلی بمباری کے دوران ان کی جان لے لی گئی۔
اسی دن، الشفا ہسپتال کے بالکل شمال میں اسرائیلی جنگی طیاروں نے الرمال میں الوحدہ اسٹریٹ پر متعدد گھروں کو نشانہ بنایا۔ بم دھماکوں میں الکولک خاندان کے 13 افراد ہلاک ہو گئے، جن کی عمریں 1 سے 85 سال کے درمیان تھیں۔ جب لاشیں الشفا ہسپتال پہنچیں تو ایمرجنسی میڈیکل عملہ کے رکن فہد الحداد نے بتایا کہ لاشوں کی جانچ پڑتال سے معلوم ہوا ہے کہ جب عمارت گری تو وہ زندہ تھے اور عمارت کے ملبے میں دبنے کی وجہ سے انکی ہلاکت ہوئی۔ یہ بم جنہوں نے الکولک خاندان کے متعدد افراد کو ہلاک کیا وہ غزہ کے چیف نیورولوجسٹ ڈاکٹر معین احمد کے گھر بھی گرے، وہ اپنی اہلیہ اور 5 بیٹوں کے ہمراہ مارے گئے تھے۔ بم دھماکے کی زد میں آنے والی دیگر انسانی زندگیوں میں الشفا ہسپتال میں کورونا وائرس ٹیم کی سربراہ ڈاکٹر ایمن ابو العوف اور ’حیات سنٹر فار دی پروٹیکشن اینڈ امپاورمنٹ آف ویمن اینڈ فیملی‘کے سائیکالوجسٹ راجہ ابوالعوف بھی شامل تھے۔ اس ایک واقعے نے نہ صرف تینوں ڈاکٹروں کو ہلاک کیا، جو اسی سڑک پر رہتے تھے، بلکہ 82 سالہ مجدیہ سے لیکر 9 سالہ میر تک خاندان کے 11 دیگر افراد کی زندگیوں کا خاتمہ کیا۔
16 مئی کی صبح جب الرمال میں اسرائیلیوں نے 3 عمارتوں پر دوبارہ بمباری کی تو 34 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ان میں ایک کنبہ کے 21 افراد شامل تھے، جن میں 90 سالہ امین محمد القولک اور 6 ماہ کی قسائی سمیع فوض القولک شامل ہیں۔ ایک اور واقعہ میں ایک اور خاندان اس بمباری کی وجہ سے مکمل طور پر ختم ہو گیا۔
اپارتھائیڈ
یہ کہانیاں اس سے کئی گناہ زیادہ ہیں لیکن مغرب کی خبروں میں ان مصائب اور افسردگی کی گہرائی دکھائے جانے کی بجائے غزہ سے داغے گئے راکٹوں پر جنونی طور پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔ غزہ پر 2006ء سے وقفے وقفے کے ساتھ جاری یہ بمباری فلسطینیوں پر حملے کا صرف ایک حصہ ہے۔ اصل مسئلہ، شیخ جراح اور یروشلم سے فلسطینیوں کی بے دخلیاں، اسرائیل کی طرف سے دریائے اردن کے مغرب میں واقع خطے سے فلسطینیوں کو بے دخل کرنے اور یہودی ریاست کے لئے پوری زمین پر قبضہ کرنے کی اسرائیل کی اس پالیسی سے جڑا ہے۔ یہی وہ پالیسی ہے جو کئی دہائیوں سے جاری ہے اور اس نے مقبوضہ فلسطینی علاقے میں فلسطینیوں کی زندگی کو عملی طور پر ناقابل برداشت بنا دیا ہے۔ یہی وہ پالیسی ہے جس نے اسرائیل کے اندر فلسطینیوں کی دوسرے درجے کی حیثیت کو ترتیب دیا ہے۔ یہ پالیسی 27 اپریل کو ہیومن رائٹس واچ کی شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے عنوان ”دی تھریش ہولڈ کراسڈ: اسرائیلی اتھارٹیز اینڈ دی کرائمز آف اپارتھائیڈ پرسیکیوشن“ سے مزید واضح ہوتی ہے۔
اسرائیلی ریاستی حکام اور صیہونی آبادکاروں کے غزہ کے خلاف تشدد کا عکس مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں بھی نظر آتا ہے۔ ہیبرون کے نواحی گاؤں ال ریہیہ میں 25 سالہ اسماعیل طوباسی کی ہلاکت کی ویڈیو ایک خوفناک منظر تھا۔ طوباسی صیہونی آباد کاروں کو زیتون کے باغ کو آگ لگانے سے روکنے کی کوشش کر رہا تھا۔ زیتون کے باغوں کی تباہی کا یہ طریقہ فلسطینی خاندانوں کو معاشی طور پر برباد کرنے اور زندہ رہنے میں مشکلات ڈالنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ آباد کاروں نے طوباسی کے سر میں گولی مار ی، پھر جب وہ مر رہا تھا تو انہوں نے چاقوؤں سے وار کیا اور اسرائیلی فوجی یہ ظلم دیکھ کر بغیر کچھ کئے، کہے کھڑے رہے۔
استثنیٰ اور مزاحمت
10 مئی کو ایک صیہونی آباد کار نے 31 سالہ موسیٰ حسونا کو ہلاک کر دیا۔ موسیٰ کو یروشلم کے قبضے کی کوشش کے خلاف احتجاج کے دوران ’لیڈ‘ کی گلیوں میں گولی مار دی گئی۔ اس واقعے کی ویڈیو اورتصاویر، جو دستیاب ہیں، میں دکھایا گیا ہے کہ اس جرم میں متعدد آباد کار ملوث ہیں۔ ان میں سے 4 کو گرفتار بھی کر لیا گیا، لیکن تین دن بعد اسرائیلی عدالتوں نے انہیں رہا کر دیا۔ 2015ء میں اسرائیل کی پارلیمنٹ نے ایک قانون پاس کیا جس کے تحت احتجاج کے دوران پتھر پھینکنے والے ہر شخص کو 20 سال قید کی سزا دی جائیگی۔ ادھر اسرائیلی فوج کے ذریعے فلسطینی سنگ بازوں کے خلاف براہ راست فائر کا استعمال ایک عام سی بات بن گیا ہے۔ بنیادی جمہوری اصولوں کا خاتمہ اور ان قوانین کا امتیازی استعمال اسرائیل میں عام سمجھا جاتا ہے، جو اسرائیلیوں کو احتجاج کرنے والے فلسطینیوں کو ہلاک اور گولی مارنے کی اجازت دیتا ہے۔
اسرائیلی آباد کاروں اور اسرائیلی فوجیوں کے مظالم پر کسی بھی طرح کی قانونی کارروائی کی عدم موجودگی فلسطینیوں کے انسانی حقوق کی پامالی پر صیہونی آباد کاروں اور فوجیوں کی حوصلہ افزائی کا باعث بنتی ہے۔ معمول کی غیر قانونی کارروائی کا ایک اہم علاقہ اسرائیلی ریاست ہے اور آباد کاری کا منصوبہ ہے جو مقبوضہ فلسطینی علاقے میں گھروں کو تباہ کر رہا ہے۔ جنیوا کنونشن (IV)، 1949ء کے آرٹیکل 53 میں کہا گیا ہے کہ: ”قابض طاقت کی طرف سے انفرادی یا اجتماعی طور پر نجی افراد سے تعلق رکھنے والی حقیقی یا ذاتی املاک کی تباہی ممنوع ہے۔“ اس کے باوجود اسرائیل مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں انتظامی اور سزا کے طو ر پر انہدام کی پالیسی اور غزہ پر فضائی بمباری کی پالیسی پر عمل پیرا ہے جو بین الاقوامی قانون کے سراسر خلاف ہے۔ مارچ 2021ء میں بین الاقوامی فوجداری عدالت کے پراسیکیوٹر فتوؤ بینسوڈا نے فلسطین کی صورتحال کی تحقیقات کا آغاز کیا۔ ان تحقیقات سے پیچھے ہٹنے کے لئے امریکی دباؤ بہت زیادہ رہا۔
فلسطینیوں کو طویل عرصے سے کہا جا رہا ہے کہ اگر امریکی حکومت کے حمایت یافتہ اسرائیلی زندگی کو ناقابل رہائش بنانے میں کامیاب ہو جائیں تو مزید کچھ دہائیوں میں فلسطین کی یاد اور فلسطین کی خواہش ختم ہو جائے گی، لیکن معاملہ ایسا نہیں ہے۔ مظاہروں میں نکلے ہوئے نوجوانوں اور خواتین کو دیکھ کر یہ بات واضح ہے کہ 1948ء کے ’نقبہ‘ کے بعد یہ چوتھی نسل سڑکوں پر آ گئی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ مزاحمت نہ کرنے کی وجہ سے ان کے وجود کو خطرہ ہے۔