”وہ اپنی ذہنی کیفیت کے متعلق نہ تو اپنی بیوی سے بات کرتا ہے اور نہ ہی دوستوں اور وکلا ساتھیوں سے کیوں کہ نفسیاتی اُلجھنوں کے بارے بات کرنا آسان نہیں ہے۔ ایسے میں کورونا وبا کی وجہ سے لاک ڈاؤن ہو جاتا ہے اور وہ مزید تنہائی کی وجہ سے شدید پریشان ہو جاتا ہے اور علاج کے لئے ناروے کے ایک شہرت یافتہ ماہر نفسیات سے رابطہ کرتا ہے۔ بہت زیادہ مانگ کے باعث ماہر نفسیات کے پاس وقت تو نہیں مگراس نے فاروق گھمن کی کامیاب وکالت کے چرچے سُن رکھے ہیں اس لئے وہ فاروق کی صحت کے متعلق ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے تھیراپی کے لئے وقت نکال لیتا ہے۔ اور یوں یہ دونوں ایک ایسے سفر کا آغاز کرتے ہیں جہاں آزادی اظہار، حب الوطنی، جدیدیت، تنہائی، انضمام اور شناخت جیسے موضوعات پر بحث کرتے ہوئے لاشعوری طور پر تھیراپی سے بہت آگے نکل جاتے ہیں۔ ایک موڑ پر معلوم ہوتا ہے کہ سائیکاٹرسٹ کی زندگی کے کچھ ایسے راز ہیں جو پہلے سامنے آناچاہیے تھے۔ پوزیشنیں اتنی تیزی سے بدلتی ہیں کہ لگتا ہے کردار مکمل طور پر بدل گئے ہیں اور یہ جاننا ممکن نہیں کہ کون معالج ہے اور کون مریض۔ اپنی شناخت کو تلاش کرنے کے لئے کون کس حد تک جا سکتا ہے؟“۔