Month: 2024 جنوری


سپریم کورٹ جج جرنیلوں سے بھی مہنگے: ماہانہ تنخواہ، الاؤنس 17 لاکھ

گزشتہ سال بطور قائمقام صدر پاکستان صادق سنجرانی نے ایک آرڈیننس جاری کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور ججوں کی تنخواہوں میں اضافہ کیا تھا۔ ’سیلری آف ججز آف سپریم کورٹ آرڈر2023‘ کے مطابق چیف جسٹس کی ماہانہ تنخواہ12لاکھ29ہزار189روپے کی گئی، جبکہ سپریم کورٹ کے ایک جج کی تنخواہ 11لاکھ61ہزار 163روپے ماہانہ مقرر کی گئی۔ یہ آرڈیننس یکم جولائی2023سے نافذ العمل ہے۔

رام مندر سے ہندو مسلم محنت کشوں کو کوئی فائدہ نہیں: ریڈیکل سوشلسٹ

ریڈیکل سوشلسٹ ایودھیا میں بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کے افتتاح کے سیاسی طور پر خوفناک تماشے کی سخت مذمت کرتی ہے۔ 22 جنوری 2024 کو ’پران پراتشتھان‘کی تقریب آزادی کے بعد سے ایک سیکولر جمہوری نظام کو برقرار رکھنے کی کوششوں کو ایک اور عظیم علامتی دھچکا ہے۔ یہ واقعہ ہندو راشٹرا کے قیام کی طرف ہائیڈرا کی سربراہی والے سنگھ پریوار کے انتہائی منقسم فرقہ پرست فرقہ وارانہ ایجنڈے کی علامت ہے، اور ان کے جنگجو ہندوتوا نظریہ کو ملک کی غالب عام فہم کے طور پر ابھارنے کے مشن کی نمائندگی کرتا ہے۔ رام مندر کا افتتاح 2014میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد ایک دہائی طویل آمرانہ ایمرجنسی جیسی حکمرانی کے پس منظر میں آیا ہے۔

بلڈی ہسٹری آف بلاسفیمی فائٹس: نارویجن صحافی عطا انصاری کی کتاب فروری میں شائع ہو گی

’بلڈی ہسٹری آف بلاسفیمی فائٹس‘ کے عنوان سے شائع ہونے والی یہ معلوماتی کتاب بلاسفیمی کے نام پر ہونے والے بعض پر تشدد واقعات کا احاطہ کرتی ہے۔ انہوں نے اس کتاب کے ذریعے اُن تنازعات اور واقعات کی تہہ تک جانے کی کوشش کی ہے، جن کی وجہ سے کئی دہائیوں سے اسلامی دُنیا اور مغرب کے تعلقات میں دراڑیں پڑرہی ہیں۔ یہ کتاب آسکہاؤگ پبلشنگ ہاؤس، جو ناروے کے بڑے پبلشرز میں شمار ہوتے ہیں، کے زیر ِاہتمام شائع ہو رہی ہے۔

رام مندر: مذہبی جنون کی ایک خطرناک علامت

ان تقریبات کا مقصد اور وزیراعظم کا مرکزی کردار ظاہری طور پر مذہبی ہے، لیکن کچھ سینئر پروہت اس سے اختلاف کرتے ہیں۔ ا نہوں نے اس تقریب کا بائیکاٹ کیا، کیونکہ مودی تکنیکی طور پر ’پران پراتشتھا‘(روح کو مورتی کے اندر ڈالنے) کی رسم ادا کرنے کیلئے اہل نہیں تھے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ مودی ایک بار پھریہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ ان کے تحت ایک نیا بھارت وجود میں آچکا ہے، جس کی 1947میں پیدا ہونے والے بھارت سے لگ بھگ کوئی مشابہت نہیں ہے۔

کافرانہ ٹائلٹ بمقابلہ صفائی نصف ایمان والے ٹائلٹ

یہ ٹائلٹ ایک ایسی جگہ واقع ہے جہاں گرمیوں میں ہزاروں لوگ پکنک منانے آتے ہیں۔ سگتونا ایک سیاحتی مرکز ہے۔ مجھے سگتونا میں رہتے پندرہ سال ہو چکے ہیں۔ گرمیوں میں بھی یہ ٹائلٹ کبھی گندہ نہیں ملا۔ایسا نہیں کہ سویڈن میں پبلک ٹائلٹ کبھی بھی گندی حالت میں نہیں ملے گا۔ زیادہ آبادی والی جگہوں پر، ویک اینڈ کے موقع پر ممکن ہے کچھ ٹائلٹ اتنی صاف حالت میں نہ ملیں مگر یہ بات طے ہے کہ 12 گھنٹے بعد اس کی صفائی ہو چکی ہو گی۔ وہاں ٹائلٹ پیپر موجود ہو گا۔ فلش کام کرے گا۔ ہاتھ دھونے کے لئے لیکویڈ سوپ موجود ہو گا۔

مولانا فضل الرحمن کا ذریعہ معاش…غیبی امداد

جرنیل مشرقی پاکستان میں لاکھوں شہریوں کا قتل عام کر کے آ گئے، ملک توڑ دیا۔۔۔مگر یحیٰی خان کو مرنے پر اکیس توپوں کی سلامی دی گئی۔ کسی بلوچ کو مار کر کسی ویرانے میں پھینک دو۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ الٹا آواز اٹھاو تو خود غائب ہو جاو۔ عین اسی طرح، ہزاروں لوگ طالبان، سپاہ صحابہ، لشکر طیبہ اور ٹی ایل پی کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں۔ کبھی کسی مولوی کو سزا ہوئی نہ کبھی کسی جتھے کے خلاف کاروائی ہوئی۔بی ایل اے کے خلاف کاروائی کے لئے ایران سے جنگ لڑنی پڑ جائے، لڑ لیں گے لیکن تحریک طالبان پاکستان کے لئے عام معافی ہے۔

چاکلیٹی فیمن ازم بمقابلہ بلوچ خواتین کا فیمن ازم

سوشلزم کی طرح،فیمن ازم کا مطلب بھی ہے مزاحمت، قربانی، جدوجہد۔ پاکستان اور ہندوستان جیسے ممالک میں تو لبرل ہونا بھی جان جوکھوں کا کام ہے۔ فیمن ازم تنظیم کا تقاضا کر تی ہے۔ تنظیم سازی کے لئے پیسے اور وقت کی قربانی درکار ہوتی ہے۔ ہم یہ توقع تو نہیں رکھتے کہ تنظیم کا ہر رکن ریڈ روزا (Red Rosa)یا ایما گولڈ مین (Emma Goldman)کی طرح جان کی بازی لگانے پر تیار ہو لیکن ایک بنیادی کمٹ منٹ اور مزاحمت تو اس تحریک کے ہر رکن پر فرض ہے۔ وائے افسوس فیمن ازم کی ایسی نسلیں بھی پائی جاتی ہیں جنہیں میں انگریزی میں feminism of conveniece قرار دیتاہوں۔ تن آسان فیمن ازم۔ چاکلیٹی فیمن ازم۔ سوشل میڈیا کی بگڑی زبان میں: ہومیو پیتھک فیمن ازم۔

امریکی سامراج کی تاریخ کا خلاصہ

متحارب نظریات اور سماجی نظاموں سے بھری دنیا میں کسی ایک یا دونوں کے متناسب عیوب پر مباحثہ معمول کی بات تھی۔ سرمایہ داری ، سوشلزم، کمیونزم، سامراج مخالفت اور کمیونزم مخالفت یا تو کسی تسلیم شدہ حقیقت کی مخالفت کا نام تھا یا موافقت کا۔ اس مبارزے کا عالمی سیاست پر بھی غلبہ تھا اور دانشورانہ مباحث پر بھی، نتیجہ یہ نکلا کہ آج جس روٹین ڈس انفارمیشن یا عدم معلومات کا غلبہ ہے اسے کسی ادارے کی شکل دینا ممکن نہیں رہا: جتنا کم آپ کی معلومات اتنا آسان گڑبڑ کرنا۔ ایک نظرئیے کی جیت اور دوسرے کے مکمل انہدام کے باعث بحث اور اختلاف کی گنجائش ڈرامائی طور پر کم ہو کر رہ گئی ہے۔