بے گناہ، بے چارے انکل سام اورمعصوم صیہونی نازیوں کی طرح بھولی بھالی غریدہ فاروقی کو بھی سمجھ نہیں آ رہا کہ ماہ رنگ بلوچ بی ایل اے کے ہاتھوں شہید ہونے والے معصوم پنجابی مزدورں کی یاد میں اسلام آباد پریس کلب میں کیمپ لگانے کی بجائے را سے ساز باز کرنے والے نام نہاد لاپتہ افراد کا ماتم کیوں کر رہی ہے۔
وہ تو شکر ہے بلوچ دھرنے کی کوریج کے لئے بھیجنے والوں نے غریدہ فاروقی کو کبھی ڈھاکہ نہیں بھیجا ورنہ وہ حسینہ واجد سے ضرور پوچھتیں کہ آپ نے ریپ ہونے والی بے شرم بنگالی عورتوں کے فحش مجسمے تو چوکوں میں لگا رکھے ہیں مگر کیا آپ مکتی باہنی کی مذمت کرتی ہیں جنہوں نے پاکستانی سپاہیوں کو شہید کیا؟
Month: 2024 جنوری
اسلام آباد بلوچ دھرنا: اتحاد، یکجہتی اور نظم و ضبط کا آنکھوں دیکھا حال
احتجاجی دھرنا کو منظم کرنے کیلئے جس رضاکارانہ نظم و ضبط، اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ پولیس کی لگائی گئی خاردار تاروں کے اندر موجود احاطہ کو رسیوں کی مدد سے بلوچ رضاکاروں نے تقسیم کر رکھا ہے۔ خواتین کیلئے ایک خیمہ لگایا گیا ہے، جہاں کمبل اور خود کو گرم رکھنے کیلئے دریاں اور چٹائیاں بچھائی گئی ہیں۔ خواتین کے خیمہ کو ہی دھرنے کے مرکزی پوائنٹ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے اور قیادت بھی اسی خیمہ میں موجود رہتی ہے۔سامنے کی جگہ چھوڑ کر خیمہ کے تین اطراف رسیاں لگا کر راستے بند کئے گئے ہیں اور ہر طرف بلوچ رضاکار سکیورٹی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ خیمہ کی جانب داخل ہونے کیلئے ایک جگہ رسیوں کا ہی گیٹ نما بنایا گیا ہے، جہاں ہر وقت دو بلوچ رضاکار نوجوان موجود رہتے ہیں۔ ہر کچھ گھنٹے بعد وہ نوجوان تبدیل ہوتے ہیں، لیکن خیمہ کی طرف جانے والے ہر شخص کا مکمل تعارف اور تفصیل ان رضاکار نوجوانوں کے پاس نوٹ بک پر درج ہوتی ہے۔ میڈیا کے علاوہ اہم شخصیات، سیاسی و سماجی رہنماؤں اور خواتین کو اس راستے سے خیمہ کی طرف جانے کی اجازت دی جاتی ہے۔
بات مارشل لا کی طرف جا سکتی ہے
عسکری ریاست کا بحران اتنا بڑا ہے کہ فوج مارشل لاء لگانے کے قابل نہیں رہ چکی۔ فوج کی کوشش ہے کہ ہائبرڈ حکومت قائم کی جائے۔مصیبت یہ ہے کہ پہلے ناکام ہائبرڈ تجربے کے بعد حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اگلا ہائبرڈ تجربہ ابھی تو لانچ ہی ہوا نہیں اور ناکام قرار دیا جا رہا ہے۔
گلگت بلتستان: منجمد کرنے والی سردی میں ہزاروں افراد سڑکوں پر، لیکن میڈیا خاموش
گلگت بلتستان میں گندم کی قیمتوں میں اضافے کے بعد گزشتہ 12روز سے احتجاجی تحریک زور پکڑتی جا رہی ہے۔ منجمد کردینے والی سردی میں سکردو سمیت مختلف اضلاع میں احتجاجی دھرنوں کا سلسلہ آج تیرہویں روز میں داخل ہو چکا ہے۔ احتجاجی دھرنوں اور ریلیوں میں ہزاروں افراد شریک ہو رہے ہیں۔ تاہم پاکستان کے مین سٹریم میڈیا پر اس تحریک کو کہیں جگہ نہیں مل رہی۔ دوسری طرف احتجاجی تحریک میں شامل رہنماؤں کو انسداد دہشت گردی کے تحت بنائے گئے قانون شیڈول فور میں شامل کرنے کا عمل جاری رکھا گیا ہے۔
بلوچستان: ریاستی جبر کو للکارتی عوامی مزاحمت
حکمران طبقہ ریاست کے وجود کو اس لیے ضروری قرار دیتا ہے کہ ریاست شہریوں کے جان و مال کا تحفظ کرتی ہے۔کہنے کوتویہ اس لئے ضروری ہے کہ تمام شہری آئین و قانون کا احترام کریں، مگر درحقیقت ریاست انسان کے جان و مال کو تحفظ دینے کے لیے نہیں بلکہ اس وقت وجود میں آئی جب سماج کی طبقات میں تقسیم ہوئی۔
عام انتخابات: محنت کشوں کیلئے کوئی پروگرام نہیں
پاکستان میں فروری کے عام انتخابات کیلئے محنت کش طبقے میں بہت کم جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ یہ جزوی طور پر اس بڑی غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے ہے، جو انتخابات کے انعقاد کے امکانات کو گھیرے ہوئے ہے۔ بہت سے محنت کش اب بھی سمجھتے ہیں کہ انتخابات ملتوی ہو سکتے ہیں۔ تاہم ایسے لوگ بھی ہیں، جنہیں یقین ہے کہ انتخابات کا انعقاد ہوگا اور وہ مزدوروں کی بہبود کیلئے اپنے مطالبات پر آواز اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔