Month: 2024 جنوری


قانون کی حکمرانی عالمی سطح پر گراؤٹ کا شکار، بدعنوانی بڑھ رہی ہے: ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل

تنظیم کے سی ای او ڈینیئل ایرکسن نے کہا کہ بدعنوانی سماجی ناانصافی کو مزید خراب کرتی ہے اور معاشرے کے سب سے زیادہ کمزور افراد کو غیر متناسب طور پر متاثر کرتی ہے۔بہت سے ملکوں میں بدعنوانی کے متاثرین کیلئے انصاف کی راہ میں رکاوٹیں برقرارہیں۔ یہ رکاوٹوں کو توڑنے اور لوگوں کی موثر طریقے سے انصاف تک رسائی یقینی بنانے کا وقت ہے۔

یوم یکجہتی اور یوم عوامی حقوق کے مابین تصادم اور قیادت کا دوستانہ پیغام

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں گزشتہ8ماہ سے زائد عرصہ سے جاری عوامی حقوق کی تحریک کی قیادت کرنے والی ’جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی‘ نے مطالبات تسلیم نہ ہونے کی صورت 5فروری کو ’یوم عوامی حقوق‘ منانے کیلئے شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کا اعلان کر رکھا ہے۔ یہ اعلان جنوری کے پہلے ہفتہ میں کیا گیا تھا، اور اس اعلان کی تجدید 28جنوری کو دوبارہ مظفرآبادمیں منعقدہ اجلاس میں کی گئی ہے۔

روحانی غربت کا شکار معاشرہ

سرمایہ درانہ سماج نے جہاں انسان کو مہنگائی، بے روزگاری، بھوک، لاعلاجی اور جہالت کے ذریعے مادی غربت کا شکار کر رکھا ہے،وہاں منڈی کی معیشت نے انسان کی لالچ، خود غرضی،حسد اورمقابلہ بازی پر مبنی جس سوچ اور رویوں کو جنم دیا ہے، اس نے انسان کو بڑے پیمانے پر روحانی غربت کا شکار کر رکھا ہے۔اس سماج میں جھوٹ بولنا اور دھوکہ دینا فن تصور کیا جاتا ہے۔جو انسان اس فن سے نہیں واقف ہے وہ اس سماج میں زندہ رہنے کے لیے نہیں موافق ہے۔انسان محض دوسرے انسان کے خلاف نہیں ہے،بلکہ اپنے آپ کے خلاف بھی برسر پیکار ہے۔محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کو پیٹ کی بھوک مٹانے اور دیگر ضروریات زندگی کے حصول لیے اپنی مرضی کے خلاف قوت محنت کو بیچنا پڑتا ہے۔ اس کے نتیجے میں اسے اپنے آپ کے خلاف عمل کرنا پڑتا ہے،جو عمل اسے خود سے اور سماج سے بیگانہ کر دیتا ہے۔دوسری طرف سرمایہ دار طبقے کو بے رحم استحصال، دھوکہ دہی اور لوٹ مار کے ذریعے دولت حاصل کرنے کا عمل اس سے اس کی انسانیت چھین کر اسے درندہ بنا دیتا ہے۔اپنے جیسے انسانوں کو پیروں تلے روند کر آگے بڑھنے کی خواہش اور عمل انسان کو سنگ دل اور بے رحم بنا دیتا ہے۔

شکر ہے آ ب زم زم نہیں تھا…

شکر ہے راحت فتح علی خان کے ملازم نے دم درود والی بوتل چرائی۔ اگر آب زم زم ہوتا تو جوش ایماں میں شائد خاں صاحب بچے کی جان ہی لے لیتے۔

عام انتخابات: بائیں بازو کے کم از کم 46 امیدوارحصہ لے رہے ہیں

پاکستان میں 8فروری کو عام انتخابات کے انعقاد کی تیاریاں جاری ہیں۔ ان انتخابات میں بائیں بازو سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھی بڑی تعداد میں امیدواران میدان میں اتارے ہیں۔ ماضی میں زیادہ امیدواران سامنے لانے والی بائیں بازو کی جماعتوں کے امیدواران میں کمی دیکھنے میں آرہی ہے، جبکہ سب سے زیادہ امیدوارمعروف گلوکار جواد احمد کی ’برابری پارٹی‘ کی جانب سے سامنے لائے ہیں۔ جواد احمد البتہ اس بار خود انتخابات میں حصہ نہیں لے رہے ہیں۔

5فروری: ریاست کا قصور نہیں معاشرہ ہی اختراعی سوچ سے عاری ہے

اختراع یا انوویشن کا عمل معاشرے میں ترقی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ سماج کے ہر شعبے میں اختراعی عمل کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔بالخصوص سرمایہ دارانہ معاشرے میں صنعتی پیداوار اور پھر ڈیمانڈ کی تشکیل کیلئے مارکیٹنگ کیلئے اختراع یا انوویشن کا کردار کلیدی رہا ہے۔ ریاست بھی حکمران طبقے کے مفادات کی ترجمانی کیلئے اختراعی عمل سے گزرتے ہوئے اتنی مہارت حاصل کرتی گئی ہے کہ ایک وقت میں جبر کے آلے کے طور پر کام کرنے والی ریاست نے جبر و تسلط کو اس قدر مخفی کر دیا کہ ریاست ’ماں‘ کہلانے لگی۔ ریاست کا مقصد حالانکہ وہی رہا اور جبر کے آلے کے طور پر کام کرتی رہی ہے۔

نامہ بنام نوجوان مسلم

یاد ہے آپ نومبر 2001ء میں ایک بڑے جنگ مخالف جلسے کے بعد (میرا خیال ہے گلاسگو میں) میرے پاس آئے اور آپ کا سوال تھا آیا کہ میں خدا پر ایمان رکھتا ہوں؟ میں نہ تو آپ کو لگنے والا وہ دھچکا بھولا ہوں جو میرے ‘نہ’ کہنے پر آپ کو لگا تھا نہ ہی آپ کے دوست کا جملہ (ہمارے والدین نے ہمیں آپ کے بارے میں خبردار کیا تھا) اور نہ ہی غصے سے بھرے سوالات کی بوچھاڑ جو آپ دونوں نے مجھ پر کی۔ ان سوالوں نے مجھے سوچنے پر مجبور کیا اور یہ چھوٹی سی کتاب نہ صرف آپ بلکہ آپ ایسے دیگر تمام لوگوں کے سوالوں کا جواب ہے جو یورپ اور شمالی امریکہ میں رہتے ہیں۔ اس میں جابجا تاریخ سے مڈبھیڑ ہوتی ہے تاہم میرے خیال میں یہ کتاب کافی ثابت ہو گی۔ جب آپ سے بات ہوئی تھی تو میں نے آپ سے کہا تھا کہ مذہب اور مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے والوں پر میں لوگوں کے سامنے تنقید کر کے زمانہ شناسی کا مظاہرہ نہیں کرتا ہوں۔ استحصال اور جوڑ توڑ کرنے والوں نے مذہب کے نام پر پارسا بن کر ہمیشہ اپنے خود غرضانہ مقاصد کو پورا کیا ہے۔ سچ ہے کہ بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی۔ یقینا دنیا کے مختلف حصوں میں ایسے مخلص مذہبی لوگ موجود ہیں جنہوں نے غریبوں کے حقوق کے لیے سچ مچ لڑائی لڑی مگر عموماً ان کا منظم مذہب سے تضاد پیدا ہو گیا۔ کیتھولک چرچ نے ایسے مزدور کسان پادریوں کو نشانہ بنایا جنہوں نے جبر کے خلاف مزاحمت کی۔ ایرانی آیت الاؤں نے سماجی ترقی پسندی کی تبلیغ کرنے والے مسلمانوں کے ساتھ آہنی ہاتھ سے نپٹا۔