Month: 2024 جنوری


مارکس، ماریہ چرچ اور مزدور

ماریہ چرچ کی مرمت کرنے والے مزدوروں نے اپنی حفاظت کے لئے ایک انوکھا طریقہ دریافت کیا ہوا تھا۔ خود کو موٹے رسوں سے باندھ کر انہوں نے رسوں کے دوسرے سرے چرچ کی دوسری جانب کھڑی اپنی گاڑی سے باندھ دئیے تھے۔ البم دیکھنے سے میری بات کی صحیح وضاحت ہو سکے گی(کہا جاتا ہے کہ جنگ میں فوجی افسروں نے ملٹری اکیڈمی میں جو پڑھا ہوتا ہے،بے کار جاتا ہے البتہٰ سپاہی بہترین دفاعی حکمت عملی خود سے ترتیب دیتے ہیں کیونکہ انہیں جان دینا یا بچانا ہوتی ہے)۔

ایران: 2 خواتین صحافیوں کیخلاف رہائی کے بعد نیا مقدمہ درج

’الجزیرہ‘ کے مطابق نیلوفر حمیدی اور الہٰ محمدی کے ضمانت پر رہا ہونے کے ایک دن بعد پیر کو ان کے خلاف نیا مقدمہ درج کیا گیا۔ ان دونوں کو 2022میں کرد ایرانی خاتون مہسا امینی کی حراست میں موت کی اطلاع دینے پر بالترتیب 13اور12سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ رہائی کے بعد دونوں صحافیوں کی جیل کے باہر مسکراتے ہوئے اور ہاتھ تھامے تصاویر سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔

ایک فیصد افراد 63 فیصد دولت کے مالک، 5 افراد کی فی گھنٹہ آمدن 14 ملین ڈالر

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا کے پانچ امیر ترین افراد نے 2020میں اپنی دولت میں دوگنا سے زائد اضافہ دیکھا۔ برنارڈ آرنولٹ، جیف بیزوس، وارن بفیٹ، لیری ایلیسن اور ایلون مسک فی گھنٹہ14ملین ڈالر دولت کما رہے ہیں۔ دوسری طرف دنیا میں غربت تقریباً تین دہائیوں بعد پہلی بار بڑھی ہے۔ اس کے علاوہ غریب افراد مزید غربت میں دھنستے چلے جارہے ہیں۔

بلوچ نسل کشی کیخلاف پاکستانی عوام ہمارا ساتھ دیں، یہ ہر مظلوم کی تحریک ہے: گلزار دوست بلوچ

”یہ کریمہ بلوچ کی ہی تحریک ہے،جس کی آج قیادت ماہ رنگ بلوچ، آمنہ بلوچ، سمی دین بلوچ اور صبیحہ بلوچ کے ہاتھوں میں ہے۔ بلوچ نسل کشی اور بربریت کے خلاف پاکستان بھر کے عوام اسی طرح ہمارا ساتھ دیں اور سرکاری بیانیہ کو مسترد کریں۔ یہ ہر مظلوم کی تحریک ہے اور تمام مظلوم مل کر ہی جیت سکتے ہیں۔ عوام بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ساتھ ہیں۔ مقابلے میں لگایا گیا دھرنا ریاست کے کارندوں کا ہے۔ ریاست کے یہ حربے عوام ناکام بنائیں گے۔“

طالبان کا افغانستان: غریب افغان بیٹیاں بیچنے پر مجبور

طالبان کے افغانستان میں غربت سے تنگ افغان 8سے10سال کی کم عمر بیٹیوں کو شادی کیلئے فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ ’واشنگٹن پوسٹ‘کی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ہیرات صوبے کے شاہرکِ سبز علاقے میں قائم خیمہ بستی میں بے گھر افراد نے 118لڑکیوں کو چائلڈ دلہن کے طور پر فروخت کیا اور 116خاندان لڑکیوں کے خریداروں کے انتظار میں تھے۔ یہ سروے 40فیصد خاندانوں کے برابر ہے۔

تکنیکی خرابی کے باعث 3 روز بندش کے بعد ’جدوجہد‘ کی ویب سائٹ بحال ہو گئی

تکنیکی مسائل کو اب حل کر لیا گیا ہے اور دوبارہ ویب سائٹ مکمل طور پر بحال ہو چکی ہے۔ اگر قارئین کو پھر بھی ویب سائٹ موبائل یا لیپ ٹاپ پر اوپن کرنے میں مسئلہ درپیش آئے تو انٹرنیٹ براؤزنگ ہسٹری کلیئر کرنے کے بعد کوشش کریں۔

لاپتہ افراد کمیشن: 8 کروڑ 28 لاکھ کی سالانہ تنخواہیں، نتیجہ صفر

پاکستان کی وفاقی حکومت نے لاپتہ افراد انکوائری کمیشن کی مدت میں تاحکمِ ثانی توسیع کر دی گئی ہے۔ ماضی لاپتہ افراد کمیشن کی مدت میں 6ماہ سے تین سال تک کی توسیع کی جاتی تھی۔ تاہم اب غیر معینہ مدت تک توسیع کر دی گئی ہے۔

میزائل حملے کے خطرے نے پاکستان کو ابھی نندن کی رہائی پر مجبور کیا: بھارتی سفارتکار کا دعویٰ

پاکستان میں بھارت کے سابق ہائی کمشنر اجے بساریہ نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کو یہ خطرہ تھا کہ بھارت نے 9میزائل پاکستان کی جانب نصب کر رکھے ہیں اور کسی بھی وقت حملہ ہو سکتا ہے۔ اس خطرے کی وجہ سے پاکستان نے نہ صرف بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو رہا کیا بلکہ پلوامہ حملے پر بھارتی ڈوزئیر کے مطابق ایکشن لینے کی یقین دہانی بھی کروائی گئی۔

شدید سردی میں حکمران جی بی کی عوام کو بھوکا مارنا چاہتے ہیں لیکن ہم لڑیں گے: شبیر مایار

”گلگت بلتستان انتہائی دشوار گزار پہاڑی علاقہ ہے۔حکمران گندم جیسی بنیادی سہولت تک رسائی بھی چھیننا چاہتے ہیں۔ 17روز سے احتجاجی تحریک چل رہی ہے اور سکردو میں منفی 12سے 15درجہ حرارت کی شدیدسردی میں لوگ روزانہ کی بنیاد پر دھرنا دے رہے ہیں لیکن مطالبات کی منظوری کی بجائے شیڈول فورمیں نام کے اندراج کی صورت تحفہ دیا جا رہا ہے۔ حقوق کے حصول کیلئے ہم ہر سطح تک جائیں گے۔“
شبیر مایار کا تعلق بلتستان کے ضلع کھرمنگ سے ہے۔ وہ متحرک ترقی پسند قوم پرست رہنما ہیں اور گلگت بلتستان یونائیٹڈ موومنٹ کے پلیٹ فارم سے سرگرم ہیں۔ گلگت بلتستان میں جاری حالیہ تحریک کی قیادت کرنے والی عوامی ایکشن کمیٹی کا حصہ ہیں اور ضلع کھرمنگ کی قیادت کر رہے ہیں۔

یہ بیانئے کی جنگ نہیں ہے: ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ

مظاہرین جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل اور نجی ملیشیاؤں کے خاتمے کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں۔ ابتدائی طورپر بالاچ کی لاش کے ساتھ تربت احتجاج جاری رہا، لیکن حکومت نے مطالبات پر کوئی توجہ نہیں دی۔ ریلی کی شکل میں کوئٹہ کی طرف بڑھتے ہوئے مظاہرین کی بھی کوئی شنوائی نہیں ہوئی اور حکومت نے احتجاجی مارچ میں حصہ لینے والوں کی گرفتاریوں، من گھڑت مقدمات کے اندراج اور 44سرکاری ملازمین کو روزگار سے برطرف کر کے سخت رد عمل ظاہر کیا۔