کسان ریڈ ٹیپ اور ان ملکوں سے سستی درآمدات کے مقابلے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، جہاں یورپی یونین کے نسبتاً اعلیٰ معیارات پر پورا اترنے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے شہر کے یورپی ہیڈکوارٹر کی طرف جانے والی مرکزی سڑکوں کے نیچے کئی ٹریکٹروں کو قطار میں کھڑا کر دیا، جس سے ٹریفک میں کمی آئی اور پبلک ٹرانسپورٹ کو روک دیا گیا۔ چند ٹریکٹروں نے زبردستی بیریئر ہٹا کر اپنا راستہ بنایا۔
مزید پڑھیں...
امریکی فضائیہ اہلکار نے ’آزاد فلسطین‘ کا نعرہ لگا کر خود کو آگ لگا دی
امریکی فضائیہ کے اہلکار نے اسرائیلی سفارتخانے کے باہر احتجاجاً خود کو آگ لگا دی۔ اہلکار زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہو گیا۔
’الجزیرہ‘ کے مطابق پینٹاگون کا کہنا ہے کہ امریکی فضائی کا ایک رکن، جس نے غزہ میں اسرائیلی جنگ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے واشنگٹن میں اسرائیلی سفارتخانے کے باہر خود کو آگ لگا لی تھی،وہ ہلاک ہو گیا ہے۔
واشنگٹن ڈی سی کے میٹرو پولیٹن پولیس ڈیپارٹمنٹ نے پیر کو بتایا کہ سان انتونیو ٹیکساس کا رہائشی 25سالہ ایئر مین ایرون بشنیل زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔
امریکی میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ بشنیل نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹویچ پر خود کا لائیو اسٹریم کیا اور اعلان کیا کہ ’وہ نسل کشی میں ملوث نہیں ہونگے۔‘
اس کے بعد بشنیل نے ’فلسطین کو آزاد کرو‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے خود کو آگ لگا دی، جس کے بعد وہ زمین پر گر گئے۔ ٹویچ سے فوٹیج کو ہٹا دیا گیا ہے۔
ملک ریاض بطور چاہت فتح علی خان
اس اشرافیہ کی خوش قسمتی یہ ہے کہ اس کے پاس خود سے بھی زیادہ رجعتی،جعلی،سوچ دشمن درمیانہ طبقہ موجود ہے جو بڑے فخر سے بحریہ میں رہتا ہے اور ہاوس وارمنگ کے موقع پر دوستوں رشتے داروں کو دعوت پر بلائے تو پڑوس والے بلاک کی سیر بھی کراتا ہے جہاں ملک ریاض نے ایفل ٹاور بنا رکھا ہے۔
’آزاد فلسطین‘ پوری دنیا کے لوگوں کا نعرہ بن چکا ہے: لیلیٰ خالد
میں کہوں گی کہ ہم ان تمام لوگوں کے مشکور ہیں،جنہوں نے فلسطینیوں کے ساتھ اور جو کچھ فلسطین میں ہو رہا ہے اس کے حوالے سے اس رویے کا اظہار کیا ہے۔ دنیا کے لوگ اب اس جدوجہد کے بنیادی مسائل کو سمجھتے ہیں،کہ اس جنگ میں اسرائیل نسل کشی کر رہا ہے، اور ہم فلسطینی یہ نہیں بھولیں گے۔
میں نے ٹی وی پر اور کامریڈوں کی بھیجی گئی ویڈیوز میں دیکھا ہے کہ میلبورن اور سڈنی میں زبردست مظاہرے ہوئے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگوں کو اس کی وجوہات کا احساس ہونے لگا ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔
وہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ اسرائیلی فوج فائر بندی کرے اور غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے سے انخلاء کرے۔
یہ وہی ہے جو میں دنیا کے لوگوں، خاص طور پر نئی نسل سے کہہ رہی ہوں: انصاف کیلئے لڑتے رہیں۔
فلسطین کاز ایک انسانی کاز ہے۔ اب ہم صرف غزہ کی پٹی کا نہیں بلکہ انسانیت کا دفاع کر رہے ہیں۔
ہم سامراجیوں بالخصوص امریکی سامراج کے خلاف خطے میں ایک نئی تاریخ رقم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، کیونکہ وہی جنگیں شروع کرتے ہیں اور وہ ہر طرح سے اور نئے ہتھیاروں سے اسرائیل کی حمایت کر رہے ہیں،لیکن وہ فلسطینی بچوں کیلئے کچھ نہیں دے رہے ہیں۔
مارکس کا ڈارون کو تحفہ: سرمایہ
”چارلز دارون کے نام۔ ان کے ایک دلی مداح کی جانب سے“۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس کتاب کو چارلز دارون نے پوری طرح نہیں پڑھا کیونکہ کچھ صفحے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ممکن ہے اسی بات کو سنسنی خیز انداز میں پیش کرنے کے لئے سی این این کو یہ خبر دینے کی سوجھی۔
ڈارون نے کتاب وصول ہونے پر شکریہ کا جو نوٹ مارکس کو لکھا، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ڈارون نے یہ کتاب کیوں نہیں پڑھی۔ ڈارون نے لکھا:’سرمایہ‘ پر آپ نے اپنی سابدار تحریر ارسال کی جو میرے لئے ایک اعزاز ہے۔ میں ایمانداری سے سمجھتا ہوں کہ میں اس تحفے کے لائق نہ تھا کہ میں سیاسی معیشیت بارے زیادہ نہیں جانتا۔
ڈارون نے مزید لکھا:”گو ہماری تحقیق ایک دوسرے سے میل نہیں کھاتی مگر ہم دونوں سنجیدگی سے یہ چاہتے ہیں کہ علم میں اضافہ ہو کہ طویل المدتی بنیاد پر یہ اضافہ انسانیت کی خوشی میں اضافے کا باعث بنے گا“۔
آسٹریلیا: فلسطین کے لئے 20 ہفتوں سے مسلسل مظاہرے، وزیر اعظم کا حلقے میں داخلہ بند
انہوں نے ”روزنامہ جدوجہد“ سے بات کرتے ہو کہا:”آسٹریلیا میں فلسطین سے یکجہتی کے لئے مسلسل 20 ہفتوں سے ملک بھر میں مظاہرے جاری ہیں۔ ان مظاہرین کی وجہ سے میڈیا کی ساکھ ختم ہو کر رہ گئی ہے“۔
انہوں نے بتایا کہ آسٹریلین میڈیا میں اسرائیل کے حق میں سو فیصد کوریج دکھائی دے رہی ہے۔”آسٹریلیا کے ریاستی براڈ کاسٹر سے ایک صحافی کو فلسطین سے حمایت کی وجہ سے نکال دیا گیا ہے“۔
ان کا کہنا تھا:”ایسے تمام صحافی جنہوں نے جرنسلٹ یونین کی اس اپیل پر دستخط کئے تھے جس میں صحافیوں سے کہا گیا تھا کہ وہ غزہ بارے صرف سچائی رپورٹ کریں گے،ان کو اب فلسطین بارے میڈیا میں بات کرنے سے روک دیا گیا ہے“۔
انہوں نے کہا کہ آسٹریلین وزیر اعظم کے انتخابی حلقے میں ان کے دفتر کا گھیرا دس دن سے جاری ہے۔”کل (21 فروری) میں بھی وہاں موجود تھا۔ یہ گھیراو دس دن سے جاری ہے۔ دس دن سے وزیر اعظم نے اپنے اس حلقے میں منہ دکھانے کی جرات نہیں کی“۔
راولا کوٹ کا گوردوارہ اور تقسیم کی ری پروڈکشن
وردوارے کی ایک دیوار پر مقبول بٹ شہید اور چے گویرا کے انمٹ امیج کندہ ہیں تو دوسری جانب ہتھوڑے اور درانتی کا انقلابی نشان۔
میرے ساتھ کچھ دوست تھے جن کا تعلق جے کے این ایس ایف سے ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ لوگ اس گوردوارے کی بحالی کے لئے کوئی مہم کیوں نہیں چلاتے؟
ان کا جواب سن کر اندازہ ہوا کہ تقسیم صرف 1947 میں نہیں ہوئی تھی۔ ہندوستان،پاکستان کے حکمران اسے روز میڈیا، نصابی کتابوں،فلموں اور دیگر نظریاتی آپریٹس کے ذریعے مسلسل ری پروڈیوس کرتے ہیں۔
”ہم نے ایک آدھ بار مطالبہ کیا،“ ایک کامریڈ نے جواب دیا”جس کی وجہ سے الٹا ہمارے خلاف پراپیگنڈہ شروع ہو گیا کہ یہ لوگ مسجد تو بنانے کی بات نہیں کرتے مگر گوردوارہ بنانا چاہتے ہیں“۔
لال خان تو زندہ ہے انقلاب کے نعروں میں
21 فروری 2024 کو عظیم انقلابی کامریڈ لال خان کی چوتھی برسی ہے۔جسمانی طور پر ہم سے جدا ہونے کے باجود کامریڈ لال خان اپنے نظریات کی صورت میں آج بھی زندہ ہیں۔دنیا کی اور بالخصوص پاکستانی کی موجودہ سیاسی، معاشی، معاشرتی،ثقافتی اور اخلاقی صورتحال کو سمجھنے کے لیے لال خان کا تجزیہ اور تناظر آج بھی حکمران طبقے کے دانشوروں سے ہزاروں گنا زیادہ رہنمائی فراہم کرتا ہے جو لاکھوں رویے تنخواہ لیتے ہیں اور زندہ ہوتے ہوئے بھی سماج کو سائنسی بنیادوں پر دیکھنے اور سمجھنے سے قاصر ہیں۔لال خان کی تقریریں سن کر اور تحریریں پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ ابھی بھی زندہ ہیں اور اس کیفیت کا تجزیہ کر رہے ہیں۔پاکستان میں حکمران طبقے کی لڑائی کھل کر منظر عام پر آ چکی ہے۔یہ لڑائی نظریات کی بنیاد پر نہیں ہے بلکہ مختلف سامراجی ممالک کے نمائندہ دھڑوں کے درمیان دولت اور طاقت کے حصول کی لڑائی ہے۔یہ کالےدھن پر پلنے والی مافیا کی سیاسی قتدار میں حصہ داری کی لڑائی ہے۔
لوگوں میں بہت غصہ ہے: پاکستانی انتخابات پر مدیر جدوجہد کا منصف ٹی وی سے انٹرویو
بھارتی شہر حیدر آباد میں قائم اردو چینل’منصف‘نے مدیر جدوجہدفاروق سلہریا اور اشوکا یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر امت جلکا سے پاکستانی انتخابات بارے انٹرویو کیا۔
لال خان: افکار تیرے ہونے کی گواہی دینگے!
سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کی ہر غلاظت کا خاتمے اورایک حقیقی انسانی معاشرے کے قیام کے ذریعے ہی ’ڈاکٹر لال خان‘ کی لازوال جدوجہد کو حقیقی خراج پیش کیا سکتا ہے۔