مزید پڑھیں...

چند ہفتوں میں 50 فیصد ٹیکسٹائل فرموں کے بند ہونے کا خدشہ

ٹیکسٹائل اور ملبوسات کے شعبے سے تعلق رکھنے والے صنعت کاروں نے کا کہنا ہے کہ صنعت نازک حالت میں ہے اور آنے والے مہینوں میں اس کے پوری معیشت پر بہت برے اثرات مرتب ہونگے۔ انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر فوری طور پر اصلاحی اقدام نہ اٹھایا گیا تو ٹیکسٹائل اور ملبوسات کے شعبے میں 50فیصڈ سے زائد فرموں کے بند ہونے کا خطرہ ہے، جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر بیروزگاری اور سماجی بدامنی پھیل سکتی ہے۔

سیاسی ابہام اور سماجی تناؤ: آئی ایم ایف سے رجوع کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے

’ٹربیون‘ کے مطابق عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی نے ’پاکستان میں غیر حتمی انتخابی نتائج کے بعد سیاسی غیر یقینی صورتحال برقرار اور کریڈٹ منفی‘ کے عنوان سے اپنی رپورٹ میں کہا کہ مجموعی طور پر اپریل 2024میں موجودہ پروگرام کی معیاد ختم ہونے کے بعد ایک نئے آئی ایم ایف پروگرام پر فوری مذاکرات کرنے کی پاکستان کی صلاحیت کے بارے میں غیر یقینی صورتحال بدستور برقرار ہے۔ حکومت کی کیلئے لیکویڈیٹی ور بیرونی کمزوری کے خطرات اس وقت تک بہت زیادہ رہیں گے جب تک قابل اعتبار طویل مدتی فنانسنگ پلان واضح نہیں ہو جاتا۔

چین پاکستان میں کوئلے کی فنانسنگ بند کرے: پاکستان کسان رابطہ کمیٹی

پاکستان کسان رابطہ کمیٹی نے چین پر زور دیا ہے کہ وہ پاکستان میں قابل تجدید توانائی میں سرمایہ کاری کرے۔ چین کے نئے قمری سال کے موقع پر پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کی جانب سے لاہور پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ اس احتجاج میں لیبر ایجوکیشن فاؤنڈیشن اور تامیر نو ویمن ورکرز آرگنائزیشن سمیت دیگر سرگرم گروپوں نے بھی حصہ لیا۔

تحریک انصاف کو 10 سالہ کارکردگی پر نہیں بلکہ دیگر وجوہات پر ووٹ ملا: ڈاکٹر نورین نصیر

”تحریک انصاف کو 10سال کے دوران خیبرپختونخوا میں اپنی کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ نہیں ملا۔ بی آر ٹی کے علاوہ ان کی کوئی کارکردگی ووٹ ملنے والی نہیں تھی۔ پبلک یونیورسٹیاں پرائیویٹ یونیورسٹیوں سے بھی مہنگی ہو گئی ہیں اور بحران کا شکار ہیں۔ تعلیم، صحت اور انفراسٹرکچر کے شعبوں میں انہوں نے کوئی کام نہیں کیا۔ ماحولیات کا تو بیڑا ہی غرق کیا گیا۔ انہیں ہمدردی کا ووٹ ملا، پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے کی گئی مہنگائی، نوجوانوں کو متاثر کرنے والے بظاہر اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ اور غلامی سے آزادی کے نعرے کی وجہ سے نوجوانوں اور خواتین کا ووٹ ملا۔ پورے پاکستان میں متبادل سیاست کیلئے ایک بہت بڑا خلاء ہے۔ نوجوان اکثریت میں ہیں انہیں قائل کرنے والے قومی سطح کے متبادل کی ضرورت ہے۔“

الیکشن کمپئین، نتائج اور آگے کا لائحہ عمل

پی پی 160 میں حقوق خلق پارٹی نے ایک شاندار انتخابی مہم چلائی جس کو علاقے اور قومی میڈیا پر سراہا گیا۔ لیکن اس بھرپور کیمپین کے نتیجے میں ہمیں صرف 1573 ووٹ ملے جو ہماری محنت کی عکاسی نہیں کرتی۔ آخری دنوں میں ووٹوں کی خرید و فروخت، انتظامیہ کی طرف سے پولنگ ڈے پر دھاندلی، انٹرنیٹ کی بندش اور ہماری الیکشن ڈے کی کمزوری کی وجہ سے بھی ہمارا ووٹ ضائع ہوا۔ لیکن پھر بھی کیمپین کی توانائی اور ووٹوں میں فرق کا حقیقت پر مبنی گہرا سیاسی اور نظریاتی جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ اس کے پیش نظر ہم باائیں بازو کو آگے بڑھا سکیں۔

نئی دہلی: ہزاروں کسانوں کے احتجاجی مارچ پر پولیس کی شیلنگ

بھارتی حکومت کے ساتھ مذاکرات ناکام ہونے کے بعد دارالحکومت نئی دہلی میں ہزاروں کسانوں کے مارچ کو روکنے کیلئے بھارتی فورسز نے منگل کے روز آنسو گیس کی بھاری شیلنگ کی۔ کسان فصل کی کم از کم قیمت کا مطالبہ کر رہے تھے۔

بایاں بازو اور الیکشن: انتخابی ناکامی سے بڑی شکست حکمت عملی کا فقدان ہے

پہلی بات: جب تک بایاں بازو ملک بھر میں امیدوار کھڑے نہیں کرے گا،تب تک وہ کوئی ایک حلقہ بھی نہیں جیت سکے گا۔یہ حکمت عملی کہ ہم ایک حلقہ میں چند سماجی کام کر کے الیکشن جیت جائیں گے، احمقانہ حد تک غلط حکمت عملی ہے۔ اس کا ایک نتیجہ تو یہ نکلتا ہے کہ ساری جدوجہد ایک شخص کے گرد گھومنے لگتی ہے۔یوں ایک حد تک بورژوا جماعت اور سوشلسٹ جماعت کا فرق ہی ختم ہو جاتا ہے۔نظریات پیچھے چلے جاتے ہیں۔
بایاں بازو اس وقت تک ابتدائی انتخابی کامیابیاں حاصل نہیں کر سکے گا جب تک وہ ملک بھر میں،ہر حلقے سے امیدوار کھڑے نہیں کرے گا۔ اس صورت میں کہ جب بائیں بازو کو ملک گیر سطح پر چار پانچ فیصد ووٹ پڑے گا، تب ہی دو چارحلقوں سے کامیابی ملے گی۔
اپنی موجودہ تنظیمی شکل میں اس کے اندر یہ سکت نہیں کہ وہ ہر حلقے سے امیدوار بھی کھڑے کر سکے اس لئے ضروری ہے کہ ترقی پسند،سیکولر قوم پرست جماعتوں سے انتخابی اتحاد (جس کی کئی شکلیں ہو سکتی ہیں،مثلا سیٹ ایڈجسٹ منٹ وغیرہ) بنایا جائے۔ قوم پرست پہلے سے اس حیثیت میں ہیں کہ چند نشستیں جیت سکتے ہیں۔ یہ صورت حال قوم پرستوں کے بھی مفاد میں ہے اور بائیں بازو کے لئے بھی سود مند۔ زیادہ تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں کہ اس پت کئی بار بات ہو چکی ہے۔پاکستان میں بایاں بازو تب ہی طاقتور ہوا جب قوم پرست قوتوں سے اتحاد بنایا گیا۔ اس اتحاد کے لئے یہ بھی ضروری ہے بایاں بازو قوم پرستی بارے لینن وادی موقف اختیار کرے اور اپنی نظریاتی گومگو کو ترک کرے۔

گرمسیری گلاگ 

انڈونیشیا کے جزیرہ بورو پر مقید ایک قیدی آٹھ سال تک ہر رات ظلم، بیماری اور دبے پاؤں آنے والی مخبوط الحواسی سے لڑنے کے لئے اپنے ساتھ قید سیاسی مجرموں کو قصے کہانیاں سناتا۔ یوں ان کے دل میں امید کی شمع روشن رہتی۔ اس کی باتیں سنتے سنتے قیدی لمحہ بھر کو بھول جاتے کہ وہ کہاں ہیں اور کس نے یہ طویل مصیبت ان کے سرمونڈھ دی ہے۔ یہ قصہ گو انڈونیشین بائیں بازو کا معروف دانشور اور شاندار لکھاری پروموئدا آنتا توئر تھا۔ 1965ء میں جکارتہ اندر ہونے والی بغاوت کے بعد توئر نے جزیرہ بورو کے اس جہنم میں بارہ سال گزارے-97 اس جہنم کو آپ سربیائی گلاگ کا خط استوائی نعم البدل قرار دے سکتے ہیں۔ تین ہزار سے زائد راتیں پرام نے یوں کاٹیں کہ وہ اپنے سمیت تمام قیدیوں کو ایک ایسی دنیا بارے سوچنے پر مجبور کرتا جہاں ادب بے درد ہو کر تاریخ سے گھل مل جاتا ہے۔

عوام کا ریاستی جبر کیخلاف رد عمل، ایک عوام دشمن حکومت بننے جا رہی ہے

یہ انتخابات بنیادی طور پر آئی ایم ایف کی پالیسیوں کا اطلاق کرنے والوں، مہنگائی کے ذمہ داروں اور ریاستی جبر کرنے والوں کے خلاف ایک واضح آواز بن کر ابھرے ہیں۔ لوگوں کا رد عمل واضح طور پر ان پالیسیوں کے خلاف ہوا ہے، جو پی ڈی ایم کی حکومت 16ماہ کے دوران نافذ کرتی رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نگران حکومت نے جو فیصلے کئے ہیں، ان سے بالکل واضح نظر آرہا تھا کہ یہ نگران حکومت بھی سابقہ پی ڈی ایم کے ہی معاشی فیصلوں کو آگے بڑھا رہی ہے۔