فارو ق سلہریا
چند روز قبل، رائیونڈ لاہور میں واقع بحریہ آرچرڈ جانے کا اتفاق ہوا۔ بحریہ کے دیگر منصوبوں کی طرح یہاں بھی مذہب،فوج اور نقالی پر مبنی آرٹ کا بدمزہ امتزاج جا بجا دکھائی دیا۔
بحریہ آرچرڈ میں شریف سٹی کی جانب سے داخل ہوئے تو مرکزی شاہراہ ایک شہید کرنل کے نام منسوب تھی۔ کھمبوں پر اللہ تعالی کے ننانوے ناموں کی تختیاں نصب تھیں۔
ایک اچھی چیز جس پر نظر پڑی وہ کتب خانہ تھا۔ کتب خانے اور یونیورسٹیاں کوئی بھی بنائے، اچھا کام ہوتا ہے۔
مجھے جس دوست کے گھر جانا تھا،وہ ایک ایسے پارک کے پاس رہائش پزیر ہیں جو لندن کے ٹریفلگر اسکوائر کی بھدی نقالی ہے۔ مندرجہ ذیل تصویر اسی دیسی ٹریفلگر اسکوائر کی ہے:
پاس میں ایک چڑیا گھر بھی تھا (ویسے تو پورا بحریہ ہی چڑیا گھر ہے)۔معلوم نہیں یہ کس جگہ کی نقالی ہے۔مجھے ایسے لگا کہ جرمنی کے شہر ہامبرگ کے چڑیا گھر کے داخلے دروازے کی نقالی کی گئی ہے:
چڑیا گھر پر پھر کسی وقت بات کریں گے۔ ابھی بات ٹریفلگر اسکوائر تک محدود رکھتے ہیں۔
ٹریفلگر اسکوائر نپولین کے خلاف برطانوی جیت کی یاد گار ہے۔ اس چوک میں نصب کنکریٹ کے بنے دیو ہیکل شیر آرٹ کا نمونہ سمجھے جاتے ہیں۔ یہ چوک اس لئے بھی مشہور ہے کہ یہاں سیاسی جلسے منعقد ہوتے ہیں۔ روز روز کا رونق میلہ الگ سے ہے۔ یہ لندن کا ایک مقبول سیاحتی مرکز ہے۔
اگر آپ برصغیر سے تعلق رکھتے ہیں تو اس چوک کی سیر آپ کا مزا بھی کرکرا کرتی ہے کہ یہاں ایک کونے میں جنرل ہنری ہیولاک کا مجسمہ نصب ہے جس نے 1857 کی جنگ آزادی میں ہندوستانی آزادی پسندوں کا خون بہایا۔
مصیبت یہ ہے کہ بحریہ میں رہنے والی اکثریت ایسی ہے جن کے نزدیک تاریخ کا آغاز2011 میں مینار پاکستان پر ایک یاد گار جلسے سے ہوا جو 1940 کے بعد دوسرا اہم ترین جلسہ تھا۔ ایسے میں ٹریفلگر اسکوائر میں لگے جنرل ہیولاک کے مجسمے پر کوئی کیوں پشیماں ہو۔
معلوم نہیں جنرل ہیو لاک بارے ملک ریاض کو خود بھی معلوم ہے کہ نہیں۔ ٹریفلگر اسکوائر تو ضرور گئے ہوں گے۔۔۔لیکن دیسی ٹریفلگر اسکوائر کے مرکزی مینار کی چوٹی پر اللہ لکھنے کے بعد،ملک ریاض نے مینار کے چاروں جانب ایسے بہادر فوجیوں کی شبیہہ بنوائی ہے جنہوں نے کسی نامعلوم نپولین کو شکست دینے کے بعد فاتحانہ انداز میں مٹھیاں ہوا میں بلند کر رکھی ہیں۔
مجھے سب سے زیادہ ہنسی شیروں پر آئی۔ میں باقاعدہ ایک شیر کے قریب گیا۔ یہ شیر بد مزہ نقالی تو ہیں ہی،کنکریٹ کے بھی نہیں بنے ہوئے۔ پلاسٹر کے بنے اس شیر کو کوئی بچہ بھی زور سے ٹھڈا مارے تو شیر کے پیٹ میں سوراخ ہو جائے۔ یقین کیجئے! مجھے ایک طرح ان شیروں کی حالت پر خوشی بھی ہوئی۔ یہ نقالی پر مبنی شیر پاکستان کی اشرافیہ کی بہترین علامت ہیں: جعلی، کھوکھلے،نقالی پر مبنی، اوریجنلٹی سے عاری کیونکہ اوریجنلٹی کے لئے تخلیقی صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ تخلیق کے لئے سوچ کی ضرورت ہوتی ہے۔ سوچ اس طبقے میں نا پید ہے۔
اس اشرافیہ کی خوش قسمتی یہ ہے کہ اس کے پاس خود سے بھی زیادہ رجعتی،جعلی،سوچ دشمن درمیانہ طبقہ موجود ہے جو بڑے فخر سے بحریہ میں رہتا ہے اور ہاوس وارمنگ کے موقع پر دوستوں رشتے داروں کو دعوت پر بلائے تو پڑوس والے بلاک کی سیر بھی کراتا ہے جہاں ملک ریاض نے ایفل ٹاور بنا رکھا ہے۔
لگے رہو منا بھائی!
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔