پاکستان

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں عوامی بغاوت کے 5 ماہ: میڈیا خاموش

حارث قدیر

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں 9 مئی 2023ء کو ایک دھرنے سے شروع ہونے والی تحریک کو 5 ماہ مکمل ہو چکے ہیں۔ راولاکوٹ شہر کے ایک بازار میں دیئے گئے دھرنے سے شروع ہونے والی یہ تحریک اب پورے پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے طول و عرض میں پھیل چکی ہے۔

مقامی حکومت اس تحریک کو تقسیم کرنے اور کچلنے کیلئے مختلف حربے اپنانے کے بعد اب انسداد دہشت گردی اور بغاوت کے مقامات قائم کر کے گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کر چکی ہے۔ درجنوں مقدمات میں اس وقت تک 50 سے زائد رہنماؤں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ تاہم تحریک کی قیادت نے مزید ایک ماہ کا احتجاجی شیڈول جاری کر دیا ہے۔

اس تحریک کا سب سے اہم اور کامیاب ہتھیار بجلی کے بلوں کا بائیکاٹ ہے۔ گزشتہ دو ماہ سے بجلی کے بلوں کا بائیکاٹ کیا جا رہا ہے۔ ماہ اگست میں پونچھ اور میرپورڈویژن میں بجلی کی بلوں کا بائیکاٹ کیا گیا، جبکہ ماہ ستمبر میں مظفرآباد ڈویژن نے بھی بجلی کے بلوں کا بائیکاٹ شروع کیا۔ مجموعی طور پر 70 فیصد سے زائد بلوں کا بائیکاٹ کیا گیا اور بجلی کے بل شہریوں سے جمع کر کے مختلف شہروں میں نذر آتش بھی کئے گئے اور کچھ شہروں میں بلوں کی کشتیاں بنا کر انہیں دریاؤں میں بہایا گیا۔

بجلی بلوں کے بائیکاٹ کو حکومت نے بغاوت اور دہشت گردی قرار دے کر مقدمات قائم کئے ہیں۔ تاہم مطالبات کی منظوری تک بجلی کے بلوں کا بائیکاٹ جاری رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے۔

اس تحریک کے دوران متعدد مرتبہ شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتالیں کی گئی ہیں، لاکھوں افراد پر مشتمل احتجاجی ریلیاں اور جلسے منعقد کئے گئے ہیں۔ گزشتہ دو ماہ کے دوران پورے پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے ضلعی صدر مقامات، تحصیل صدر مقامات کے علاوہ یونین کونسل اور دیہات کی سطح پر عوامی ایکشن کمیٹیاں قائم کی گئی ہیں۔ ان تمام کمیٹیوں کو منظم کرنے کیلئے 30 رکنی ’جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی‘ تشکیل دی گئی ہے۔

اگلے مرحلے میں خواتین اور طلبہ کے احتجاجی مظاہرے منعقد کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ تحریک کے دوران تمام احتجاجی کیلنڈر مکمل طور پر پرامن اور رضاکارانہ احتجاج پر مبنی رکھا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کے پاس اس تحریک کو کچلنے کیلئے تقسیم کرنے کے حربوں اور سازشوں کے علاوہ کوئی راستہ موجود نہیں تھا۔ جب تقسیم میں ناکامی ہوئی توپھرحکومت نے بجلی بلوں کو نذر آتش قرار دینے اور دریاؤں میں بہانے کو غیر قانونی اقدام قرار دے کر مقدمات قائم کئے ہیں۔ تاہم گرفتاریوں کے بعد بھی تحریک کے تسلسل میں کمی آنے کی بجائے مزید اضافہ ہوا ہے۔

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں 1947ء کی بغاوت کے بعد قائم ہونے والی حکومت کی برطرفی کے خلاف جمہوریت کے قیام کیلئے تحریک ابھری تھی، جو مسلح عوامی بغاوت میں تبدیل ہو گئی تھی۔ تاہم 6 سال تک چلنے والی یہ بغاوت بالآخر ’معاہدہ بارل‘ کے بعد اختتام پذیر ہوئی تھی۔ اس کے بعد اس خطہ سے بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر کوآزاد کروانے کی جدوجہد قوم پرستی اور پاکستان نواز سیاست کے تحت چلتی رہی۔ منگلا ڈیم کی تعمیر کے خلاف تحریک سمیت مختلف مراحل پر طبقاتی مسائل کے خلاف بھی جدوجہد جاری رہی، تاہم بہت بڑی کامیابیاں نہیں سمیٹی جا سکیں اور ریاست کے ساتھ تصادم کے نتیجے میں یہ تحریکیں ہمیشہ ناکامی یا چند مطالبات کی منظوری پر منتج ہوتی رہی ہیں۔

اس خطہ میں پیدا ہونے والی بجلی اور دیگر وسائل پر اختیار کیلئے جدوجہد بھی مختلف مراحل میں جاری رہی۔ اس جدوجہد کو بھی حکومت کی جانب سے مختلف حیلے بہانوں سے کچل یا معاہدوں اور مذاکرات کے ذریعے ختم کر دیا جاتا رہا ہے۔ قومی حق خودارادیت کی جدوجہد البتہ سیاسی افق پر ہمیشہ ہی مقبول رہی ہے۔ اس دوران مسلح جدوجہد سے لیکر لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کو توڑنے کی متعدد کوششیں بھی کی گئیں۔

5 اگست 2019ء کو بھارت کی جانب سے اپنے زیر انتظام جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں بھرپور عوامی رد عمل کا مظاہرہ کیا گیا۔ اس دوران ایل او سی کو عبور کرنے کیلئے لانگ مارچ کے علاوہ مظفرآباد کی حکومت کو بااختیار بنانے کیلئے بھی مارچ کئے گئے۔ اس تحریک کو بھی قوم پرستی کی بنیاد پر ہی منظم کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ کنٹرول لائن کو عبور کرنے کیلئے دو بڑے لانگ مارچ اور مظفرآباد کی جانب ایک سے زائدلانگ مارچ ناکام ہونے کے بعد پھیلنے والی مایوسی نے عوامی حقوق کی جدوجہد کو مقامی سطح پر استوار کرنے کا راستہ ہموار کیا۔

2020ء سے طبقاتی مسائل پر احتجاجی تحریکوں کو منظم کرنے کیلئے ترقی پسند اور قوم پرست قیادتوں کی جانب سے کوششیں شروع کیں۔ کورونا کے بعد عالمی معاشی بحران میں تیزی اور عالمی سطح پر مہنگائی کی لہرنے اس جدوجہد کو مزید مہمیز بخشی۔ بنیادی خوراک اور توانائی کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے اس خطے میں احتجاجی تحریکوں کے نئے دور کا آغاز ہوا۔

اس نئے دور میں جنوری 2021ء سے بڑے پیمانے پر عوامی پرتوں کو متحرک کرنے والی تحریکوں نے 2022ء میں پورے پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں پھیلنے والی عوامی تحریک میں تبدیل کر دیا۔ عوامی ایکشن کمیٹیوں کے زیر اہتمام اس تحریک کو البتہ ریاست نے بری طرح سے کچلنے کیلئے بھیانک تشدد اورکریک ڈاؤن کیا۔ روایتی سیاسی قیادتوں کو تحریک میں لاتے ہوئے ایک معاہدے کے ذریعے سے قیدیوں کو رہا کیا گیا۔ مسائل کے حل کیلئے تین ماہ کا وقت لینے کا معاہدہ کیا گیا اور اس کے بعد بجلی اور گندم کی قیمتوں میں مزید اضافہ کر دیا گیا۔

حکومت کی اس وعدہ خلافی کے خلاف ایک مرتبہ پھر ستمبر میں ’عوامی حقوق تحریک‘ کا آغاز کیا گیا اور بجلی کے بلوں کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا گیا۔ اس تحریک کے مطالبات میں بجلی کی منگلا اور نیلم جہلم منصوبوں کے پیداواری نرخوں پر فراہمی، گندم اور دیگراشیائے خوردونوش پر سبسڈی کی فراہمی اور حکمران اشرافیہ کی مراعات کے خاتمے سمیت دیگر ذیلی مطالبات شامل تھے۔ عوامی حقوق تحریک کو مقبولیت البتہ اس قدر حاصل نہیں ہو سکی، جس کی بنیادی وجہ چند ماہ قبل عوام کے ساتھ ہونے والا ریاستی دھوکہ بھی تھی۔ بجلی بلوں کے بائیکاٹ کا سلسلہ چھوٹے پیمانے پر البتہ جاری رہا۔

مئی 2023ء میں ایک بار پھر عوامی حقوق تحریک کا آغاز ہوا اور بتدریج بجلی کے بلوں کے بائیکاٹ کا اعلان پورے پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں کیا گیا۔ یہ بائیکاٹ کا سلسلہ اب مطالبات کی منظوری تک جاری رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے۔

حکومت کی جانب سے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذاکرات کی بجائے تحریک کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کرنے کی کوششیں بھی عروج پر ہیں۔ اس سلسلہ میں مختلف شہروں سے ترقی پسند اور قوم پرست کارکنوں کو ہی زیادہ تر گرفتار کیا جا رہا ہے اور یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ قوم پرست عناصر بدامنی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اس تحریک کو تعمیر کرنے میں بائیں بازو کے سیاسی کارکنوں کا کلیدی کردار ہے۔ اس کے چارٹر آف ڈیمانڈ کی تیاری، لائحہ عمل کیلئے مشاورت اور طویل عرصہ سے قومی محرومی کے خلاف جدوجہد کو طبقاتی بنیادوں پر استوار کرنے کیلئے ان کی کاوشیں اس تحریک کے ابھرنے کیلئے اہم محرک رہی ہیں۔ دیہاتوں اورگلی محلوں کی سطح پر اس تحریک کو پھیلانے اور منظم کرنے میں بھی ترقی پسند سیاسی کارکنوں کا کردار کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی پسند کارکنوں کو گرفتار کرنے یا مقدمات میں الجھانے کی وجہ سے تحریک کو کمزور کرنے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے۔ ساتھ ہی یہ پروپیگنڈہ کرنے میں بھی مدد مل رہی ہے کہ یہ تحریک قوم پرست یا علیحدگی پسند قیادت کی ایماء پر کسی مخفی ایجنڈے کے تحت چل رہی ہے۔

اس تحریک کی سب سے اہم بات یہی ہے کہ اس نے محنت کش طبقے اور حکمران اشرافیہ کے مابین ایک لکیر کھینچ لی ہے۔ حکمران اشرافیہ کے نمائندگان اس تحریک میں اپنی مداخلت کرنے کی حیثیت بھی کھو چکے ہیں۔ حکمران اشرافیہ کے نمائندگان بالخصوص ممبران اسمبلی، سابق و موجودہ وزرا کو اس تحریک کا حصہ بننے کیلئے مراعات سے دستبردار ہونے کی شرط بھی عائد کی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکمران اشرافیہ اس تحریک کو کچلنے کیلئے ہر حربہ اپنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ تحریک جتنی گراس روٹ لیول تک پھیل چکی ہے، اس کو کچلنا یا ناکام بنانا اب اس حکومت کے بس میں نہیں رہا ہے۔ پاکستان سے ایف سی، پی سی، رینجرز جیسی پیراملٹری فورسز منگوانے کی بازگشت بھی جاری ہے۔

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں مجموعی طور پر اس تحریک نے ماضی کی تمام تر تاریخ کی مزاحمت کی ایک نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔ پاکستان کے قومی میڈیا سمیت دنیا بھر کے میڈیا میں اس تحریک کو کوریج فراہم کرنے سے احتیاط برتی جا رہی ہے۔یہاں تک کہ بھارتی میڈیا پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں ہونے والے ہر احتجاج کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے میں ہمیشہ سرگرم رہا ہے۔ رواں تحریک کو البتہ بھارتی میڈیامیں بھی جگہ نہیں مل رہی ہے۔

سوشل میڈیا کے بھرپور استعمال، مستقل مزاجی اور پرامن طریقہ احتجاج نے اس تحریک کو سماج کی ہر پرت تک سرائیت کروانے میں بنیادی کردارادا کیا ہے۔ تاہم اگر پاکستان سے پیراملٹری فورسز کو منگوایا جاتا ہے تو نہ صرف یہ تحریک پرتشدد رخ اختیار کر سکتی ہے بلکہ کھلی جنگ کی شکل اختیار کرنے جیسا عمل بھی خارج از امکان نہیں ہے۔

تحریک کے اندر قیادتوں کی چپقلشوں، مختلف قیادتوں کے درمیان ہم آہنگی کے فقدان سمیت اپنے اپنے مقاصد کے حصول کی کشمکش کے باوجود بنیادی تین مطالبات اور پرامن کردار پر سب کی یکسوئی بھی اس تحریک کے مسلسل کامیابی سے پھیلنے کی ایک اہم وجہ ہے۔ تاہم اس تحریک کی کامیابی کا دارومدار پھر پاکستان کے چاروں صوبو ں میں اس کے پھیلنے پر منحصر ہے۔ پاکستان کے محنت کش طبقے کی ہراول پرتوں کی جانب سے اس تحریک کو ملنے والی معمولی سطح کی حمایت کو مجموعی محنت کش طبقے کی تحریک کی حمایت میں بدلنے کی ضرورت ہے۔

اس خطہ کی مخصوصی جغرافیائی ہیت، متنازعہ سیاسی حیثیت سمیت دیگر بے شمار ایسے معروضی محدودیت کے پہلو ہیں، جن کی وجہ سے اس خطے میں 70 فیصد سے زائد شہریوں کی تحریک میں شمولیت کے باوجود کسی بڑی سماجی تبدیلی میں اس تحریک کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم اس تحریک میں وہ عناصر ضرور موجود ہیں کہ اس کو پاکستان سے ملنے والی حمایت پاکستان بھر میں محنت کشوں کی ایک منظم تحریک کی بنیادیں ڈالنے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔ پہاڑوں سے اٹھنے والی عوامی مزاحمت کی یہ للکاربرصغیر کے محنت کشوں کے مقدر بدل سکتی ہے۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔