دنیا

امہ کے صیہونی اور شرعی اسرائیل

حارث قدیر

یوں تو اسرائیل سامراج کا آبادکاروں پر مشتمل ایک کلونیل منصوبہ ہے، جس کا موازنہ کسی دوسرے ملک سے نہیں کیا جا سکتا۔ حالانکہ اس کا موازنہ سابق پاکستانی آمر جنرل ضیاء الحق نے پاکستان سے کرتے ہوئے یہ قرار دیا تھا کہ دونوں ملک مذہب کے نام پر بنے ہیں۔ اسی طرح حال ہی میں نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے بھی پاکستان کو چین کا اسرائیل قرار دیا۔

یہ درست ہے کہ پاکستان اور اسرائیل مذہب کی بنیاد پر قائم کئے گئے سامراجی منصوبے ہیں۔ تاہم اسرائیل غیر مقامی صیہونیوں کی جبری آبادکاری کے ذریعے مقامی فلسطینیوں کو اپنی آبائی زمینوں سے بے دخل کر کے قائم کیا جانے والا اس دنیا کااپنی نوعیت کا واحد منصوبہ ہے۔ بہر حال یہ ایک اکیڈمک بحث ہے، جس میں پڑے بغیر اس وقت مسلم ممالک کے حکمران طبقات اور بنیاد پرستی کی منافقت کو زیر بحث لانا مقصود ہے۔

دیکھا جائے تو ہر بڑے مسلمان ملک کا ایک اپنا ’اسرائیل‘ ہمیں نظر آئے گا، جہاں بڑے پیمانے پر قتل عام کیا گیا ہے یا قتل عام کا سلسلہ جاری ہے۔پاکستانی ریاست نے بنگلہ دیش میں قتل عام کی ایک تاریخ رقم کر رکھی ہے۔ بلوچستان اور وزیرستان میں یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ کسی حد تک جموں کشمیر کو بھی اسی صف میں رکھا جا سکتا ہے، جہاں قتل عام تو نہیں لیکن آبادکاری سمیت وسائل کی لوٹ مار نوآبادیاتی نظام کے تحت ہی جاری ہے۔

ترکی کی اسرائیل کے ساتھ اڑھائی ارب ڈالر کی تجارت ہے۔ دوسری طرف کردوں کے ساتھ ترک ریاست کی جانب سے وہی سلوک کیا جا رہا ہے، جو فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیلی ریاست کی جانب سے روا رکھا گیا ہے۔ اسی طرح سعودی عرب کی ریاست کا یمن کے ساتھ بھی سلوک کچھ اس سے ہٹ کر نہیں ہے۔ گزشتہ 50سالوں کے دوران یمن پر دو دفعہ جنگ مسلط کی جا چکی ہے۔

انڈونیشیانے مشرقی تیمور میں فی کس آبادی کے تناسب سے دنیا کا سب سے بڑا قتل عام کر رکھاہے۔ اسی طرح آچے میں مسلسل قتل عام کیا جا رہا ہے۔

ایران اور افغانستان میں اپنی ہی عوام کے ساتھ فلسطینیوں کے جیسا سلوک روارکھا جا رہا ہے۔ اسرائیل میں اگر مذہبی بنیادوں پراپارتھائیڈ کیا جا رہا ہے تو ایران اور افغانستان میں ’میل اپارتھائیڈ‘ ہے۔ طالبان چھوٹی قوموں، بالخصوص شیعوں پر مظالم ڈھا رہے ہیں، جبکہ ایرانی ملا اشرافیہ کردوں، بلوچوں اور سنیوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہی ہے۔

چند روز پہلے اردن کی طرف سے فلسطین کے حق میں قرارداد بھی پیش کی گئی۔ اردن کے سفیر نے ایک تقریر بھی کی، جس کی کافی تعریف کی جا رہی ہے۔ تاہم یہ اردن ہی تھا، جس کی شہرت 1970کے بلیک ستمبر سے ہے۔ فلسطینیوں کے اس قتل عام کی قیادت بریگیڈیئر ضیاء الحق نے کی تھی۔ بلیک ستمبر کو فلسطینیوں کا اتنا بڑا قتل عام قرار دیا جاتا ہے، جس کا ارتکاب ایک ہی وقت میں اسرائیل بھی ابھی تک نہیں کر سکتا۔ ایک اسرائیلی جنرل سے تو یہاں تک منسوب ہے کہ انہوں نے کہا کہ اتنے فلسطینی تو ہم نے 25سال میں نہیں مارے جتنے انہوں نے 25گھنٹوں میں مار دیئے۔

یوں اردن کی جانب سے آج فلسطینیوں کی حمایت باقی مسلم ریاستوں کے حکمران طبقات کی جانب سے کی جانے والی منافقانہ لفاظی اور بیان بازی سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ عرب بادشاہتوں کی سامراجی آشیرباد میں اسرائیلی بربریت پر چشم پوشی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔

اس طرح فلسطینیوں کے لئے امہ کے نام پر حکمران طبقات کی جعلی یکجہتی سے زیادہ محنت کشوں اور مظلوم قومیتوں کی یکجہتی کہیں زیادہ اہم اور وقت کی ضرورت ہے۔ فلسطین کی آزادی محنت کشوں کے عالمی اتحاد سے مشروط ہے۔ فلسطین کی آزادی سامراج کی پشت پناہی پر مظالم کی خونخوار تاریخ رقم کرنے والی اسرائیلی ریاست کے خاتمے سے مشروط ہے، اور سب سے بڑھ کر فلسطین کی آزادی سامراجیت پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے سے مشروط ہے۔

محنت کشوں کا اتحاد نہ صرف مظلوم قومیتوں کے حق آزادی کا ضامن ہو گا، بلکہ سامراجی ریاستوں اور سرمائے کے جبر سے نجات کا باعث بنے گا۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔