خان آتش
عام حالات میں سرمایہ دارانہ نظام میں مایوسی، تنہائی اور بیگانگی کا شکار انسانوں میں انقلابی تحریکیں زندگی کی نئی روح پھونک دیتی ہیں۔وہی انسان جو کل تک خود کو حکمرانوں کی طاقت اور ریاست کے سامنے کمزور اور بے بس سمجھ رہے ہوتے ہیں ،ان میں اجتماعی طاقت کا شعور بیدار ہوتا ہے۔غلامی کا طوق اتار پھینکنے کے بعد موت کے خوف سے آزاد ہو کر ان میں انسان ہونے کا احساس پیدا ہوتا ہے۔طبقاتی شعور تحریکوں میں تیزی بلند ہوتا ہے ،محنت کش حکمرانوں کی سازشوں کو فوری سمجھ لیتے ہیں اور ان کو ناکام بنانے کی اجتماعی کوششیں کرتے ہیں۔محنت کشوں میں ایک دوسرے کے لیے ہمدردی اور قربانی کا ایسا جذبہ جنم لیتا ہے ،جس کی نظیر معمول کے حالات میں نہیں ملتی ہے۔آزادی اور انقلاب کی تڑپ،کچھ کر گزرنے کے جذبات اور دیو ہیکل طاقتوں سے ٹکرا جانے کی جرأت اورحوصلہ ہر انسان میں موجود ہوتا ہے۔ایسی ہی کیفیت اور مناظر پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں عوامی حقوق تحریک کے مظفرآباد کی جانب لانگ مارچ کے دوران تھے ۔ اس خطے کی محکوم عوام نے اپنی اجتماعی طاقت کے ذریعے ریاستی جبر کو شکست دی اور سامراجی آقاؤں اور ان کے نمائندوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا۔بجلی اور آٹے کی قیمتوں میں کمی جموں کشمیر کے محنت کشوں کی بہت بڑی کامیابی ہے ،جس کے اثرات نہ صرف اس خطے کی سیاست پر مرتب ہوں گے ،بلکہ پاکستان کے محنت کشوں کے شعور پر بھی مرتب ہوئے ہیں۔
یہ کامیابی کسی فرد واحد یا چند افراد کی کوششوں کا نتیجہ نہیں ہے ،بلکہ لاکھوں محکوم انسانوں کی مشترکہ جدوجہد اور قربانیوں کا نتیجہ ہے۔اس تحریک کی کامیابی کے لیے بے شمار انسانوں کی قربانیاں شامل ہیں۔اس کامیابی میں مظفرآباد کے نوجوانوں کا لہو شامل ہے ،جو محنت کشوں اور نوجوانوں کو تشدد سے بچانے کے لیے رینجر کی گولیوں کے سامنے کھڑے ہو گئے ۔ایک سال سے جاری دھرنوں میں بیٹھے محنت کشوں اور سیاسی کارکنوں کی وقت کی قربانیاں شامل ہیں۔تشدد اور قیدو بند کی صعوبتیں جھیلنے والے آزادی پسند اور انقلابی سیاسی کارکنوں کی قربانیاں شامل ہیں۔اس تحریک کو نظریات، مطالبات، پروگرام اور نعرے دینے والی انقلابی تنظیموں کا کردار ہے ،جو طویل عرصے سے محنت کشوں کے انہی حقوق کی جدوجہد کرتی آئی ہیں۔اس وقت انقلابی رحجانات، طلبہ تنظیمیں اور پارٹیاں ان مسائل پر آواز بلند کرتی تھیں، جب کوئی بھی انسان جدوجہد پر تیار نہ تھا۔حکمرانوں نے سماج میں انقلابی نوجوانوں کو اچھوت بنا رکھا تھا۔ان پر دہریت، کفر اور غداری کے الزامات لگائے جاتے تھے،جو آزادی، انقلاب اور بنیادی انسانی حقوق کے حصول جدوجہد کی بات کرتے تھے۔انقلابی جدوجہد کو خاندان اور معاشرہ وقت کا ضیاع قرار دیتا تھا۔آج انہی انقلابیوں کے نعرے،سوچ ، نظریات اور مطالبات نوجوانوں، خواتین اور محنت کشوں کی اکثریت اپنا چکے ہیں۔انقلابی نظریات کی سچائی کو وقت نے ثابت کیا۔وہ لوگ بھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ سب کچھ بدل سکتا ہے ،جو کہتے تھے کچھ نہیں بدل سکتا ہے۔والدین جو عام حالات میں اپنے حقوق کی جدوجہد سے بچوں کو روکتے تھے وہ تحریک میں خود اپنے بچوں کو بھیج رہے تھے۔
عام طور پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ افراد تحریکوں اور انقلابات کو جنم دیتے ہیں ،جبکہ حقیقت میں تحریکیں افراد کو سامنے لاتی ہیں ،جو محنت کشوں کی مجموعی امنگوں اور جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ کوئی فرد اس وقت تک تحریک کی قیادت کر سکتا ہے ،جہاں تک وہ تحریک کے تقاضے پورے کرتا ہے ۔اس کا انحصار اس فرد کی نظریاتی وسعت اور بلند حوصلہ پر ہوتا ہے۔کسی بھی قسم کے تعصب، فروعی مفاد، تنگ نظری، پسماندگی، خودنمائی، موقع پرستی اور بزدلی جیسے مسائل کے شکار انسانوں کو تحریکیں اجتماعی مفاد کے لیے شہرت اور طاقت کی بلندیوں سے وہاں ہی پھینک دیتی ہیں جہاں سے ان کو اٹھایا ہوتا ہے۔
ہمیں تحریکوں کو واقعات کی بجائے سماج میں جاری عمل کے طور پر دیکھنا چاہیے۔ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں 2019 سے مختلف اوقات میں اس عمل کا اظہار ہوتا رہا ہے۔ تحریکیں ابھرتی اور پسپا ہوتی رہی ہیں ، اورپھر نئی قیادت اور نئے جذبے کے ساتھ دوبارہ اپنا اظہار کرتی رہی ہیں۔جب بھی قیادت نے حکمرانوں سے سمجھوتے کی کوشش کی تو عوام نے اسے مسترد کیا۔اپنی ماضی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے اور کمزوریوں پر قابو پا کر ہی موجودہ تحریک نے کامیابی حاصل کی ہے۔ماضی میں ابھرنے والی تحریکوں کی نسبت اس قیادت کی ایک خاصیت تحریک سے فوری نتائج حاصل کرنے کے لیے مہم جوئی سے اجتناب تھا۔مہم جوئی اور ریاست سے فوری ٹکرا جانے سے گریز کرنے کی وجہ قیادت کی حکمت عملی کے ساتھ عوام کے عمومی شعور کی بلندی تھی۔
حادثاتی طور پر ابھرنے والے افراد جو بظاہر تحریکوں کی قیادت کر رہے ہوتے ہیں، حقیقت میں تحریک ان کی قیادت کر رہی ہوتی ہے۔حالیہ تحریک میں ایک سال کے دوران کئی ایسے مواقع آئے، جب تاجر قیادت،جو جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی میں اکثریت میں ہے، نے اپنے مخصوص طبقاتی کردار کی وجہ سے تحریک کے نعروں کو مانگوں تک محدود کرنے کی کوشش کی ،جسے عوام نے ہر موقع پر مسترد کیا۔آزادی اور انقلاب کے نعرے اس تحریک کے مقبول نعرے رہے ہیں ،جو ریاست اور مقامی اشرافیہ کے ساتھ تحریک کے کچھ تاجر رہنماؤں کے لیے بھی درد سر رہے ہیں۔
ماضی کی تحریکوں کی نسبت اس تحریک کی ایک اور خاصیت اس میں خواتین کی شمولیت تھی۔خواتین کے احتجاجی مارچ سے قبل ریاست اورمذہبی دائیں بازو کی جماعتوں نے اس کے خلاف جہاں بیہودہ اور غلیظ پروپیگنڈہ کیااوراسے فحاشی قرار دیا ،وہاں اس تحریک کے ایک تاجر لیڈر عمرنذیر نے بھی خواتین کے حوالے سے نازیبا زبان استعمال کی ۔اسے میرا جسم میری مرضی والا مارچ کہہ کر خواتین کو چار دیواری میں پروگرام کرنے کا پابند کرنے کی کوشش کی۔قیادت کے انکار کے باوجود سیکڑوں خواتین نے راولاکوٹ میں احتجاجی مارچ کر کے قیادت کی رجعتی سوچ کو مسترد کیا۔ 5 فروری کو جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی قیادت نے جب عوامی مطالبات میں ترمیم کرتے ہوئے حکمرانوں سے سمجھوتا کیا اور تحریک کے خاتمے کا اعلان کیا ،تو ہزاروں کی تعداد میں عوام نے سڑکوں میں آ کر حکمرانوں کے ساتھ مصالحت کو مسترد کیا اور قیادت کو مجبور کیا کہوہ اس معاہدے سے انکار کرے ،جس پر وہ دستخط کر کے آئے تھے۔انقلابیوں کی تنقید اور عوامی دباؤ کے نتیجے میں قیادت نے 11 مئی کو مظفرآباد کی طرف لانگ مارچ کی کال دی۔
11 مئی سے شروع ہونے والے لانگ مارچ سے دو دن قبل 9 مئی کو میر پور ڈویژن میں تشدد اور گرفتاریوں نے سیاست کے سارے منظر کو ہی بدل دیا۔ عوامی بغاوت کی چنگاری آگ میں بدل گئی ،جو ساری ریاست میں پھیل گئی۔ہر جگہ پولیس اور مظاہرین کی جھڑپیں شروع ہو گئیں۔معمول کے حالات میں صرف حکمرانوں طبقہ طبقاتی اور قومی جبر کو جاری رکھنے کے لیے ریاستی جبر کا استعمال کرتا ہے اور محنت کش اس جبر کو خاموشی سے سہتے رہتے ہیں ،لیکن غیر معمولی حالات میں محنت کش جبر سہنے سے انکار کر دیتے ہیں۔میرپور کی محنت کش عوام اور نوجوانوں نے تشدد کا جواب تشدد سے دیتے ہوئے جب ریاستی جبر کو پسپا کیا تو اس عمل نے ساری ریاست میں جوش و جذبے کی ایک لہر دوڑا دی۔لاکھوں افراد اپنے حقوق کے لیے مر مٹنے پر تیار ہو گئے۔ مرکزی قیادت کی گرفتاریوں اور باہر موجود قیادت کی اکثریت کے روپوش ہونے کے باوجود ریاست گیر کامیاب احتجاجی مظاہروں اور لاک ڈاؤن کے بعد میرپور سے مظفرآباد کی طرف لانگ مارچ کا آغاز ہوا۔گرفتاریوں اور تشدد کے بعد لانگ مارچ کا فیصلہ مرکزی قیادت نے تذبذب کی کیفیت میں پہلے انکار کے بعد عوامی دباؤ میں کیا۔ لانگ مارچ تمام رکاوٹوں اور ریاستی جبر کو چیرتے ہوئے آگے بڑھا۔عوام کی بہت بڑی تعداد کی شرکت ، ان کے خود رو منظم ہونے کے عمل اور ریاستی جبر سے مقابلہ کرنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات نے ریاست کے ساتھ قیادت کو بھی بھوکھلاہٹ کا شکار کر رکھا تھا۔
اتنی بڑی تعداد میں عوام کی شمولیت کا اندازہ ریاست کے ساتھ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی قیادت کو بھی نہیں تھا۔قیادت عوام کے موڈ سے خوفزدہ تھی ،اور عوام کا سامنا کرنے کو تیار نہیں تھی۔اس کے باجود ہزاروں افراد ان کی رہنمائی کے منتظر تھے۔قافلے راولاکوٹ پہنچ کر گھنٹوں قیادت کا انتظار کرتے رہے اور قیادت عوام کو اعتماد میں لیے بغیراور عوام کو اندھیرے میں رکھ کرمذاکرات کے عمل میں مصروف تھی۔گھنٹوں انتظار کے بعد اطلاع دی گئی کہ مذاکرات ناکام ہو چکے ہیں ،ہمیں آج یہیں رکنا ہے۔اس اطلاع کے بعد مارچ نے خود ہی آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ہر شہر سے ہزاروں افراد اس مارچ کا حصہ بنے ،جس نے رات دھیرکوٹ میں قیام کیا۔ دھیرکوٹ میں بھی پھر اسی عمل کو دہرایا گیا۔مذاکرات کامیاب ہونے کی خبر اس وقت عوام تک پہنچی جب قافلہ مظفرآباد روانہ ہو چکا تھا۔یہ خبر قیادت کی بجائے انٹرنیٹ آن ہونے کے بعد سوشل میڈیا کے ذریعے پہنچی۔اب عوام لڑائی کی بجائے جشن منانے کے لیے مظفرآباد جا رہے تھے۔قافلہ جب مظفرآباد کے قریب پہنچا تو رینجرز کی فائرنگ سے مظاہرین کے شہید ہونے کی خبر عوام کو موصول ہوئی ،جس نے عوام کے رویے میں یکدم تبدیلی پیدا کردی۔گاڑیوں کے روکے جانے کے بعد عوام کی بڑی تعداد نے کئی کلو میٹر دوری سے پیدل شہر کی جانب مارچ شروع کر دیا۔جو لوگ قیادت کی رہنمائی کے منتظر تھے ،وہ صبح تک قیادت اور جلسہ گاہ کی تلاش میں رہے تاکہ قیادت کا اعلان سنا جائے۔
قیادت کی جانب سے کسی ایک مرکزی نقطے پر جمع ہونے کی ہدایت نہ ہونے کی وجہ سے لاکھوں افراد شہر کے مختلف مقامات پر بکھرے ہوئے تھے۔ رینجرز کے قتل عام کے بعد رینجرز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کو بروقت شہر سے ہٹایا نہ جاتا تو خونی تصادم کے امکانات موجود تھے۔اس کے باوجود کچھ ناخوشگوار واقعات پیش آئے۔جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی قیادت نے صبح چند لوگوں کی موجودگی میں مذاکرات کی کامیابی کا اعلان کیا۔انٹرنٹ کی بندش اور جلسہ گاہ میں مذاکرات کی کامیابی کا اعلان نہ کرنے کی وجہ سے مزید دو روز عوام ابہام اور تذبذب کا شکار رہے۔محنت کشوں کو اجتماعی طاقت کے احساس اور فتح کا جشن منانے سے محروم کرنے میں جہاں ریاست کا کردار ہے وہاں جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی نااہلی بھی شامل ہے۔
ہزاروں محنت کشوں، نوجوانوں،خواتین اور بزرگوں کی انتھک محنت اور جدوجہد کے نتیجے میں ہونے والی کامیابی کی ذمہ داری تو قیادت خود لے رہی ہے ،لیکن تحریک میں موجود کمزوریوں کی ساری ذمہ داری شر پسندوں پر ڈال رہی ہے۔یاد رہے اس لانگ مارچ کو حکمران طبقہ بھی بیرونی سازش قرار دے رہا ہے،جس کا ذمہ دار چند شر پسندوں کو قرار دیا جارہا ہے۔حکمران طبقہ عوامی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے انقلابیوں پر جو شر پسندی اور سازش کے الزامات لگاتا تھا تحریک کی قیادت بھی وہی الزامات عائد کر رہی ہے۔اسطرح قیادت نہ صرف پاکستان کے حکمران طبقے کو اپنی وفاداری ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ،بلکہ آزادی،خودمختاری،انقلاب اور ریاستی جبر کے خلاف لگنے والے نعرے ‘یہ جو دہشتگردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے’ کو سازش اور شر پسندی قرار دے رہی ہے۔قیادت ریاست کی طرح چند شر پسندوں کو جن نعروں کا ذمہ دار قرار دے رہی ہے ،ان چند شر پسندوں کی تعداد لاکھوں میں تھی ،جو یہ نعرے لگا رہے تھے۔
حکمران طبقہ الزام لگا رہا ہے کہ مارچ کے دوران پاکستان کا پرچم جلایا گیا جو انڈیا کی سازش تھی۔اس الزام کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔اسی طرح ایک تاجر رہنما الزام عائد کر رہا ہے وہاں سرخ پرچم لہرایا گیا جو سازش تھی۔راولاکوٹ کی تاجر قیادت انقلابیوں پر ایک الزام یہ بھی عائد کر رہی ہے کہ وہ تحریک میں اپنے نظریات کا پرچار کرتے ہیں۔یہ الزام بالکل درست ہے ۔انقلابی اپنے نظریات کا پرچار تحریکوں میں کرتے ہیں ۔اس تحریک میں بھی انہوں نے ایسا کیا ہے۔کیوں کہ انقلابی نظریات محنت کشوں کے اپنے نظریات ہوتے ہیں۔انقلابیوں کے نظریات واضح ہیں کہ حکمرانوں اور محنت کشوں کے مفادات متضاد ہیں ،جن کے درمیان ناقابل مصالحت جدوجہد ہے۔محنت کشوں کی حتمی فتح ان کا اپنا اقتدار ہے، جو انقلاب کے ذریعے ہی قائم ہو سکتا ہے۔ تحریکوں کا آغاز ہی اس وقت ہوتا ہے جب غلامی اور استحصال کو جواز مہیا کرنے والے حکمرانوں کے نظریات کو مسترد کر کے عوام خود میدان عمل میں آتے ہیں۔اس تحریک کا آغاز بھی اس وقت ہوا جب عوام نے حکمرانوں کے نظریات کی بجائے انقلابی نظریات، مطالبات ،نعروں اور پروگرام کو قبول کیا۔تحریک کے مطالبات نہ صرف انقلابیوں نے مرتب کیے ،بلکہ ان کے حصول کے لیے نصف صدی سے احتجاج، لانگ مارچ، جلسے ،جلوس اور سٹڈی سرکل کرتے رہے ہیں۔تحریک کے بنیادی نعرے ‘ ڈیم ہمارے ،قبضہ تمہارا۔۔ نامنظور’،‘ جدوجہد تیز ہو’،‘آٹا مہنگا ہائے ہائے’،‘ہم کیا جاہتے ۔۔ آزادی’،‘ انقلاب آئے گا’،‘جب تک جنتا بھوکی ہے ،یہ آزدی جھوٹی ہے’، سمیت دیگر دہائیوں سے جاری انقلابی پارٹیوں کی جدوجہد کے نتیجے میں عوام کے شعور کا حصہ بنے ہیں۔
آج جب تحریک نے حکمرانوں کی روایتی پارٹیوں کی سیاست اور نظریات کو مسترد کیا اور عوام نے متبادل کے نعروں کو اپنایا ۔اس وقت تاجر قیادت ان نعروں اور نظریات کو متنازعہ قرار دے رہی ہے ،جو عوام کے جذبات اور امنگوں کی ترجمانی کرتے ہیں۔یہ بات ثابت کرتی ہے کہ تجارتی سرمائے سے منسلک بڑے تاجروں کے مفادات وہی ہیں جو حکمران طبقے کے ہیں۔یہ طبقہ براہ راست عوام کو لوٹ کر مال کمانے میں ملوث ہونے کی وجہ سے ریاست اور حکمرانوں کے خلاف ایک حد سے آگے نہیں بڑھ سکتا ہے۔یہ طبقہ بھی انقلابی نعروں اور نظریات سے اتنا ہی خوفزدہ ہے جتنا حکمران طبقہ خوفزدہ ہے۔
یہ کوئی پہلی اور آخری تحریک نہیں ہے ،بلکہ آنے والے دنوں میں حکمرانوں کے معاشی اور ریاستی حملوں کے خلاف مزید تحریکیں ابھریں گی۔یہ کامیابی عوام کو تعلیم، علاج،روزگار اور انفراسٹرکچر سمیت دیگر جمہوری حقوق کے لیے جدوجہد کا حوصلہ دے گی۔ضرورت اس امر کی ہے کہ علاقائی سطح پر عوام کمیٹیوں کو عوامی پارلیمنٹ میں تبدیل کیا جائے ،جس میں جمہوری انتخاب اور تبادلہ خیال کے ذریعے محنت کش عوام کی حقیقی قیادت کو سامنے لایا جائے ،تاکہ اجتماعی قیادت کے ذریعے وہ حکمت عملی اور طریقہ کار وضع کیا جا سکے، جس سے ان خامیوں اور کمزوریوں پر قابو پایا جائے جس کا ذمہ دار شر پسندوں کو قرار دیا جا رہا ہے۔سماج میں نظریاتی بحث و مباحثے کو ختم کرنا حکمرانوں کی آمرانہ روش ہے ،تاکہ عوام اپنے مسائل اور اس کے حل کی جدوجہد کے شعور سے محروم رہیں۔ متبادل نظام، نظریات اور پروگرام نہ ہونے کی وجہ سے وہ ہمیشہ اسی حکمران طبقے کے استحصال کا خام مال رہیں۔