خبریں/تبصرے

’غلامی کی زنجیریں توڑ کر‘ افغانستان دنیا کا اداس ترین ملک بن گیا

لاہور(جدوجہد رپورٹ) ورلڈ ہیپی نیس رپورٹ کے تازہ ترین ایڈیشن کے مطابق طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد افغانستان تمام زمروں میں دنیا کا سب سے ناخوش ملک بن گیا ہے۔ تجزیہ میں شامل کئے گئے 143ملکوں میں سے افغانستان آخری نمبر پر ہے۔

اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے رچرڈ بینیٹ کے مطابق بین الاقوامی برادری کے کچھ اراکین صورتحال کی ناگزیریت کو قبول کرنے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ان کی رپورٹ میں کہا گیا کہ اس طرح کی تجارت سے طالبان کو انسانی حقوق کے ریکارڈ میں پیشرفت سے نجات ملے گی۔ رپورٹ کے مطابق طالبان کا خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ سلوک اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے اور اس وجہ سے طالبان کو حکومت کے طور پر تسلیم کئے جانے سے بنیادی طور پر نااہل قرار دیا گیا۔

دوسری جانب طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ نے طالبان کی شریعت کے قانون کا دفاع کیا ہے۔ مارچ میں سرکاری ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے ایک پیغام میں انہوں نے بین الاقوامی ناقدین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا مشن شریعت اور خدا کی حدود کو نافذ کرنا ہے۔ جب ہم خواتین کو سرعام سنگسار کرتے ہیں یا زنا کے مرتکب ہونے پر کوڑے مارتے ہیں تو آپ انہیں خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی کہتے ہیں، کیونکہ وہ آپ کے جمہوری اصولوں سے متصادم ہے۔ جس طرح تم پوری انسانیت کی آزادی کیلئے جدوجہد کا دعویٰ کرتے ہو، اسی طرح میں خدا کی نمائندگی کرتا ہوں اور تم شیطان کی نمائندگی کرتے ہو۔ مارچ کے آخر میں فاریاب اور خوست صوبوں میں طالبان کے عہدیداروں نے 9افراد کو زنا کے الزام میں سرعام کوڑے مار ے۔

طالبان نے فیس بک تک رسائی کو بھی محدود یا بلاک کرنے کی تجویز کا اعلان کیا ہے۔ زیر انفارمیشن اور ٹیلی کمیونیکیشن نجیب اللہ حقانی کا کہنا ہے کہ فیس بک کو مثبت طریقے سے استعمال کرنے کیلئے افغان نوجوان ان پڑھ ہیں اور اسے استعمال کرنا وقت اور پیسے کا ضیاع ہے۔

دوسری جانب اقوام متحدہ اپنے ہیومینیٹیرین ریسپانس پلان کیلئے 3.06ارب ڈالر کا مطالبہ کر رہا ہے تاکہ ایک اندازے کے مطابق23.7ملین افغانوں میں سے 17.3ملین کی مدد کی جا سکے۔

اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی امور نے فروری میں انسانی سرگرمیوں میں مداخلت کے 81واقعات رپورٹ کئے۔ رپورٹ کے مطابق 2023میں طالبان حکام اور سکیورٹی فورسز 1775واقعات میں سے 95فیصد کے ذمہ دار تھے۔

طالبان نے لڑکیوں کے چھٹی کلاس سے آگے سکول یا یونیوسٹی جانے پر ملک گیر پابندی برقرار رکھی ہے۔ قندھار میں 10سال کی عمر یا تیسری جماعت سے اگے لڑکیوں کے سکول جانے پر پابندی عائد ہے۔

تاہم طلابنا نے مدارس قائم کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ مدرسوں میں مرد طلبہ کی تعداد6836اور خواتین کی380ہو گئی ہے۔ نومبر2023سے فروری2024کے دوران طالبان کی رپورٹ کے مطابق 2464طالبعلم طالبان کے رجسٹرڈ مدارس سے فارغ التحصیل ہوئے، جن میں سے 128خواتین گریجویٹس تھیں۔

Roznama Jeddojehad
+ posts