جامیل بوی
امریکی جنرل مارک ملی، جو 2019 سے 2023 تک جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئر مین رہے، نے اپنی مدت ملازمت کے اختتام کے قریب، واشنگٹن پوسٹ کے نمائندے باب ووڈورڈ سے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کی سلامتی اور سالمیت کے لیے ایک بنیادی خطرہ ہیں۔جنرل نے ووڈورڈ کو بھی بتایا کہ”کوئی بھی شخص اس ملک کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ سے زیادہ خطرناک نہیں رہا۔ اب مجھے یہ احساس ہوا ہے کہ وہ مکمل طور پر فاشسٹ ہیں۔ وہ اس ملک کے لیے سب سے خوفناک شخص ہے۔“
ایک لمحے کے لیے یہاں توقف کرتے ہیں!
یہ واقعی غیر معمولی بات ہے کہ ملک کے اعلیٰ ترین جنرل نے کسی کو، خاص طور پر دنیا کے سب سے مشہور رپورٹرز میں سے ایک کو، یہ بتایا کہ سابق امریکی صدر ’فاشسٹ‘ ہیں — حتیٰ کہ ’(وہ) روح تک فاشسٹ ہیں‘ — اور آئینی نظام کے لیے ایک خطرہ ہیں۔ امریکی تاریخ میں سوائے ٹرمپ، ایسی مثال کے طور پر کسی کو پیش نہیں کیا جا سکتا۔ نہ ہی امریکی تاریخ میں ایسی مثال موجود ہے کہ ملک کی مسلح افواج کے اعلیٰ عہدے دار نے عوام کو اپنے ایک بار اور غالباً مستقبل کے چیف ایگزیکٹو کی طرف سے لاحق خطرے کی اطلاع دینے کے لیے مجبور محسوس کیا ہو۔
ملی کے بیان کی میں تازہ کاری سے زیادہ اہم حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام درست ہے۔
جنرل کی 2023 کی تشخیص شدہ خبر گزشتہ جمعہ کو سامنے آئی۔ اس دوپہر، جیسا کہ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے، ٹرمپ نے بیانیے کے گہرے اندھیارے میں مزید غوطہ لگاتے ہوئے اپنے پیروکاروں کو بتایا کہ وہ ملک کو ایک بار اور ہمیشہ کے لیے مہاجرین سے ’آزاد‘کرنے کے لیے 18ویں صدی کے ایک قانون کا استعمال کریں گے۔ٹرمپ نے ایکس پر لکھتے ہوئے کہا کہ”میں تم سے یہ وعدہ کرتا ہوں کہ پانچ نومبر 2024 کو امریکہ میں آزادی کا دن طلوع ہوگا۔“
انھوں نے مزید بیان کیا کہ،”میں اورورا اور ہر اس شہر کو بچاؤں گا جس پر حملہ ہوا اور جو فتح کیا گیا ہے۔ ہم ان بے رحم اور خونخوار مجرموں کو جیل میں ڈالیں گے یا ہماری سرزمین سے نکال باہر پھینکیں گے۔“
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا، ”اس وحشی گروہ کی بے دخلی کو تیز کرنے کے لیے میں 1798 کے غیر ملکی دشمنوں کے قانون کو استعمال میں لاؤں گا تاکہ امریکہ کی سرزمین پر کام کرنے والے ہر مہاجر مجرم نیٹ ورک کو نشانہ بنا کر توڑ دوں۔“
یہاں یہ وضاحت کی جانا قدرے ضروری ہے کہ، غیر ملکی دشمنوں کا قانون – جو امریکی سابق صدر جان ایڈمز کے توثیق کردہ بدنام زمانہ غیر ملکی اور غداری کے قوانین میں سے ایک ہے – ‘قانونی’ یا ‘غیر قانونی’ مہاجرین اور غیر ملکی شہریوں کے درمیان کوئی تفریق رواں نہیں رکھتا۔ یہ ایک ایسا بنیادی فرق ہے جو قانون کی منظوری کے وقت موجود نہیں تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی مہاجر جسے ٹرمپ انتظامیہ ‘دشمن غیر ملکی’ سمجھتی ہے، وفاقی حکومت کی جانب سے گرفتاری اور بے دخلی کا شکار ہو سکتا ہے یا اس کی زد میں آ سکتا ہے۔
اسے حقیقت کا روپ دینے کے لیے ٹرمپ نے کہا”ہم آئی۔سی۔ای، سرحدی نگرانی، اور وفاقی قانون نافذ کرنے والے افسران کے ایلیٹ دستے بھیجیں گے تاکہ وہ ہر ایک غیر قانونی مہاجر گینگ کے سرغنہ کو تلاش کر کے گرفتار کریں اور (ہماری سرزمین سے) بے دخل کر دیں یہاں تک کہ ایک بھی باقی نہ رہے۔“ انہوں نے بعد میں فاکس نیوز پر ماریا بارتیرو کے ساتھ ایک انٹرویو میں اس بارے میں وضاحتی رویہ اپناتے ہوئے کہا کہ”یہ مہم مہاجرین تک محدود نہیں رہے گی۔ میں ہمیشہ کہتا ہوں، ہمارے دو دشمن ہیں۔ ایک ہمارا بیرونی دشمن ہے، اور دوسرا ہمارا اندرونی دشمن ہے، اور میرے خیال میں اندر کا دشمن، چین، روس اور ان تمام ممالک سے زیادہ خطرناک ہے۔“
اس سب کو محض سخت بیانات قرار دے کر، ایک انتہائی بے ایمان شخص جو اوول آفس میں بیٹھا تھا کے کھوکھلے وعدے سمجھ کر نظرانداز کر کے مسترد کرنے کی ترغیب اور امکان دونوں بہرحال موجود ہیں۔ یہاں تک کہ اس کے حامی بھی، جیسا کہ میں نے اپنے نیوز روم کے ساتھی شاون میککریش سے دریافت کیا کہ ان کے الفاظ اور بیانات کو حقیقی گفتگو کے علاوہ کچھ سمجھا جا سکتا ہے – ایسے الفاظ جو احساسات کو منتقل کرتے ہیں، نہ کہ معنی۔ (یہاں یہ ایک الگ سوال ہے کہ کوئی بھی اس قسم کے شخص کو وائٹ ہاؤس میں کیوں چاہے گا۔)
جیسا کہ میں بار بار دلیل دے چکا ہوں، یہ ایک غلطی ہے۔ صدارتی بیان بازی، درحقیقت، صدارتی عمل سے مطابقت رکھتی ہے۔ یہ صدارتی عمل سے پہلے ہوتی ہے اور بعد کو اسے متعین کرتی ہے۔ جو کچھ ایک امیدوار انتخابی مہم کے دوران کہتا ہے، وہ اس سے یقینی طور پر جڑا ہوتا ہے جو وہ دفتر میں براجمان ہونے کے بعد کرے گا۔ مزید یہ کہ، اگر ٹرمپ کا کوئی ایک مستقل پیغام میڈیا کی زینت بنتا رہا ہے، تو وہ یہی ہے کہ وہ ریاست میں تشدد کی جانب مائل حربوں کو استعمال کریں گے تاکہ قوم کو ‘کچرے’ اور ‘گھٹیا لوگوں ‘ سے پاک کر سکے، خواہ وہ مہاجرین، پناہ گزین ہوں، اختلاف کرنے والے یا ایڈم شف اور نینسی پیلوسی کی طرح سیاسی مخالفین ہوں۔
اس بات کو درخور اعتنا سمجھے نہ جانے کی کوئی وجہ نہیں کہ سابق صدر محض بے معنی دھمکیاں دے رہے ہیں، خاص طور پر اس بات کے پیش نظر کہ جب بہ حیثیت صدر انہوں نے مظاہرین، مہاجرین، اور ریاست کے دیگر تصور کیے جانے والے دشمنوں کے خلاف تشدد کو استعمال کرنے کی کوششیں کیں۔ اساوین سویبسینگ اور ٹم ڈکنسن نے رولنگ اسٹون میں رپورٹ کیا کہ، ”جب وہ صدر تھے، اور کئی خیالات جو ٹرمپ نے بار بار اوول آفس میں چیخ کر پیش کیے، ان میں اجتماعی سزائیں دینا، اور امریکی پولیس یونٹس کو شہری علاقوں میں مشتبہ منشیات فروشوں اور مجرموں کو بندوق کی لڑائیوں میں ہلاک کرنے کی اجازت دینا شامل تھے۔ تاکہ گینگ کو ایک بھیانک پیغام دینے کے لیے ان کی لاشوں کو سڑکوں پر ڈھیر کیا جا سکے۔” یہ خیالات حقیقت میں صرف اس لیے نہیں بدلے کہ ان کے معاونین اور اعلیٰ حکام نے یا تو ان کے احکامات کو نظرانداز کیا یا ان پر عمل کرنے سے انکار کر دیا۔ لیکن اگلی بار، وہ وفاداروں اور خوشامدیوں سے گھِرے ہوں گے۔ اگلی بار، ہم اتنے خوش قسمت نہیں ہوں گے کہ اس تشدد سے بچ سکیں۔
کیا چیز اُن امریکیوں کی وضاحت کرتی ہے جو ٹرمپ کو سنتے ہیں اور، الٹی سوچ کے باوجود، یہ ماننے سے انکار کرتے ہیں کہ ٹرمپ جو کہہ رہا ہے، اس کا مطلب بھی یہی ہے، کہ وہ محض ‘حقیقت بیان کر رہا ہے’؟
جب دماغ شدید اور سخت ترین قسم کے دباؤ کا سامنا کرتا ہے، تو اس میں زیادہ تر مختصر سرکٹ نہیں ہوتا بلکہ یہ اپنی بنیادی ترتیب پر واپس آجاتا ہے۔ جس بناء پر انسان اپنے ماضی کے تجربات اور معمول کے طرزِ عمل کی طرف لوٹ جاتے ہیں تاکہ وہ موجودہ بحران کو سمجھ سکیں اور اس کا جواب دے سکیں۔ اس دوران دماغ غیر معمولی چیز کو پکڑتا ہے اور، نقصان کی خاطر، اسے معمولی بنا دیتا ہے۔ یہی وہ حرکت ہے جو فوجیوں، پائلٹس، ہنگامی حالات میں کام کرنے والے افراد کو تربیت دیتی ہے کہ وہ سوچے سمجھے بغیر عمل کریں۔ انہیں دوبارہ پروگرام کیا جاتا ہے تاکہ دماغ شدید دباؤ کے تحت ایک واضح طور پر متعین سیٹ کی طرف واپس جائے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو اسی غیر معمولی دباؤ کے طور پر تصور کیا جا سکتا ہے۔ وہ ایک آمر ہیں۔ ان کے نائب صدر، جن کے فکری اثرات میں ایسے لوگ شامل ہیں جو کھل کر جمہوریت کی مخالفت کرتے ہیں، شاید وہ اس سے بھی بدتر ہیں۔ ٹرمپ کی مہم واضح طور پر ایک آمریت پسندانہ طرزِ حکومت کا وعدہ کرتی ہے۔ انہوں نے بارہا اعلان کیا ہے کہ وہ صدر کے طور پر حاصل کردہ اختیارات کو لاکھوں امریکیوں، مہاجرین اور پیدائشی شہریوں کو دہشت زدہ کرنے کے لیے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اگر بہت سے امریکی، عام ووٹرز سے لے کر سیاسی اشرافیہ اور میڈیا تک، بے عملی کی حالت میں دکھائی دیتے ہیں، اور جو کچھ واضح طور پر ہمارے سامنے ہے، اسے قبول کرنے سے قاصر ہیں، تو شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ اس صورت حال کا دباؤ ہم سب پر اثر ڈال چکا ہے۔ واقعی ناقابلِ تصور چیز کا سامنا کرتے ہوئے، بہت سے امریکیوں نے یہ فرض کر لیا ہے کہ یہ ایک معمولی انتخاب ہے جس کے معمولی نتائج ہوں گے۔
کاش یہ سچ ہوتا۔
(بشکریہ: نیو یارک ٹائمز، ترجمہ: سید عدیل اعجاز)