لاہور(جدوجہد رپورٹ)غزہ کی پٹی پر جاری اسرائیلی جارحیت اور فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف دنیا بھر میں احتجاج جاری ہے۔ ان مظاہروں میں ایک عام منظر ’تربوز‘ رہا ہے، جسے اب فلسطین کی علامت کے طور پر بڑے پیمانے پر جانا جاتا ہے۔
تربوز کو فلسطین کی علامت کے طور پر ملنے والی اس شہرت کی تاریخ 5دہائیاں پرانی ہے۔ 1967میں اسرائیل نے فلسطینی پرچم کو بلند کرنے، یا اس کے چار رنگوں، سیاہ، سفید، سرخ اور سبز، کو ملا کر کوئی بھی بصری مواد پیش کرنے کو جرم قرار دے دیا گیاتھا۔
بعد ازاں 1980میں تین فلسطین فنکاروں نبیل عنانی، عصام بدر اور سلیمان منصور کو اسرائیلی فورسز نے رام اللہ میں اپنے فن پاروں میں فلسطینی پرچم کے رنگوں کو شامل کرنے پر گرفتار کر لیا تھا۔ فنکاروں سے کہا گیا کہ وہ مستقبل میں اپنے کیے گئے کام کو اسرائیلی فورسز کے سامنے پیش کریں، تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ فن پارے سیاسی مواد اور فلسطینی پرچم کے رنگوں سے پاک ہوں۔ اسی وقت اسرائیلی پولیس کے سربراہ نے انہیں متنبہ کیا کہ اگر آپ ایک خربوزے کا ڈیزائن بھی بناتے ہیں تو وہ بھی ضبط کر لیا جائے گا۔
2007میں، جب سبجیکٹو اٹلس آف فلسطین پراجیکٹ کے لیے فلسطینی پرچم کے ڈیزائن پیش کرنے کے لیے کہا گیا، تو اس وقت مصور خالد ہورانی نے اس کہانی سے تحریک حاصل کی اور تربوز کی تصویر کو بطور جھنڈا تجویز کیا۔ فلسطینی پرچم کے چار رنگوں کے استعمال کے باوجود ہورانی کا ڈیزائن کردہ یہ جھنڈا ابتدائی طور پر مزاحیہ، غیر سیاسی یا حقیقتاً مضحکہ خیز لگتا تھا۔ تاہم ہورانی کا یہ تربوز جھنڈا قبضے اور جبر کے مقابلے میں فلسطینی تخلیقی مزاحمتی حکمت عملی کی بھرپور نمائندگی کے طورپر جانا جانے لگا۔
مئی 2021میں غزہ پر اسرائیلی جنگ اور یروشلم کے فلسطینی محلے شیخ جراح میں نسلی تطہیر کی کوششوں کے خلاف عالمی مظاہروں کے دوران ہورانی کی یہ تخلیق سوشل میڈیاپر پھیلناشروع ہوئی۔ لوگوں نے قمیضوں، بینروں، گرافٹی کام اورٹیٹو وغیرہ میں اس ’تربوز پرچم‘ کو استعمال میں لاتے ہوئے احتجاج ریکارڈ کروایا۔ یوں فلسطین سے متعلق مواد کی بڑے پیمانے پر سنسرشپ کے وقت سامنے آنے والی تربوز کی تصویر نے فلسطین کے ساتھ یکجہتی کی بین الاقوامی علامت کے طور پر اپنا مقام مضبوط کر لیا۔