لاہور(جدوجہد رپورٹ)گلوبل وارمنگ اس دنیا کا اس وقت سب سے سلگتا مسئلہ بن چکی ہے۔ فاسل فیول کے استعمال سمیت دیگر معاشی اور پیداواری سرگرمیوں کی وجہ سے گرین ہاؤس گیسوں کا بڑے پیمانے پر اخراج ہو رہا ہے، جس کی وجہ سے کرہ ارض کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے اور خشک سالی، گرمی اور سردی کی شدت میں اضافہ، گلیشئرز کا پگلنا، سطح سمندر کا اوپر آنا، موسمیاتی طوفانوں میں شدت سمیت بے شمار ایسے مسائل ہیں، جو مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ گلوبل وارمنگ اس کرہ ارض پر زندگی کی بقاء کو سنجیدہ خطرہ لاحق ہو چکا ہے۔
عالمی حکمران گلوبل وارمنگ کے ذمے داروں کا تعین کرنے اور اپنے کیے گئے نقصانات کا ازالہ کرنے سے ہمیشہ کتراتے ہیں۔ تاہم اعداد و شمار کا اگر گہرائی میں تجزیہ کیا جائے تو گلوبل نارتھ کے ملکوں بالخصوص شمالی امریکہ اور یورپ کے امیر ترین سرمایہ دارکاربن کے اخراج کے سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں۔
’انٹرنیشنل ویو پوائنٹ‘ کی رپورٹ کے مطابق شمال کے ملکوں کی امیر ترین ریاستوں اور بڑی کارپوریشنوں نے کئی جرائم کیے ہیں۔ فاسل انرجی کے سب سے زیادہ استعمال اور کاربن کے اخراج کے ذمہ دار بھی سب سے زیادہ یہی لوگ ہیں۔
رپورٹ کے مطابق نہ صرف یورپ اور شمالی امریکہ نے کرہ ارض کی پوری تاریخ میں جاری ہونے والی تمام گرین ہاؤس گیسوں میں سے نصف پہلے ہی خارج کر دی ہیں بلکہ 2020تک وہ ’باقی کاربن بجٹ‘ سے بھی زیادہ خارج کر چکے ہیں۔ یہ وہ مقدار تھی جس کی وجہ سے گلوبل وارمنگ کو 1.5یا 2ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود کرنے کے لیے متعین کیا گیا تھا۔
1850کے بعد سے شمالی امریکہ اور یورپ نے عالمگیریت اور نوآبادیاتی سرمایہ داری کو آگے بڑھایا اور ماحول میں گرین ہاؤس گیسوں کے کل اخراج کا زیادہ تر حصہ ڈالا۔ یہ رجحان آج بھی جاری ہے، تاہم عالمگیر سرمایہ داری میں جنوب کے ملکوں کے انضمام نے اس شرح کو قدرے کم کیا ہے۔
2019میں شمالی امریکہ اور یورپ، جو عالمی آبادی کا12فیصد ہیں، نے زمین پر گرین ہاؤس گیسوں کے تمام اخراج کا تقریباً30فیصد خارج کیا۔ چین 2019میں کرہ ارض کی آبادی کا 18فیصد تھا، لیکن اس کا کل اخراج میں تقریباً25فیصد حصہ تھا۔
افریقہ، لاطینی امریکہ اور چین کے علاوہ باقی ایشیائی ممالک دنیا کی آبادی کا دو تہائی حصہ ہیں، لیکن 2019میں دنیا بھر میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں ان کا حصہ محض38فیصد تھا۔ اگر ہم 1850کے بعد سے تاریخی اخراج پر نظر ڈالیں تو ان ملکوں کا حصہ کل اخراج کے 30فیصد سے بھی کم ہے۔
سب صحارا افریقہ، شمالی افریقہ، مشرقی وسطیٰ، جنوبی اور مشرقی ایشیا نے پوری تاریخ میں صرف یورپ یا صرف شمالی امریکہ کے مقابلے میں کم کاربن کا اخراج کیا ہے۔
جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا دنیا کی ایک تہائی آبادی کی نمائندگی کرتا ہے، لیکن گرین ہاؤس گیسوں کے کل اخراج میں اس کا 15فیصد سے بھی کم حصہ ہے۔
2019میں دنیا کے بڑے خطوں کے لحاظ سے اوسطاً فی شخص اخراج پر نظر ڈالی جائے تو شمالی امریکہ اب تک سب سے زیادہ آلودگی پھیلانے والا خطہ ہے، جہاں ہر سال اوسطاً20.8ٹن فی شخص کاربن خارج ہوتا ہے، جو کہ گلوبل وارمنگ کو 2ڈگری سینٹی گریڈ سے کم تک محدود کرنے کے لیے 3.4ٹن کاربن فی شخص سالانہ یا 1.5ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود کرنے کے لیے 1.1ٹن فی شخص سالانہ کی اوسط سے بہت زیادہ ہے۔ امریکہ کا ایک شہری سب صحارا افریقہ کے ایک شہری کے مقابلے میں اوسط 13گنا زیادہ کاربن کے اخراج کا باعث بنتا ہے۔ سب صحارا افریقہ اور جنوب و جنوب مشرقی ایشیا میں فی کس کاربن اخراج کی اوسط اس کم سطح پر موجود ہے، جو کرہ ارض کا درجہ حرارت 2ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھنے سے روکنے کے لیے ضروری ہے۔ 1.5ڈگری سینٹی گریڈ تک درجہ حرارت بڑھنے کے لیے اوسط اخراج کی حد تمام براعظموں میں ہی تجاوز ہو چکی ہے۔
کاربن اخراج کی سب سے زیادہ اوسط سطح شمالی امریکہ، یورپ، روس اور وسطی ایشیا میں ہے، اس کے بعد جاپان، جنوبی کوریا اور پھر مشرقی وسطیٰ اور شمالی افریقہ ہیں۔
کاربن اخراج میں عدم مساوات بھی بہت وسیع ہے۔ گلوبل نارتھ میں بھی امیروں اور غریبوں کے فی کس اخراج میں ایک بہت بڑی خلیج موجود ہے، اسی طرح گلوبل ساؤتھ میں یہ خلیج مزید وسیع ہو جاتی ہے۔
امیر ترین افراد اور بڑی کارپوریشنیں آب و ہوا کی خرابی کے ذمہ دار ہیں۔
2019میں کرہ ارض پر سب سے زیادہ کاربن کا اخراج کرنے والے 10فیصد افراد نے دنیا کے کاربن اخراج میں نصف سے زیادہ حصہ ڈالا۔ دنیا کے 1فیصد سب سے زیادہ کاربن کے اخراج اور آلودگی پھیلانے کے ذمہ داروں نے دنیا کے 50فیصد سب سے کم کاربن اخراج کرنے والوں سے زیادہ کاربن کا اخراج کیا۔ دوسرے لفظوں میں 8کروڑ انسان4ارب انسانوں کے مجموعی نقصان سے زیادہ نقصان کر رہے ہیں۔
یوں اگر ہم امیر ترین 10فیصد پر پابندیاں نہیں لگاتے اور انہیں کاربن کا اخراج کم کرنے پر مجبور نہیں کرتے توگلوبل ساؤتھ کی طرح شمال میں بھی غریب اور متوسط طبقے کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے احساس جرم کی ترغیب دینا اور بیداری پیدا کرنا بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔
شمالی امریکہ کی امیر ترین10فیصد آبادی یورپ کے امیر ترین 10فیصد افراد کے مقابلے میں اوسط فی کس دوگنا کاربن کے اخراج کا باعث بنتی ہے۔ شمالی امریکہ میں سب سے غریب ترین نصف آبادی بھی اوسطاً فی کس سالانہ جتنے کاربن اخراج کا باعث بنتی ہے، اتنا اخراج سب صحارا افریقہ، جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں کی امیر ترین10فیصد آبادی بھی نہیں کرتی۔ یہی وجہ ہے کہ شمالی امریکہ پر اب آب و ہوا کا ایک بڑا قرض واجب الادا ہے اور موسمیاتی رکاوٹوں کو محدود کرنے کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے بہت زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
سب صحارا افریقہ اور جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا کی آبادی کا 90فیصد، لاطینی امریکہ کی نصف آبادی، مشرقی وسطیٰ اور شمالی افریقہ کی نصف آبادی اور مشرقی ایشیاء کی نصف آبادی کا اوسط اخراج گلوبل وارمنگ کی 2ڈگری کی حد سے نیچے ہے۔
نتیجتاً آب و ہوا کی رکاوٹوں کو محدود کرنے کی کوششوں کا بوجھ برداشت کرنا شمال کے ملکوں، یعنی شمالی امریکہ، یورپ، روس اور مشرقی ایشیا، اور خاص طور پر امیر ترین طبقات، بڑی کارپوریشنوں اور حکمران طبقے کی ذمہ داری ہے۔